لواری ٹنل کا اذیت ناک سفر: سینکڑوں مسافر گھنٹوں تک محصور رہے، انتظامیہ ، پولیس ،چترال سکاؤٹس کی کوششیں، ملکی میڈیا کی طرف سے بھرپور کوریج
چترال (سیدنذیرحسین شاہ نذیر) ہفتہ کے روز پشاور سے چترال آنیوالے سینکڑوں گاڑیاں اور ہزاروں مسافر این ایچ اے کی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے لواری ٹنل کے دونوں طرف اذیت ناک حالات موت و حیات کی کشمکش سے دوچار ہوئے۔ تفصیلات کے مطابق این ایچ اے کی طرف سے شیڈول پر عملدرآمد میں ناکامی اور انتہائی ناقص بندوبست کی وجہ سے مسافروں کو جو تکلیف درپیش ہے وہ نا قبل بیان ہے۔ مقررہ وقت پر عملدرآمد نہ کرنے کی وجہ سے نہ صرف ٹنل کے دونوں اطراف رش میں اضافہ ہو تا ہے بلکہ ٹریفک جام ہونا معمول بن چکاہے جس پر کنٹرول کرنے میں مسلسل ناکامی ہورہی ہے۔ ہفتہ کے روز پشاور سے چترال آنیوالے گاڑیوں کوچار بجے ٹنل میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی مگر زیارت کے مقام پرشام پانچ بجے برفانی تودہ گرنے سے ٹریفک بلاک ہو گیا مگر راستے سے برف کو ہٹا نے کے حوالے سے کوئی کوششیں نہیں کی گئیں۔ پہلے مسافروں کو بتایا گیا کہ راستہ ایک گھنٹے میں صاف کیا جائیگا مگر ایک گھنٹے بعد مسافروں کو بتایا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں اور رات کھلے آسماں تلے زیارت کے مقام پر گزاریں۔ زیارت کے مقام پر تین میں سے دو ہوٹل بند تھے جبکہ ایک ہوٹل میں سینکڑوں کی تعداد میں مسافر موجود تھے مگر وہاں پر کسی قسم کے انتظامات موجود نہیں تھے، سینکڑوں کی تعداد میں خواتین اور مرد ایک ہی ہوٹل میں موجود تھے ، وہاں پردے کا کوئی انتظام نہیں تھا،جبکہ اکثر افراد اپنی گاڑیوں میں بیٹھے رہے۔ زیارت شلٹر ہاؤس میں بھی کافی تعداد میں مسافر جمع تھے جبکہ شلٹر ہاؤس سے دور گاڑیوں کے مسافر اپنی گاڑیوں میں دبکے رہے۔سڑک بند ہونے سے گاڑیوں کی لمبی قطاریں بن گئیں جو کہ ٹنل کے اندر بھی پھنسے رہے۔ اس موقع پر زیارت میں موجود چترال پوسٹ کے چیف ایڈیٹر کی طرف سے ملکی میڈیا جیو نیوز، ڈان، اے آر وائی، سچ ٹی، روز ٹی وی اور ابتک نیوزکے علاوہ چترال ٹوڈے کیساتھ فون پر رابطہ کیا گیا جنہوں نے اس انسانی المیہ کے خبر کو نہایت اہمیت کیساتھ فوری طور پر اجاگر کیا ۔اس دوران وہاں پر موجود سیکورٹی اہلکاروں کے زبانی معلوم ہوا کہ ٹنل تک آئے ہوئے گاڑیوں کو واپس دیر بھیجوانے کی ہدایات ملی ہیں۔ اسی اثناء اسسٹنٹ کمشنر دروش بشارت احمد نے چترال پوسٹ سے رابطہ کرکے انہیں مطلع کیا کہ مسافروں کو زیارت سے بحفاظت نکالنے کا انتظام کیا جارہا ہے اور وہ خود زیارت آرہے ہیں اور چترال سکاؤٹس کے ساتھ ملکر کوئی لائحہ عمل ترتیب دینگے۔ تھوڑی دیر بعد اسسٹنٹ کمشنر دروش بشارت احمد، ایس ڈی پی او دروش ظفر احمد، ایس ایچ او دروش مولائی شاہ اور پولیس نفری زیارت پہنچے اور انہوں نے چترال پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر چترال اور کمانڈنٹ چترال سکاؤٹس نے راستے سے برف ہٹانے کی ہدایت کی ہے اور اس سلسلے میں ونگ کمانڈر 144ونگ میرکھنی متعلقہ اداروں کیساتھ رابطے میں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چترال سکاؤٹس کی طرف سے گاڑیاں بھی فراہم کی گئی ہیں اور اگر برف ہٹانا ناممکن ہوا تو مسافروں کو چھوٹے ٹنل سے پیدل نکال کر چترال سکاؤٹس کی گاڑیوں میں دروش پہنچایا جائیگا جبکہ یہ بھی بتایا گیا کہ ونگ کمانڈر 144ونگ میرکھنی خود بھی براڈم پہنچ چکے ہیں۔ دروش سے آئے ہوئے افسران کی طرف سے انجنیئر کور کے افسران سے رابطہ کے بعد رات ساڑھے 11بجے برف کی صفائی کا کام شروع کیا گیا جوکہ رات ایک بجے مکمل کر لی گئی اور مسافروں کو جانے کی اجازت ملی۔ اسی طرح چترال آنیوالے مسافر کئی گھنٹے شدید سردی، برفباری کے عالم میں نہایت کرب، اذیت اور کسمپرسی کی حالت میں آٹھ گھنٹے سے زیادہ محصور رہنے کے بعد منزل کی طرف روانہ ہو گئے ۔موقع پر موجود لوگوں نے ممبران اسمبلی کی بے حسی اور چترال کے مسائل سے چشم پوشی کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ صوبائی اسمبلی میں تین اراکین موجود ہیں مگر وہ لب ہلانے کے قابل نہیں۔ اس تمام واقعے میں چترال سکاؤٹس، اسسٹنٹ کمشنر دروش، ایس ڈی پی او دروش اور ایس ایچ او دروش کی کارکردگی نہایت حوصلہ افزا رہی کیونکہ شدید سردی اور برفباری کے دوران وہ پیدل چل کر زیارت اور ٹنل پہنچے ۔ موقع پر موجود لوگوں نے کمانڈنٹ چترال سکاؤٹس، ونگ کمانڈر 144ونگ،اے سی دروش، ایس ڈی پی او دروش اور آرمی انجنیئرکور کو خراج تحسین پیش کیا ۔اس موقع پر آرمی انجنیئر کور کے ایک کیپٹن نے چترال پوسٹ کو بتایا کہ شدید برفباری کی وجہ سے انہیں کام کرنے میں دشواری پیش آرہی تھی اور اگر موسم صاف ہوتا تو وہ اسی وقت راستہ صاف کر لیتے۔ آرمی آفیسر مسافروں سے بھی ملے اور انہیں بتایا کہ آرمی عوام کی سہولت کے لئے یہاں موجود ہے اور عوام بھی تعاون کریں ۔بعد ازاں وہاں پر موجود لوگوں نے اے سی دروش، ایس ڈی پی او دروش، چترال سکاؤٹس اورپاک فوج کے حق میں نعرے لگائے۔ بعد ازاں گاڑیاں مختلف جگہوں پر پھنس بھی رہی تھیں جنہیں آرمی، چترال سکاؤٹس اور پولیس کے جوان لوگوں کیساتھ ملکر نکالتے رہے۔