مجاہدین سے دہشت گرد تک
وقت کے ساتھ دنیا کے حالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔ وقت کے ساتھ حالات میں آنے والی تبدیلی کے پیچھے کارفرما عوامل اور حاقائق کو ریاستی عناصر بگاڑ کر اور اپنے مفاد کے مطابق غلط رنگ دے کر پیش کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ میں مکمل یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے اس دور میں کوئی بھی ریاست اپنی عوام کو حقائق سے دور نہیں رکھ سکتی۔ پاکستان آج جس دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے اس کی بنیادیں پاکستان کے سابق آمر ضیاء الحق اور امریکہ بہادر کی سابق سوشلسٹ ریاست کے خلاف گٹھ جوڑ سے پڑی ہیں ۔ دنیا بھر سے بیروزگار مسلمانوں کو پاکستان لاکر روس کے خلاف تربیت دی گئی ۔ اس کار خیر میں مقامی نوجوانوں کی شمولیت کو یقینی بنانے اسلامائزیشن کا نعرہ بلند کیا گیا۔ امریکی اور سعودی ایماء اور مدد پر مداراس میں طالب علموں کو روس کے خلاف ان کی برین واشنگ کی گئی اور جنگی تربیت دی گئی ۔ ۔ جب افغانستان میں نورمحمد خان ترکئی کے زیر قیادت سوشلسٹ انقلاب پربا کیا گیا توامریکی سامراج کمیونیزم کو روکنے کے لیے پاکستان کے دینی مدارس کو چنا۔مدارس میں موجود طالب علم پہلے سے کفار کے خلاف جہاد کے تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔اس سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ سامراج نے پاکستان کے کرپٹ حکمرانوں اور ریاستی اداروں کو بھی بھرپور طریقے سے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیے۔افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب کو پسپا کرنے اور سوشلسٹ طاقت سویت یونین کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ریاست پاکستان کے ساتھ مذہبی طاقتوں پر ڈالر نچھاور کیے گئے۔ یہ امریکی ڈالر ہی تھا جس کی بدولت ریاستِ پاکستان
امریکہ سرکار کے اشاروں پہ ناچنے لگی اور اپنے مستقبل کو داو پر لگادیا گیا۔ریاست اور مذہبی طاقتوں کی گٹھ جوڑ سے مدارس سے طالب علموں کو افغانستان بھیج دیا گیا۔پاکستان سے لاکھوں کی تعداد میں نوجوان اور مدرسوں کے طلباء کی بڑی تعداد جہاد کے لیے افغانستان گئے جن کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ وہ یہ لڑائی جو وہ لڑنے جارہے ہیں اسلام اور کفار کی لڑائی تھی۔ حقیقت میں یہ سامراج کی جنگ تھی جو اشتراکی نظام کو افغانستان میں ختم کرنے کا موجب بنی۔
اس جنگ س کی بدولت پاکستان کے جرنیلوں اور مذہبی جماعتوں بہت اطمینان اور آسانی سے سرمایہ جمع کرنے میں تو کامیاب ہو گئے تاہم پاکستان کے عوام کو ایک نہ ختم ہونے والی اگ میں دھکیل دیا گیا۔افغانستان کے انقلا ب کو تباہ وبرباد کرنے کے بعد مجاہدین یہ سمجھ گئے تھے کہ وہ اسلام کی خدمت کرکے آگئے ہیں مگر حقیقت یہ تھی کہ افغانوں کی زندگیوں کو آئندہ کئی عشروں اورسالوں کے لئے تباہ و برباد کرکے آگئے تھے۔ افغانستان میں روس کی شکست کے بعد جہاں بہت سارے مجاہدین افغانستان میں مقیم رہے وہیں غیر ملکی مجاہدین کی ایک بڑی تعداد پاکستان کے قبائلی علاقوں میں رہنے لگے۔ ان مجاہدین کو پاکستان ن نے کشمیر میں انڈیا کے خلاف اپنا سٹریٹیجک اثاثہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔ ان کو کشمیر کے محاذوں پر بھیج دیا گیا جہاں وہ انڈیا کے ساتھ خود مختار کشمیر کے لیے جہدوجہد کرنے حریت پسندوں اور قوم پرستوں کو بھی ٹھکانے لگانے کے فرائظ انجام دیتے رہے۔یہاں یہ بہت ہی افسوسناک بات یہ کہ اس تمام صورت حال کے باوجود ن انسانی حقوق کے نام پر کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے خاموش تماشائی بنے رہے۔ نائن الیون کے واقعہ رونما ہونے تک یہ لوگ پاکستان کے اثاثہ تھے ۔
جس وقت ریاست پ کاکستان سامراج کے ساتھ مل کر مجاہدین بنا رہے تھے تو اس وقت سندھ کے ترقی پسند قوم پرست رہنما جی ۔ایم سید نے کہا تھا کہ آج آپ روس کے خلاف جہادی پیدا کررہے ہیں مگر یاد رکھویہی لوگ کل آپ اور آپ کے بچوں کو کھا جا ئیں گے آپ دیکھتے رہ جاؤگے۔یہاں یہ بات صادق آتی ہے کہ جب ان کے بنائے گئے مجاہدین کے بطن ہونے والی القائدہ اور طالبان نے طالبان نے امریکہ پر براہ راست حملہ آور ہوئے تو انہیں سمجھ آیا کہ اب یہ قابو سے باہر ہوگئے ہیں۔
انکل سام نے القائدہ اور طالبان کے خلاف دہشت گردی کے نام پر پاکستان کی مدد سے پچھلے ایک عشرے سے زائد عرصے سے جنگ کر رہا ہے۔ اس جنگ میں تمام تر جدید اسلحے سے لیز ہونے کے باوجود شکست سے دوچار ہوتا نظر آرہا ہے۔ جس ریاست نے غریب بچوں کو اسلام کے نام پر طالبان بنایا آج یہی طالبان اسی ریاست کے درپے ہوگئے ہیں ۔
اس سے پہلے ریاستِ پاکستان طالبان کو خصوصی اہمیت دے رہی تھی اور اور آج بھی دی جارہی ہے۔جب پاکستان کے قباہلی علاقوں میں آپریشن شروع کیا گیاتو طالبان کے حوالے سے دو قسم کے اصطلاح سننے میں آئے۔ایک اچھا طالبان اور دوسرا برا طالبان۔عام لفظوں میں یہ کہ ریاست کے حکم کی تکمیل کر کے انڈیا،افغانستان اور پاکستان کے اندر اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے اچھے اور ریاست کے فوج پر حملہ کرنے والوں کو برا طالبان کا نام دیا گیا۔ریاست عام عوام کو یہ بتاتی ہے کہ طالبان کے کچھ گروہ بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہونے لگے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب پاکستان نے طالبان کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیا تو طالبان نے پاکستان کے خلاف بھی جنگ شروع کردی ہے۔ طالبان اب پاکستان کے کنٹرول میں نہیں رہے اور جو سندھ کے ترقی پسند قوم پرست رہنما جی۔ایم سید نے جو کہا تھا وہ آج سچ ثابت ہورہا ہے۔ یہاں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ عالمی سامراج اور پاکستانی ریاست نے پختونوں کے کلچر اور ان کے ترقی پسند اور سیکولر سوچ کو ختم کرنے میں تقریبا کامیاب ہوگیا ہے۔باچاخان کے عدم تشدد کا نعرہ آج پختونوں میں نظر نہیں آتا،ان کے تحریکوں کو پاش پاش کیا گیا اورآج دنیاکے سامنے پختونوں کو دہشتگرد کے طور پر پیش کیا جارہا ہیں۔خدائی خدمتگار جیسی تحریکوں کے جگہ میں پٹھانوں کے دلوں کو انتہاپسندی سے بھردیا گیاہے ۔
طالبان کو ریاست نے خود ہی پیدا کیا تھا اور اس کے عوض جرنیلوں اور مذہبی جماعتوں نے بینک بیلنس بنائے مگر پختونوں کے مزا حمتی تحریکوں کے ساتھ ساتھ ان کے روایات کا جنازہ نکالا گیا۔غربت کی وجہ سے مختلف مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو دہشت گرد بنایا گیا اوراسلام کو پوری دنیا کے سامنے بدنام کیاگیا۔
سانحہ پشاور سے پہلے طالبان پاکستان کے اندر اقلیتوں کو چن چن کر قتل کرتے رہے،جلال آباد، کراچی،پشاور،لاہور،کوئٹہ، چلاس،پارہ چنار ،لولوسر، شکارپورامام بارگاہ ،پشاور امام بارگاہ ،لاہور اور دیگر شہروں میں بیگناہ لوگوں کا قتل عام کیا گیا۔یہ سب ان کے ہاتھو ں ہورہا ہے جنہیں ریاست اپنی اثاثہ اور پاکستان کے محافظ قرار دے رہی تھی۔ مجائدین سے طالبان تک کے اس سفر میں جہاں پاکستان کے محنت کش عوام کو بڑی قربانی دیناپڑی وہیں پاکستان کے زیرِ کنٹرول کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگ بھی بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ سابق آمر ضیا الحق کے دور میں گلگت بلتستان کے گاوں جلال آباد میں شعیہ فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملہ بھی خطے میں فرقہ واریت کو ہوا دینے اور لوگوں کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے کی سازش تھی ۔ 1988میں لگائی گئی اس فرقہ وارانہ آگ میں سیکڑوں جانوں کا ضیاع ہوچکاہے۔ 2014 میں عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے زیر اہتمام دھرنے دیئے گئے اور گلگت بلتستان میں فرقہ واریت کا اثر بہت حد تک کمی آئی ہے ۔اس عوامی بارہ روزہ احتجاجی دھرنے میں فرقے کے خول سے باہر نکل کرعام آدمی نے یہ پیغام دیا کہ محنت کش طبقے کو سازش کے تحت تقسیم کیا گیا ہے۔ گلگت بلتستان کی خراب صورت حال کا براہ راست تعلق پاکستان ہے اس لیے پاکستان میں امن قائم ہوئے بغیر پرامن گلگت بلتستان کا خواب شرمندہ تعبیرنہیں ہو سکتا۔
پاکستان سمیت کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام آدمی کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ریاست بالادست طبقہ کے مفادت کی حفاظت کرتی ہے۔محنت کش طبقے کو اپنے مفادات کی حفاظت کیلئے انتہاپسندانہ سوچ کو ترک کرکے ترقی پسند نظریات کو اپنانا ہو گا ورنہ محنت کش طبقے کو عالمی سامراج کبھی مجاہدین کے نام پر تو کبھی کسی اور نام پر استعمال کریگا اور دنیا بھر کی دولت لوٹنے میں اپنے مقامی ٓالہ کاروں کے ساتھ مصروفِ عمل رہیگا۔