بلدیاتی انتخابات میں عوام کا امتحان
خدا خداکرکے آخر کار پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات کا اعلان کردیا جوکہ تیس مئی کو منعقد ہونگے کسی بھی معاشرے میں جمہوریت کی بقا ء اور استحکام کا دارومدار بلدیاتی نظام پر منحصر ہے لیکن ہمارے معاشرے میں کسی بھی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات سے بھاگنے کی پالیسی پر گامزن رہی جبکہ فوجی آمریتوں نے اپنے مقاصد کے بلدیاتی انتخابات منعقد کرتے رہے ۔ اب جبکہ کئی سال کی طویل انتظار کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات کا فیصلہ کردیا ہے تو اسے ’دیر آید درست آید‘ کہنا بے جا نہ ہوگا ۔ملک میں بلدیاتی نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے جہاں کرپشن،اقرباپروری اور ممبران اسمبلیوں کی بدعنوانیاں عروج پرپہنچ گئی وہیں جمہوریت مستحکم ہونے اور گراس روٹ لیول سے لیڈر شپ کے ابھرنے کے چانسز بھی ختم ہوگئے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ اسمبلیاں جاگیر داروسرمایہ داروں ،ٹھیکداروں اور موروثی سیاسی مافیاز کی آماجگاہ بن چکی ہے جو اپنی ووٹ بینک کے لئے سرکاری ملازمتوں کی خرید وفروخت ،ملازمین کے تبادلوں اور کرپشن کے فروع میں مصروف عمل ہے، جسکی وجہ سے اسمبلیاں محض مراغات یافتہ طبقات کے مفادات کے تحفظ کا اڈہ بن کر رہ گئی ہے جبکہ عوام روز بروز غربت وافلاس اورجہالت میں دھنس گئے ہیں۔ ترقیاتی فنڈز کے اراکین اسمبلی کے ہاتھوں استعمال نے لوٹ مار اور دوست نوازی واقراباپروری کو فروع دیا۔ ایسے حالات میں عوام اور دانشوروں نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لئے مسلسل جدوجہد کرتے رہے اور حکمرانوں نے ہیر پھیر کی پالیسی پر گامزن رہی۔ لیکن بالاآخر صوبائی حکومت کو مجبورہونا پڑا ۔بلدیاتی انتخابات آخری مرتبہ 2005ء میں سابق صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کے دور میں منعقد ہواتھا اب جبکہ دس سال بعد دوبارہ ہم بلدیاتی نظام کی جانب بڑھ رہے ہیں تو ایسے حالات میں عوام یعنی ووٹروں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان انتخابات میں سوچ سمجھ کر ووٹ ڈالے نہ کہ ماضی کی طرح ذات پات،مسلک ومذہب یا علاقہ واریت کی بنیادپر۔ پرویز مشرف دور کے بلدیاتی نظام کے برعکس موجودہ نظام بھی خاصہ دلچسپ اور زیادہ عوامی نظر آرہاہے ۔ کیونکہ ویلج کونسل جو کہ تین سے سات ہزار آبادی پر مشتمل ہوتی ہے انہیں کافی بااختیار بنایا گیا ہے جبکہ ترقیاتی فنڈز بھی ویلج کونسل کے تھروخرچ ہونگے۔ ایک او ردلچسپ پہلو یہ ہے کہ سابقہ دور میں بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد ہوتے تھے جبکہ اس مرتبہ ویلج کونسل کے انتخابات غیر جماعتی جبکہ تحصیل اور ڈسٹرکٹ کونسل کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر منعقد ہونگے ۔ ان حالات میں اگر دیکھا جائے تو سیاسی جوڑ توڑ کا بازار گرم ہوچکا ہے روایتی سیاسی پرندے اِدھراُدھر پر واز میں مشغول ہے۔ ایک اور خاض بات یہ ہے کہ اس بلدیاتی نظام میں پہلی مرتبہ یوتھ کو بھی موقع دیا گیا ہے جسکے مطابق ہر ویلج کونسل میں یوتھ کے لئے ایک نشست مخصوص کی گئی ہے جسکا انتخاب ایڈلٹ فرچائز یعنی براہ راست عوامی ووٹوں سے ہوگا۔جبکہ تحصیل اور ڈسٹرکٹ کونسل میں بھی یوتھ کے لئے سیٹس مختص کی گئی ہے ۔
ووٹرز کی ذمہ داری:
اب جبکہ بلدیاتی انتخابات ہونے جارہی ہے تو اسکے ساتھ ہی عوام پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوگئی ہے کیونکہ بلدیاتی نظام سیاسی نرسریاں ہے یہاں سے کامیاب ہونے والے لوگ مستقبل میں اعلیٰ عہدوں اور اسمبلیوں پر پہنچ سکتے ہیں اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ووٹ ڈالتے وقت انتہائی احتیاط کے ساتھ اہل افراد کا انتخاب کیا جائے ۔کیونکہ ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات محض عوام کی تفریح کا ذریعہ بن کر مذاق بن کے رہ گئی جبکہ اکثر اوقات ڈرائیوروسکاؤٹس ریٹائرڈ افراد الیکشن جیت کر ڈسٹرکٹ اور تحصیل کونسل تک پہنچتے رہے جنکا نہ کوئی سیاسی شعور ہوتا تھا اور نہ ہی سیاسی رموز اوقاف سے واقفیت۔ ایسے افرادچند کوڑیوں کے عوض ووٹ فروخت کرتے دیکھائی دی جسکی وجہ سے سیاسی مداری ہی کامیاب ہوکر عوام کا خون چوستے رہے۔نہ کوئی قابل قدر قیادت ابھر کر سامنے آئی اور نہ ہی عوام کے مسائل حل ہوگئے ۔ اسی لئے اب کے بار عوام بالخصوص نوجوان طبقے کو چاہئے کہ وہ بلدیاتی انتخابات میں ایسے لوگوں کو آزمائے جوسیاسی سوچ کے حامل ہواور جنکی نظرین گلیوں کی مرمت یا کلوٹ بنانے کے بجائے قوم کی تعمیر نو پر مرکوز ہو جن کے پاس قوم کی ڈانواڈول کشتی کو ساحل تک پہنچانے کا عزم ہو جی ہاں یہی تبدیلی ہے اور حقیقی تبدیلی کسی مخصوص پارٹی کے ٹکٹ ہولڈرز کو کامیاب بنانے سے نہیں حقیقی لیڈر شپ کو موقع دینے سے آتی ہے ۔
خدا کرے کہ میرے ارض پاک پہ اترے
وہ فضلِ گل ہے جسے اندیشہ زوال نہ ہو
جب تک کوئی قوم اپنی حالات کو بدلنے کا ارادہ نہ کرے کوئی بھی سیاسی جماعت ،سیاست دان تبدیلی نہیں لاسکتاتبدیلی لانے کے لئے ہمیں اپنی سوچوں کو تبدیل کرنا ہے ۔ماضی کی ہر بت کو پاش پاش کرنا اور ’اسٹیٹس کو ‘ کاخاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ ہم میں سے ہر شخص ذاتی طورپر خود کوتبدیل نہ کرے کیوں نہ ہم اس تبدیلی کا آغازاپنے آپ سے کریں اور آنے والے بلدیاتی انتخابات میں ہم پارٹی ،مذہب،علاقہ واریت سمیت سارے تعصبات سے بالاتر ہوکر خالصتاََ میرٹ کی بنیادپر اپنے نمائندے چنے ۔کیونکہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا