نوروز ،تاریخ اور ارتقاء
نوروز فارسی زبان کے دوالفاظ’ نو‘ یعنی’ نیا‘ اور’ روز‘ یعنی’ دن‘ کا مرکب ہے اگرچہ تاریخی حوالوں میں نوروز کی ابتدأ سے متعلق کوئی متفقہ آرأ موجود نہیں البتہ نوروز کی ابتدا کے بارے میں کئی ایک روایات دستیاب ہے یہ کہ نوروز زرتشتوں کا مذہبی تہوارتھا زرتشتی مذہب کے پیروکار اس دن آگ جلا کررقص ومستی کرتے تھے جوکہ ان کی عبادت تھی۔ دوسری روایت یہ ہے کہ مارچ بالخصوص 21مارچ کے بعد بہار کی آمد ہوتی ہے اور نوروز بھی بہار کے آمد کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔چونکہ 21 مارچ کو زمین سورج کے گرد اپناایک چکر مکمل کرتا ہے اسی طرح ایک شمسی سال مکمل ہوتا ہے شمسی سال کی ابتدأ بھی سب سے پہلے فارس میں ہوا اور وہاں سے شمسی کلینڈرتیارکیاگیا اس دن کائنات تخلیق ہونے کے بعد پہلی مرتبہ اپنی حرکت شروع کی تھی اسی وجہ سے نوروز کو زمین کی پیدائش کا دن بھی قراردیتے ہیں۔’’ ہوئی جس دن زمین پیدا وہی نوروز ارضی تھا ، کہ ہر تارا ہے اک دنیا یہی ہے مژدۂ نوروز‘‘۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ سینکڑوں برس قبل کردستان میں’زہاک‘ نام کا ایک ظالم و جابر بادشاہ حکومت کرتا تھا ان کے دونوں کندھوں پر سانپ اُگ آئے تھے جنکا خوراک انسانی دماغ تھا ’زہاک‘روزانہ کرد قوم کے دو افراد کو قتل کر کے مغز ان سانپوں کو کھلاتے تھے اسی قوم میں’ کاوا‘ نام کا ایک شخص بھی رہتا تھا جس کے تین بیٹے تھے بادشاہ کے حکم پر دو بیٹوں کو سانپوں کی خوراک بنائی گئی جب تیسرے بیٹے کی باری آئی تو انہوں نے انکا رکر دیا اور عوام کو اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی ترغیب دی قوم نے ان سے کہا کہ کیا آپ ہماری قیادت کر سکتے ہیں تو ’کاوا‘نے اس مطالبے کو تسلیم کیا اور ایک بڑے جلسے کی صورت میں ’زہاک‘ کے قلعے کی طرف مارچ شروع کی قلعہ پہنچنے کے بعد دروازہ توڑتے ہوئے اندر داخل ہوئے اور ظالم’ زہاک‘ کا کام تمام کر دیا چونکہ اس دور میں کمیونیکشن کا کوئی خاص انتظام موجود نہیں تھاکہ اس خبر کو عوام تک پہنچایا جاسکے اس لئے انہوں نے اونچے ٹیلوں میں جا کر آگ لگا دی اور’زہاک ‘کی ہلاکت کی خوشی میں ناچنے لگے اس کے بعد ہر سال ’نوروز‘ کو کرد قوم جشن آزادی کے طور پر مناتے ہیں۔تاریخ میںیہ بھی لکھاہے کہ جب نامور بادشاہ جمشید سرکاری طورپر فارسی سلطنت کی بنیاد رکھی تو انہوں نے اس دن کو نوروز یعنی نیادن ڈیکلئیر کیا اور اسکے بعد ہر سال نوروز کا تہوار جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔ ایران میں نوروز ’فروردین‘کے یکم سے 13تاریخ کو منایاجاتا ہے ’فروردین‘ شمسی کلینڈر کا پہلا مہینہ ہے جو کہ زرتشتی زبان کے لفظ ’فراواشیس‘ سے ماخوز ہے جسکامطلب موت کے بعد نئی زندگی کی شروعات ہے۔
نامور ایرانی اسکالر ڈاکٹر علی شریعتی لکھتے ہیں ’ یہ (نوروز)کائنات کے جشن، زمین کی خوشی،سورج اور آسمان کی تخلیق کادن ہے۔وہ عظیم فاتح دن جبکہ ہر ایک مظہر پیداہواترقی کی اور خوشحالی حاصل کرتے ہیں‘‘۔ ایران میں نوروزکے لئے ’ہفت سین ‘کا میز سجایا جاتا ہے ہفت کا مطلب سات اور سین کا مطلب وہ اشیأ جنکے نام کا پہلا حرف ’س‘سے شرو ع ہوتاہے جیسے ’سین جید‘،’سوماق‘،سیب ،سیر ،سمانو ،سبزی اور سنبل‘۔ ان تما م اجزا کوسجانے کے پیچھے ایک خاص نظریہ موجود ہے ’سین جید‘ سویٹ اور خشک میوے ہوتے ہیں جو کہ پیار ومحبت کی علامت ہے ،’ سومق ‘مسالوں سے بنی ہوئی چٹپٹی خوراک ہے جو کہ طلوعِ سورج اور بہترین زندگی کی علامت تصور کیجاتی ہے ’سیر‘ اچھی صحت اور خیر وعافیت کی،’سمانو‘نرم حلوہ ہوتا ہے جو زندگی کی خوبصورتی اور مٹھاس کے لئے استعمال ہوتا ہے ’سبزی‘ اناج کے گھا س کی شاخین ہوتی ہے جو موت کے بعددوبارہ زندگی کی نئی شروعات اور نیچر کی دوبارہ پیدائش کی علامت ہے ’سنبل ‘کا پھول کامیابی ،خوشحالی اور خیر خواہی کو ظاہر کرتی ہے جبکہ اسکے ساتھ ہی ’ ہفت سین‘ کی میز میں آئینہ بھی رکھا جاتا ہے جو پاکیزگی ،شفافیت اور دیانتداری کی علامت ہوتی ہے ۔نوروز کا سب سے بڑاتہوار ایران کے جنوی شہر شیراز کے’ تخت جمشید ‘میں منایا جاتا ہے اس دن ایران کے مختلف حصوں اور بیرونی دنیا سے لوگوں کی کثیر تعداد شیراز یا اصفہان کی جانب سفرکرتے ہیں ۔ایران کے علاوہ بہت سارے ممالک میں نوروز کو سرکاری طور پر منایاجاتاہے ،افعانستان،البینیا ، آزربائجان، جارجیا، کوسوو، کرغز ستان ، ازبکستان ، عراق، قازقستان، تاجکستان، ترکمانستان، عراقی ترکستان وغیرہ میں نوروز کے دن سرکاری چھٹی ہوتی ہے ۔ہندوستان میں مغلوں کے دورِ حکومت میں نوروز سرکاری طورپر منایا جاتا تھا نامور تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں ’چونکہ عرب کی تہوار ثقافتی طورپر اتنے رنگین اوردلکش نہیں تھے جتنے کے ایران وہندوستان کے ،لازمی طورپر مسلمان ان سے متاثر ہوئے اور تبدیلی مذہب کے بعد لوگ ان روایات کو بطورورثہ اپنے ساتھ لائے انہوں نے ان تہواروں اور رسومات کو جاری رکھا اس لئے مسلمان بادشاہوں کے دربار میں’نوروز‘کا تہوار بڑی شان وشوکت کے ساتھ منایا جاتا رہا‘ (المیہ تاریخ ،ڈاکٹر مبارک علی صفحہ ۹۹)۔پاکستا ن کے شمالی علاقوں(گلگت بلتستان اور چترال) میں جشن نوروز ثقافتی ا ور مذہبی عقیدت واحترام سے منایا جا تا ہے چترال کے بعض تاریخی حوالوں سے ظاہر ہوتا ہے ۔کہ سابقہ ریاستی دور میں’ نوروز‘ ریاستی سطح پر منایا جاتا تھا اسی دن بہار کی آمد کی خوشی میں پولو کا میچ ہوتا جس کو دیکھنے کیلئے مہتر چترال بھی گراؤنڈ پر تشریف لے جاتے مختلف قسم کے روایتی کھانے پکائے جاتے تھے اور رات کو محفل موسیقی کاانعقادہوتا تھا اس دن دہقان کھیت میں جاکر کام کا آغاز کرتے ہیں یاد رہے نوروز کی آمد سے پہلے زمینوں میں کام کرنے کو بد شگونی تصور کیا جاتا ہے ۔
جشنِ نوروز کا آغاز آج سے ہزاروں برس قبل ہوا ترقی کے مختلف مدارج طے کرتے ہوئے اب یہ تہوار بین الاقوامی شہرت اختیار کر چکا ہے اقوام متحد ہ کی جنرل اسمبلی نے 2010ء میں نورو ز کو انٹرنیشنل فیسٹول قرا ر دیا، اسی مناسبت سے ا یران نے خصوصی ڈاک ٹکٹ کا اجرأکیاجو کہ پہلی’ انٹرنیشنل نوروز ڈے‘ منعقدہ تہران 27مارچ 2010 کو ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کی موجودگی میں جاری کر دی گئی اس موقع پرسابق ایرانی صدرمحمود احمدی نژاد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ جشن نوروز نہ صرف کلچر کی ترقی کی علامت ہے بلکہ یہ قوموں کے درمیا ن دوستانہ تعلقات کے فروع ،امن اور ایکدو سرے کو عزت دینے میں مدددے گی ‘ ‘اقوام متحدہ کے غیر محسوس تہذیبی وراثتوں کے انٹر گورنمنٹل کمیٹی 28ستمبر سے 2 اکتوبر 2009ء کو دبئی میں منعقدہ اپنے ایک میٹنگ میں نوروز کو سرکاری طور پر یونیسکو کے انٹینجیبل کلچرل ہیریٹج آف ہیومنیٹی کے ساتھ رجسٹرڈ کر دیا۔30مارچ 2009ء کو کینڈین پارلیمنٹ نے اپنی اجلاس میں ایک بل پاس کرتے ہوئے نوروز کو قومی کلینڈر میں شامل کیااس کے ساتھ ہی امریکہ کے ایوان نمائندگان نے بل پاس کرتے ہوئے نوروز کی ثقافتی اور تاریخی اہمیت کو تسلیم کیا ۔نوروز ایک ایسا ثقافی تہوار ہے جو اپنے ساتھ علم دوستی،مساوات اور بھائی چارگی کی روایات لے کرطلوع ہوتا ہے ۔