کالمز
ڈپٹی کمشنر غذر کے نام
ممتاز حسین گوہر
تبدیلی کبھی بھی یک دم اور زبردستی نہیں آتی. کسی مخصوص علاقے میں ترقی و تبدیلی کے لیے وہاں کے روایات، حالات، اچھائیوں اور برائیوں کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے. ڈی سی غذر نے علاقے میں کئی اہم اقدامات کئے ہیں، جن میں سرکاری ملازمین کی دفاترحاضریوں کو یقینی بنانا، ترقیاتی کاموں کی مانیٹرنگ، بچوں کی اسکول میں داخلوں سمیت دیگر کئی کام شامل ہیں. جسے اکثرعلاقے کے عوام و دیگر طبقوں نے سراہا ہے. مگر رائے منظور صاحب دو اہم عادتوں کی وجہ سے عوام میں پذیرائی حاصل نہیں کر پائے. ان کی پہلی خامی یا عادت ہے، ہر وقت میڈیا میں زندہ رہنے کا شوق، کوئی کام چھوٹا ہو یا بڑا بس اگلے دن اسکی تشہیر ضرور ہو. میڈیا والوں کیلئے اتنا وقت جتنا دیگر طبقوں کے لیے نہیں. دوسری عادت ہے انکی چودراھٹ اور آمرانہ رویہ. وہ چاہتے ہیں کہ ہر بندہ ایسی ہی خصوصیات کا حامل ہو جیسا وہ چاہتے ہیں. اپنے سٹاف اور سرکاری ملازمین کے علاوہ وہ اکثر عام شہریوں پر بھی برسنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں. کاش وہ ان دو باتوں کو سمجھیں کہ تبدیلی ٹھونسی نہیں جاتی، بلکہ بتدریج لائی جاتی ہے. اور ہر کام کا کریڈٹ لینا اور تشہیر ضروری نہیں ہوتا، اخبارات کی سرخیوں میں زندہ رہنے اور غریب عوام کے دلوں میں زندہ رہنے میں بڑا فرق ہوتا ہے. ہاں اگر آپ یا کوئی یہ سمجھتا ہے، کہ اسٹاف کام چور ہیں، یہ کچھ سمجھ نہیں سکتے، تو اسکا حل یہ تو نہیں ہے کہ ہر وقت انکے سر پر سوار رہیں. مہمانوں کے سامنے اسٹاف کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اپنایئں. اسٹاف کو انسان نہیں بلکہ اپنے ذاتی نوکر سمجھ لیں کہ جب اور جیسے چاہیں ان سے کام لیں. یہ باتیں اور عادتیں یہاں کی علاقائی روایات کے بھی منافی ہے. کسی ضلعے کے سربراہ ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ آپ وہاں کے عوام کے دلوں کے بھی سربراہ ہے. یہ لوگ محبّت کو سمجھنے والے اور اسکا احترام کرنے والے لوگ ہیں. لیکن محبّت کے نام پر اپنے عزت نفس کو کبھی داؤ پر نہیں لگا سکتے. جناب منظور حسین صاحب! آپ بہت اچھا کر رہے ہیں، مگر آپ کم از کم اپنی ان دو عادتوں کو بدلیں. آپ کے ہر اچھے کام کا یہاں کے عوام اس سے بڑھ کر داد دینگے. جب کوئی حقیقی تبدیلی والا کام نظر آئے گا، تو یہ لوگ خود آپکو داد دینگے پھر آپکو صحافیوں کی منتیں کرنی پڑینگی، نہ ہی اخبارات کی سرخیوں کی ضرورت پڑے گی. مشور مصنف سٹیفن آر کوے کہتے ہیں کہ تبدیلی کا آغاز سب سے پہلے انسان کے اپنے دل اور دماغ سے ہوتا ہے. اور اگر انسان کے دماغ میں خاکہ اور دل میں جزبہ نہ ہو تو وہ ترقی و تبدیلی کو نہیں چھو سکتا. ماشااللہ آپکے پاس بڑی حد تک یہ دونوں چیزیں ہیں مگر آپکا طریقہ عمل غلط ہے. اور اس طریقہ عمل میں اوپر ذکر شدہ دونوں باتیں انتہائی اہم ہے. آپکو ایک بار پھر اپنی ان عادتوں کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا. اکثر جذباتی اقدامات اور فیصلوں کا نتیجہ بڑا مایوس کن ہوتا ہے. آج اگر آپکے اپنے تمام اسٹاف ہی آپ کے خلاف بغاوت پر کھرے ہوتے ہیں، دفتر کو تالے لگاتے ہیں، تو ہم صرف یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ سارے کام چور سفارشی اور وقت گزاری کرنے والے ملازم ہیں، کیا لیڈر شپ اور سربراہی یہ ہوتی ہے کہ اپنے گھر والوں کو ہی نہ سنبھال سکھیں اور انھیں ہی بغاوت پر مجبور کر دیں. دنیا میں بڑے حکمران اور افسران گزرے ہیں، جنھوں نے اپنے ما تحتوں کے دل جیت کر تبدیلی لایا ہے، مگر بہت ہی کم انکے اپنے ما تحت انکے خلاف اٹھ کھڑے ہوۓ ہیں.