ثقافت

شاہی مسجد، چترال کا تاریخی و ثقافتی ورثہ اور عبادت گاہ

چترال(گل حماد فاروقی) سابق حکمرانوں کے شاہی قلعہ سے پیوست شاہی مسجد بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس تاریحی مسجد پر سابق حکمران ریاست چترال سر شجاع الملک جسے مہتر چترال کہا کرتے تھے نے اپنی والدہ کے ساتھ عمرہ اور اجمیر شریف کا زیارت کے بعد کام شروع کروایا۔ انہوں نے ہندوستان میں مغلیہ دور کے شاہی مسجد دیکھ کر اس سے بہت متاثر ہوا ور اسی طرز پر یہاں بھی مسجد کی بنیاد ڈالی۔

اس مسجد پر 1919 میں کا آغاز ہوا جو 1924میں مکمل ہوا۔ اس مسجد کا کل رقبہ چھ کنال دو مرلہ ہے جس میں سابق حکمرانوں کی قبریں بھی موجود ہیں جن میں سر فہرست محمد مظفرالملک ہے جو 1851 میں پیدا ہوئے 1943،میں تحت پر بیٹھ گیے اور 1949 کو وفات پائے۔

شجاع املک کی تاریح پیدائش 1881 ہے جت 3.3.1895 کو اس کی تحت نشینی ہوئی اور 13.10.1936 کو وفات پائے۔

اس کے علاقہ عبد الرزاق بادشاہ کاقبر بھی اس میں موجود ہے جو 13.05.1934کو وفات پاگئے۔اس مسجد کے ساتھ ایک سرکاری دارالعلوم بھی موجود ہے جو 1952 کو قیام میں لایا گیا تھا۔مسجد کے ساتھ رہائیشی کمرے اور دارلعلوم کا جگہہ بھی تھا جس کی دوبارہ تعمیرکیلئے سابق وزیر اعلےٰ خیبر پحتون خواہ امیر حیدر خان ہوتی نے پونے چار کروڑ روپے دئے ہیں۔

سابق صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق نے اس مسجد اور دارالعلوم کیلئے 1986میں بہت بڑی اراضی حریدی تھی تاہم مسجد کے حطیب نے اسے صرف چار سو روپے ماہوار کرائے پر لیز پر دیا ہے جس میں درجن بھر سے زیادہ دکانیں بن چکی ہے۔ مگر اس مسجد میں دوسری منزل نہیں بنائی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جمعہ کے روز اکثر نمازیوں کو نماز پڑھنے کی جگہہ نہیں ملتی۔

اس مسجد کی تعمیر میں سیمنٹ کا استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ چونا، روئی اور انڈوں کی آمیزش سے بنایا گیا ہے جو مغل طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔

سیف اللہ جان، قاضی محمد اسحاق اور زار بہار نے ہمارے نمائندے سے باتیں کرتے ہوئے اس حدشے کا اظہار کیا کہ اس مسجد کے کونے پر جو پرانی مینار اور گنبد تھی اسے مسمارکیا گیا ہے مگر ہمیں نہیں لگتا کہ موجودہ ٹھیکدار اس مینار اور گنبد کو اسی طرح بنائے جو پہلے بنا تھا۔ ان لوگوں نے زیر تعمیر کام کی معیار پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کام کا معیار بھی صحیح نہیں ہے۔

مسجد کے ساتھ متصل چند گھر آباد ہیں اور ساتھ ہی ایک نالہ بھی بہتا ہے تاہم چترال گول اور بازار کی تمام گندگی نالے میں گرایا جاتا ہے اور اس کی صفائی کا کوئی بندوبست نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ گندگی کے اس ڈھیر نے اس مسجد کی تمام حوبصورتی متاثر کی ہوئی ہے۔اس کی دوبارہ تعمیر کا کام تو جاری ہے مگر اب دیکھا جائے گا کہ یہ اسی طرح اور اس معیار پر بنے گا جو آج سے سو سال پہلے بنا تھا یا یہاں بھی ہمارے ملک کی بدعنوان ادارے اور ٹھیکداری نظام ہاتھ کرے گی۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button