ووٹ، ووٹر ،امیدواراور موجودہ جمہوریت
فی زمانہ الیکشن جمہوری نظام میں ہوتے ہیں۔جمہوریت کو ایک ایجنڈے کے تحت ’’عالمی سلوگن‘‘ بنادیا گیا ہے اور پوری انسانیت کو باور کروایا گیا ہے کہ ان کی کامیابی و کامرانی اور ان کے تمام بنیادی حقوق کا حصول جمہوری نظام میں پنہاں ہیں۔یہی کچھ عالم عربی اور مسلم دنیا کے عوام و خواص کے دل ودماغ میں نقش پتھر کی طرح راسخ کیا گیا ہے۔چونکہ ہم ایک مسلم ریاست کے باسی ہیں اور پھر اسی ریاست کے ایک ایسے خطے کے شہری ہیں جو آج کے جدید دور میں اپنی آئینی و شہری حیثیت سے ناآشنا ہے بلکہ محروم ہے۔اسی خطہ بے آئین میں بہت جلد الیکشن ہونے والے ہیں۔اس لیے ضروری سمجھا کہ عامۃ الناس کو بالعموم اور خاصۃ الناس کو بالخصوص الیکشن، ووٹ، ووٹر، کینڈیڈیٹ کی شرعی حیثیت، فی زمانہ اس کی افادیت و اہمیت اور جمہوری نظام کی کارستانیوں کے ساتھ اس کے دلکش سلوگن سے بھی آگاہ کروں۔
اولاً یہ جاننا ازحد ضروری ہے کہ ووٹ کہا کس چیز کا جاتا ہے یعنی ووٹ کی تعریف کیا ہے۔آج کے جمہوری نظام کے قیام میں ووٹ اہم ترین حصہ ہے،بذ ریعے ووٹ کسی بھی ملک کے شہری اپنے حلقے سے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں جو پارلیمنٹ یا قانون ساز اسمبلیوں میں جا کر عوامی مفاد میں قانون سازی کرتے ہیں۔ چونکہ موجودہ ووٹ یا الیکشن کی تعریف قرآن و حدیث سے تو ملنی ناممکن ہے لہذا ووٹ کی تعریف سمجھنے کے لیے ہمیں انگریزی کا ہی سہارا لینا ہوگا۔ چونکہ ہم پاکستان پھر گلگت بلتستان کے ہیں اور یہاں جمہوری پارلیمانی نظام ہے۔ایک جمہوری و پارلیمانی نظام میں ووٹ کی حیثیت واہمیت اور ووٹروں کے کردار کے تعین کیلئے وہی ریفرنس یا مراجع قابل قبول ہوسکتے ہیں جو اس نظام کو ترتیب دینے اور چلانے والوں کے ہاں معروف ہیں۔انٹرنیٹ میں ایک انسائیکلوپیڈیا میں ووٹ کو یوں بیان کیا ہے۔
A vote is a formal expression of an individual’s choice in voting, for or against some motion (for example, a proposed resolution), for or against some ballot question, for a certain candidate, a selection of candidates, or a political party.
ایک انگلش ڈکشنری میں یوں لکھا دیکھا۔
to express your choice or opinion, especially by officially writing a mark on a paper or by raising your hand or speaking in a meeting:
اکسفرڈ انگلش ڈکشنری سے رجوع کیا تو وہاں ووٹ کی ڈیفینیشن کچھ یوں ملی۔
A formal indication of a choice between two or more candidates or courses of action, expressed typically through a ballot or a show of hands.
بعض مسلم مفکرین اور علماء نے قیاس کے ذریعے موجودہ ووٹ کی شرعی حیثیت بیان کی ہے۔انہوں نے ووٹ کوگواہی یعنی شہادت، وکالت، امانت، مشورہ اور سفارش وغیرہ سے تعبیر کیا ہے مگر تحقیق و تجسس کے بعد ووٹ کی موجودہ حالت دیکھ کر ان تمام تعبیرات کو دل ماننے سے انکاری ہے۔ ہم ایک اسلامی مملکت میں رہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اسلامی جمہوریت کا بھی تجربہ کیا جاتارہاہے ۔ اگر چہ بار بار یہ تجربے ناکام ثابت ہوچکے ہیں۔بنیادی طور پر جمہوریت نظام اسلامی سے متصادم نظام ہے۔ اور اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ موجودہ جمہوری نظام خالصتاً مغربی وفکر و نظر کا پروردہ ہے۔ کارپوریٹ جمہوریت میں مسلمانوں کے لیے کوئی بھلائی نہیں ، یہ جاگیرداروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں، اور سرمایہ داروں کا ایک الجھا ہوا کھیل ہے۔ باوجودیکہ ، نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں جمہوری سسٹم میں رہنا ہے اور اسی میں بہتری اور خیر کو ڈھونڈنا ہے یعنی جلبِ منفعت کے بجائے دفعِ مضرت کے طور پر اس سسٹم کو قبول کرنا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں جمہوری حکومتوں کی بنیاد عوام کے ذریعہ منتخب ہونے والی حکومت پر ہوتی ہے اور پاکستان کا آئین بھی اس طرز عمل کی سفارش کرتا ہے۔ لامحالہ ہمیں اس نظام کی خرابیوں کو ساتھ قبول کرنا ہے۔اور ووٹ یا الیکشن در حقیقت جمہوری ممالک کے لیے بہت ہی خاص موقع ہوتا ہے۔چوں کہ انتخابات کے عمل کا سارادار ومدارووٹ پر ہوتا ہے اس لیے یہ جاننالازم ٹھہرتا ہے کہ ووٹ کی شرعی حیثیت کیاہے؟مختلف مفکرین نے اس کو کس حدتک لازم قرار دیا ہے۔ ان کی تحریریں پڑھ کر مجھے یوں لگتا ہے کہ انہوں نے دفعِ مضرت کے لیے موجودہ الیکشن کے نظام کو قبول بلکہ لازم قرار دیا ہے۔اس حوالے سے میں اپنے الفاظ یا رائے کی بجائے ایک جید عالم دین کی تحریر کو نقل کررہا ہوں۔مفتی محمدخالد حسین نیموی قاسمی صاحب ہندوستان کے نامور عالم دین ہیں۔ وہ ماہنا مہ دارالعلوم دیوبند(مارچ 2013) انڈیا کے اپنے ایک تحقیقی مضمون ’’جمہوری نظام میں الیکشن اور اسلامی نقطہ نظر ‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ
’’ ووٹ کی شرعی حیثیت :ووٹ (vote)انگریزی زبان کا لفظ ہے ۔اس کا عر بی متبادل انتخاب اور تصویت ہے۔ جب کہ اس کا اردو متبادل ہے نمائندہ چننا ،حق رائے دہی کا استعمال کرناہے ۔جمہوری ممالک میں پارلیمنٹ اسمبلی ،کونسل ،بلدیہ یا اس جیسے اداروں کے لیے عوام کے ذریعہ نمائندہ چننے کا عمل ووٹ پر منحصر ہوتا ہے؛چوں یہ کہ اصطلاح مستحدث اورنئی ہے ۔حکومت سازی کے لیے انجام دیا جانے والا یہ عمل چوں کہ عہد سلف میں موجود نہیں تھا،اس لیے اس کا استعمال قرآن وحدیث میں نہیں ہواہے،لیکن معنوی اور اصولی طور پر اس کے لیے ذخیرۂ شریعت میں ہدایتیں موجود ہیں۔ شرعی نقطۂ نظر سے ووٹ کی متعدد حیثیتیں ہوسکتی ہیں ۔
(۱)شہادت : شہادت کا مفہوم ہے عینی مشاہدہ یا بصیرت کی بنیاد پر کسی چیزکے بر حق ہونے کی گواہی دینا ۔قول صادِر عن عِلم حصل بِمشاہدِ بصر و بصِیر (راغب،جرجانی)ایک لحاظ سے ووٹ کی حیثیت عرفی شہادت اور گواہی کی ہے،اس لیے کہ ووٹر ووٹنگ یا حق رائے دہی کے استعمال کے وقت یہ سمجھتا ہے کہ فلاں امیدوار اس عہدہ کے لائق ہے ،جس کے لیے اس نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے یاپارٹی کی طرف سے اسے امیدوارنامزد کیا گیا ہے ۔اور وہ پوری دیانت داری کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو انجام دے سکتا ہے ،وہ اس بات کی گواہی دیتاہے کہ وہ امیدوار اس مقصد کے لیے موزوں اور قوی وامین ہے ۔چاہے وہ دوسرے کاموں کے لیے موزوں نہ ہو ۔
(۲)سفارش :ووٹ کی ایک حیثیت سفارش کی بھی ہے ۔گویا کہ ووٹر کسی متعین امیدوار کے سلسلہ میں مجاز اتھارٹی سے یہ سفارش کرتاہے کہ وہ ممبر پارلیمنٹ یا ممبر اسمبلی بننے کے لائق اور اہل ہے اور وہ اس عہدہ کی اورمنصب کی ذمہ داریوں کو بہتر طورپر انجام دے سکتاہے ؛لہذا میں اس کے انتخاب کی سفارش کرتا ہوں۔شفارش کے بارے میں قرآن کریم کا حکم یہ ہے’’ من یشفع شفاعۃ حسنۃ یکن لہ نصِیب مِنہا ومن یشفع شفاعۃ سیِءۃ یکن لہ کِفل مِنہا وکان اللہ علی کلِ شی مقِیتا ‘‘(النسا:۸۵)یعنی جو شخص اچھی بات کی سفارش کرے گا اس کے لیے اس کے اجر میں سے ایک حصہ ہوگا اور جو بری بات کی سفارش کرے گا اس کے لیے بھی اس کے گناہ کاکچھ بوجھ ہوگااور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والے ہیں۔ لہذا رائے دہندگان اگراچھے امیدوار کا انتخاب کریں گے تو یہ عمل ان کے لیے باعثِ اجر ہوگا اور اگر غلط امیدوار کا انتخاب کریں گے توباعثِ مواخذہ ہوگا۔
(۳) وکالت:وکالت کا مفہوم ہے کسی مخصوص کام کے لیے کسی انسان کو اپنا نمائندہ اور نائب چننا ۔ووٹ کی ایک حیثیت وکالت کی بھی ہے ۔گویا ووٹ دینے والا حقِ رائے دہی کا استعمال کرکے درحقیقت اس حلقہ کے کسی امیدوار کو سیاسی امور،کارِ حکومت کی انجام دہی ۔ یا پارلیمنٹ کی تشکیل اور وزیر کے انتخاب کے لیے اپنا وکیل اور نمائندہ منتخب کرتا ہے، اس اعتبار سے اگر ووٹر نے سیاسی امور کی انجام دہی کے لیے کسی نا اہل امیدوار کو کامیاب بنا دیا اور جیتنے کے بعد اس شخص نے قوم وملت کے حقوق کو پامال کیا اورظلم وزیادتی کوراہ دی، توووٹربھی اپنے رول کی حدتک اس کے گناہ میں شریک ہوں گے ۔اور اگر اچھے کام کیے،تو اس کی نیکیوں میں شریک ہوں گے؛لیکن حقیقت یہ ہے کہ ووٹ کے اندر چاروں مفہوم ہونے کے باوجود اس پر شہادت کا مفہوم غالب ہے،ہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ووٹ کی شرعی حیثیت شہادت کی ہے ‘‘۔
اس حقیقت سے کوئی عاری نہیں کہ موجودہ دور میں جمہوری و غیر جمہوری ممالک میں اسمبلیوں، کونسلوں، میونسپلز کمیٹیوں،سیاسی جماعتوں اور سماجی انجمنوں، فشاری گروپس اور دیگرپروفیشنل اتحادوں کے انتخابات میں جمہوریت کے نام پر جو نارواکھیل کھیلا جارہا ہے ۔ان انتخابات میں عالمی اور علاقائی جاگیرداراور سرمایہ دار اپنے سرمایہ کے بل بوتے تمام طاغوتی وسائل استعمال کرکے جو نتائج حاصل کرتے ہیں ان کی ہولناکیاں کہاں مخفی ہیں۔ باوجود اس کے ہمیں اس انتخابی عمل کو کسی کی ہار جیت کا کھیل سمجھ کر تماشہ بیں نہیں بننا چاہیے بلکہ ہمیں احساس کرنا چاہیے کہ یہ سلسلہ ہماری دنیاوی نفع و نقصان کی حد تک نہیں رہتا بلکہ اس کے پیچھے کچھ طاعت و معصیت اور گناہ و ثواب بھی ہے، اس میں جزا و سزا کاعمل بھی ہے۔اگر یہاں سستی وکاہلی کی گئی تو اس کے بد اثرات آخرت میں ہمارے گلے کا ہار، عذابِ دوزخ کی شکل میں بن سکتی ہے۔
انتخابات میں کنڈیڈیٹ یعنی امیدوار کی حیثیت بھی انتہائی اہم ہوتی ہے۔پاکستان کے آئین میں اسمبلی ممبر کے لیے ارٹیکل 62, 63میں جو شرائط رکھی گئی ہیں وہ تو انتہائی سخت ہیں۔ اگر عمیق جائزہ لیا جائے تو ان شرائط پر تو دو چار ہی پورے اتر سکتے ہیں۔آئین پاکستان کی روح سے، جو بھی آدمی کنڈیڈیٹ بننے کا اعلان کرتا ہے گویا و ہ دو چیزوں کا دعویٰ کرتا ہے کہ ایک تو وہ ممبر بننے کے صلاحیت رکھتا ہے ، مطلوبہ تمام اہلتیں اس میں موجود ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ امین و صادق بھی ہے اور قوم و ملت کا درد بھی رکھتا ہے۔اور آئین کا تقاضا بھی یہی ہے۔ تاہم کنڈیڈیٹ کو خود سے دعوے کرنے کی بجائے اس کے حلقے کے سمجھ دار اور باشعور لوگوں کو چاہیے کہ کسی باشرع، صوم و صلوۃ کے پابند امین اور سمجھ دار آدمی کو اپنا کندیڈیٹ منتخب کریں تاکہ وہ کل ممبر بن قومی ،ملکی، ملی اور اپنے حلقے کے عوام کی مفادات کا حفاظت کرسکیں۔ اگر عوام نے بے پرواہی کا مظاہر ہ کرکے کسی صالح آدمی کو کنڈیڈیٹ منتخب کرنے کی بجائے کسی ڈاکو، کرپٹ اور نااہل آدمی کو منتخب کیا اور اس نے لوٹ مار اور ظلم و ستم کا بازار گرم کیا تو اس کے ساتھ تمام عوام بھی عذاب الیم کا مستحق بن جائے گی ۔ دنیا میں بھی وہ ظالم ان کو ستائے گا اور ملک و ملت کو نقصان پہنچائے گا اور قیامت میں بھی اللہ عوام کو غلط آدمی منتخب کرنے پر سزادے گا۔ غلط آدمی کے انتخاب کا مطلب یہ ہوگاکہ عوام اپنی گواہی، وکالت اور سفارش درست جگہ کے بجائے غلط جگہ استعمال کررہے تو عنداللہ ان کا مواخذہ ہوگا۔ ممبر اسمبلی کے لیے پرتولنے والوں کو بھی خیال رہنا چاہیے کہ جب وہ ممبر بن جائیں گے تو جتنی مخلوق خدا کا تعلق و واسطہ اس سے ہوگا تمام کی ذمہ داری کا بوجھ اس کے سر پر آئے گا، حالانکہ ممبر بننے سے پہلے اس پر صرف اور صرف اپنے عیال اور فیملی کی ذمہ داریاں تھی اب پورے حلقے اور ملت کی ذمہ داریاں ان کی گردن پر آچکی ہونگیں۔ممبری کو بچوں کا کھیل یا مفادات کے حصول کا ذریعہ نہیں سمجھنا چاہیے۔
گلگت بلتستان میں ایک اہم خرابی یہ پائی جاتی ہے کہ یہاں ووٹ دینے والے قوم، خاندان، علاقہ اور قبیلہ کو دیکھتے ہیں یا پھر مذہبی بنیادوں پر ووٹ کاسٹ کیا جاتا ہے۔حالانکہ ووٹ کاسٹ کرنے والے کو چاہیے کہ وہ بغیر کسی طمع و لالچ اوور خوف و خطر کے ایک ایسے کنڈیڈیٹ کو ووٹ کاسٹ کریں کہ وہ امین ہو، ملک و ملت کا خیر خواہ ہوں اور اپنے حلقے کے ساتھ بھی وفادار ہو، ووٹر کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ووٹ کے ذریعے شہادت، وکالت اور سفارش کا فریضہ انجام دے رہا ہوتا ہے۔ کیا کسی کرپٹ، چور، ڈاکو، ننگ ملت و ملک اور علاقہ و قوم کی سچائی کی شہادت ،اپنے ووٹ سے دے سکتا ہے؟کیا وہ ایسے بدنام زمانہ آدمی کی وکالت یا سفارش کرسکتا ہے؟ اگر کرتا ہے تو دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا ہوگا۔جس طرح ووٹ کے ذریعے کسی غلط آدمی کے انتخاب پر اللہ کی پھٹکار ہوگی اسی طرح کسی صالح اور اہل آدمی کے انتخاب پر اللہ کی رحمت اور ثواب بھی ملے گا۔علماء کرام نے ووٹ کے فروخت کو سخت گناہ قرار دیا ہے۔آج کل ووٹ خریدنے کا رواج عام پکڑ چکا ہے۔مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع عثمانی صاحب مرحوم ووٹ کے حوالے سے اپنی معروف کتاب جواہر الفقہ جلد نمبر پانچ میں لکھتے ہیں کہ’’انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے جس کا چھپانا بھی حرام ہے اور اس میں جھوٹ بولنا بھی حرام، اس پر کوئی معاوضہ لینا بھی حرام، اس میں محض ایک سیاسی ہار جیت اور دنیا کا کھیل سمجھنا بڑی بھاری غلطی ہے، آپ جس امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں، شرعا آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریے اور علم و عمل اور دیانت داری کی رو سے اس کام کا اہل اور دوسرے امیدواروں سے بہتر ہے، جس کام کے لیے یہ انتخابات ہو رہے ہیں، اس حقیقت کو سامنے رکھیں کہ آپ کے ووٹ اور شہادت کے ذریعہ جو نمائندگی سے کسی اسمبلی میں پہنچے گا، وہ اس سلسلے میں جتنے اچھے یا برے اقدامات کرے گا، ان کی ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوگی، آپ بھی اس کے ثواب یا عذاب میں شریک ہوں گے‘‘۔
اس میں کوئی شک ہے نہ کوئی اختلاف کہ جمہوریت خلافت یا امامت کے متضاد ایک تصور حکمرانی یا طرز حکومت ہے۔یہ بات عیاں ہے کہ اہلِ نجران کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکتوب گرامی میں وضاحت سے فرمایا تھا کہ’’فانِی ا دعوکم الی عِبادِ اللہِ مِن عِبادِ العِبادِ وادعوکم الی وِلایۃِ اللہِ مِن وِلایۃِ العِبادِکہ میں تمھیں دعوت دیتاہوں بندوں کی عبادت چھوڑکرایک اللہ کی بندگی کی اور بندوں کی حکمرانی سے نکل کر ایک اللہ کی حکمرانی میںآ نے کی ۔اور حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے فارس کے بادشاہ کے دربار میں اپنے مقصدِ اصلی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایاتھا ۔ واخراج العِبادِ مِن عِبادِ العِبادِ الی عِبادِ اللہِ الواحِدِ القہارِکہ میری آمد کا مقصد بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر ایک غلبہ والے اللہ کی بندگی میں داخل کرنا ہے۔ یہی خلافت یا امامت کا منشاء ہے۔ تاہم جمہوریتوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ انسانوں کو انسانوں کے غلام بنا کر رکھتا ہے ۔ نام جمہوریت کا ہوتا مگرکبھی شخصی حکومت ہوتی ہے، تو کبھی خاندانی حکومت ۔کہیں پر استبدادی نظام چل رہا ہے، تو کبھی عوامی نظام۔ عالمی جمہوریتوں کے زیادہ تر مراحل میں ایسی حکومتوں کا غلبہ رہا جن کے جمہوری حکام زمامِ اقتدار سنبھالتے ہی خدائی کا دعویداربن بیٹھے اور محکوم عوام کو اپنا غلام بنا کر ان سے اپنی بندگی کروانے لگے ۔پہلے زمانوں میں بندگی کے اصول کچھ اور ہوا کرتے تھے اور اب اس کے اصول بدل گئے ہیں۔انہی جمہوری حکام نے پوری دنیا میں ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا ہوا ہے۔ برطانیہ جو جمہوریت کی ماں کہلاتا ہے ایک طویل عرصہ نوآبادیات بنانے پر لگا ہوا تھا اور آج یہی کچھ امریکہ کررہا ہے اور ساتھ ہی جمہوریت کا علمبردار بنا ہوا ہے اور پوری دنیا میں جمہوری نظام کے لیے مال بھی خرچ کر رہا ہے، فکر بھی کررہا ہے۔ یہاں تک کہ جمہوری نظام لانے کے لیے ملکوں ملکوں کو تہہ تیغ کرتا جاتا ہے اور ہم بھی اس کی لَے میں لَے ملائے جمہوریت کے لت پت گندے نظام میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔جس کا بہترین مظہر ووٹ، ووٹر، کینڈیڈیٹ اور الیکشن ہے۔
اسلام نظامِ خلافت کو پسند کرتا ہے،جس میں اصل حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے۔ خلیفہ یا مسلمانوں کا حاکم خدا تعالیٰ کے عادلانہ نظام کو نافذ کرنے میں اس کا نائب ہوتا ہے یعنی اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام عملی طور پر نافذ کرتا ہے۔خلافت کا حکم بھی قرآن ہی سے ملتا ہے۔ مسلمانوں نے حکومتِ الہیہ اور خلافتِ راشدہ علی منہاج النبوۃ کاایسا بے نظیر نظام دنیا کے ایک کثیر خطے پر نافذ کیا کہ اس سے بہتر اور عادلانہ و منصفانہ نظام چشم فلک نے آج تک روئے زمین پر کہیں نہیں دیکھا اور نہ آئندہ ممکن ہے۔حکومت الہیہ کے حکمران عدل وانصاف، پاک بازی، صفائی قلب اور روشن ضمیری اور خداترسی ورعایا پروری میں یکتا و بے مثال تھے۔
خلافت راشدہ علی منہاج النبوۃ کے بجائے جمہوریت کے نفاذ کا مطالبہ یقیناان لوگوں کی دلی چاہتے ہے جو دنیا سے نظامِ اسلام کو کلیۃ ختم کرنا چاہتے ہیں۔اس بات میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں کہ یہ دنیا اسلامی نظام خلافت سے ایک طویل عرصہ مستفید ہوتی رہی ہے۔تاہم بدقسمتی سے مسلمانوں کی آپس کی ناچاکیوں و بداعمالیوں اور اغیار کی سازشوں کی وجہ سے نظامِ خلافت کا بالکلیۃخاتمہ ہوچکا ہے۔اور اس کے مقابلے میں ایک نظام کو زورو شور کے ساتھ پوری مسلم دنیا میں متعارف کروایا گیا جس کو عرف عام میں ’’ڈیموکریسی‘‘یعنی جمہوریت کہا جاتا ہے۔جمہوریت کی چند ایک خوبیاں بھی ہیں مگر اس کی خرابیاں خوبیوں پر بھاری ہیں۔علامہ اقبال مرحوم نے جمہوریت کے حوالے سے کہا ہے کہ
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
ایک اور جگہ میں انہوں نے ارشاد کیا ہے کہ
سلطانیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقشِ کہن آئے نظر اس کو مٹادو
جمہوریت میں حاکمیت اللہ کے بجائے کسی فرد یا ادارے کے پاس ہوتی ہے۔ تمام فیصلے اکثریت کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ تاہم یہ اکثریت دلیل و برہان کی نہیں تعداد کی اکثریت ہوتی ہے۔ مثلا اگر دس پی ایچ ڈی عالم وفاضل ایک رائے یا فرد کو ووٹ دیں اور گیارہ جاہل ، گنوار ، اور چور ڈاکو دوسرے فرد کو ووٹ دیں تو ڈاکو ہی جیت جاتا ہے اور اسی کو اکثریت کے خوبصورت عنوان سے معنون کیا جاتا ہے ۔ کوئی انصاف سے بتائے کہ کیا دس عالم و فاضل اور پی ایچ ڈی اسکالر کی رائے اور گیارہ چوروں کی رائے ایک جیسی ہوسکتی ہے۔؟ اور یہاں تو یہی گیارہ چوروں کی رائے معتبرٹھہرتی ہے۔باوجود اس کے انتہائی تیزی کے ساتھ پوری دنیا میں جمہوریت کو رواج دیا جاچکا ہے۔اور مسلمانوں کو بھی لاچار اس میں اپنی لیے بہتری کا سامان ڈھونڈنا ہے۔
ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان کے آئین نے یہاں کے ہر شہری کو ووٹ دینے اور امیدوار بننے اور دیگر انتخابی عمل میں شرکت کا بھر پور حق دیا ہے ۔اب اس حوالے سے جائزہ لینا ہے کہ بحیثیت ایک شہری اس انتخابی عمل میں شرکت کی شرع میں کیا گجائش ہوسکتی ہے۔ ووٹ، ووٹر کے حوالے سے ماقبل میں بحث ہوچکی ہے۔اس کی روشنی میں یہ سمجھ آجاتا ہے کہ انتخابی عمل میں شرکت کرنا کبھی تو محض جائز ہوجاتا ہے اور کبھی یہ عمل مستحب اور کھبی کبھار واجب تک ہوجاتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں حکو مت الیکشن کی بنیاد پر بنتی ہے۔جس پارٹی کو الیکشن میں کامیابی ہوتی ہے وہی پارٹی حکومت بناتی ہے۔اور یہ کامیابی کبھی کبھار ایک ووٹ کی اکثریت کی وجہ سے بھی ہوتی ہے۔کبھی کبھار ایک ووٹ کی کمی کی وجہ سے بھی حکومتیں گر جاتی ہے۔یہی حکومتیں قانون سازی کرتی ہیں۔ ملکی نظام چلانے کے لیے پالیسیاں بناتی ہیں۔بین الاقوامی معاملات بھی یہیں حکومتیں اور پارلیمنٹ سلجھاتی ہیں۔اگر تمام دیندار لوگ ووٹ کے عمل سے بائیکاٹ کریں تو بے دین اور اسلام دشمن لوگ اسمبلیوں میں جاکر قرآن و حدیث اور تعلیماتِ اسلامی کے خلاف قانون سازی کریں گے اور لامحالہ یہ نہ مسلم مملکت کے لیے مناسب ہے اور نہ ہی عام و خاص مسلمانوں کے لیے۔ایسی صورت حال میں جمہوری طریقے سے لڑے جانے والے الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے عمل کومحض مباح نہیں،بلکہ واجب اور فرض کادرجہ بھی دیا جاسکتا ہے۔مکرر عرض ہے کہ اس سارے عمل میں حصہ لینا صر ف اور صرف دفع مضرت کے لیے ہے۔ ورنہ تو جمہوری نظام کے ذریعے اسلام لانا محال ہے۔ کم از کم اب تک کے تجربات کا تو یہی خلاصہ ہے۔
ہمارے ہاں انتخاب سے پہلے زور و شور سے کمپئین چلائی جاتی ہے۔ ہر پارٹی ایک لمبا منشور رکھتی ہے اور مختلف حلقوں سے امیدوار الیکشن کے لیے کھڑے کیے جاتے ہیں اور یہ امید وار بھی پارٹی ٹکٹ کے لیے کروڈوں رشوت دیتے ہیں اس حوالے بھی ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ
انتخاب میں بطور امیدوار خود کو پیش کرنا چند شرائط کے ساتھ جائز ہوجا تا ہے، یہ کہ کوئی دوسرا شخص الیکشن میں امیدواربننے کے لیے دستیاب نہیں ہو۔ یا دستیاب تو ہو مگروہ اس کام کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہو۔یا بہت سارے افراد کنڈیڈیٹ بننے کے لیے تیار ہیں۔لیکن وہ تمام افراداس عہدہ کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ اس صورت حال میں کسی کو یہ یقین ہو کہ وہ ان تمام افراد میں بہتر ہے اور الیکشن کے بعد عوامی خواہشات پر پورا اتر سکتا ہے اوراپنی ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا بھی کرسکتا ہے، تائیدِ حق اور انکار باطل کی بھی ہمت ہے۔ اور ساتھ ساتھ جمہوری نظام میں رہتے ہوئے اپنے ایمان اور عقیدے کو بھی محفوظ رکھ سکتا ہے ۔ اور ممبری کا حصول حب مال اور دنیا کمانا نہ ہو۔اور اس ممبری سے نیت یہ ہو کہ عوام کی بلاتفریق خدمت کریں اور ان کے حقو ق کی پاسبانی کریں۔ اور سماجی انصاف قائم کرسکیں ۔ ایسی صورت میں کسی ایسے فرد کے لیے بطور کنڈیڈیٹ اپنے آپ کو پیش کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ بہت ہی مستحسن بھی ہے۔اس حوالے سے ہم حضرت یوسف علیہ السلام کی پیشکش سے بھی استدلال کرسکتے ہیں۔انہوں نے خشک سالی اور اس کے بعد کی صورت حال سے یعنی کہ لوگوں کو بھوک و افلاس سے بچانے کے لیے اپنی خدمات پیش کی تھی قران کریم میں ہے کہ یوسف ؑ نے فرمایا’’قال اجعلنِی علی خزاءِنِ الارضِ انِی حفِیظ علِیم ) کہ مجھے ملکی خزانوں پر مامور کردیجیے میں نگہبان ہوں اور خوب واقف کار بھی ۔
البتہ جو لوگ یا کنڈیڈیٹ ان صفات عالیہ سے عاری ہوں، ان کے لیے عہدہ طلبی اور الیکشن میں امیدوار بننا جائز نہیں ہے ۔حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے پر مکمل یقین تھا کہ وہ اس اہم ذمہ داری سے عہدہ براں ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے تو ایک کافر حاکم کے لیے اپنی خدمات شرائط کے ساتھ پیش کی تھی یہاں تو حاکم مسلمان ہے۔ہمارے بعض اسلامی مفکرین نے اس موجودہ جمہوری نظام میں شرکت کو ناجائز لکھا ہے مگر جمہور علما اور فقہا نے جواز کے قول کو ہی اختیار فرمایا ہے ۔ جس کی وجہ سے علماء کرام کا ایک بڑا طبقہ اس جمہوری الیکشن میں حصہ لیتا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں کئی ایک اہم فیصلے اسمبلیوں میں اسلام اور مسلمانوں کے حق میں ہوئے ہیں جس کی مثال فی زمانہ دنیا میں کہیں پر بھی نہیں ملتی۔
ایک اعتراض عام طور پر یہ بھی کیا جاتا ہے کہ جمہوری نظام لادینی نظام ہے اور لادینی نظام میں شرکت دین کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ یہ حقیقت تو بدیہی ہے کہ جمہوری نظام لادینی نظام ہے لیکن اس میں شرکت سے دین کو نقصان پہنچنا ضروری نہیں۔تاہم میں یہ عرض کرتا ہوں کہ لادینی نظام میں اس لیے حصہ لینا کہ اس سے مسلمانوں کو نفع مل رہا ہو، قطعا ناجائز یا حرام نہیں ہوتا۔اور اگر کسی غیرمسلم امیدوار کے مقابلے میں مسلم ایماندار اور مضبوط امیدوار ہوتو مسلمانوں کے عمومی مصالح کے لیے اس کو ووٹ دینا اور اس کی حمایت کرنا نہ صرف جائز ہوتا ہے بلکہ لازم بھی ہوجاتا ہے۔اور بالکلیہ الیکشن سے بائیکاٹ کرنا ہر لحاظ سے مفید نہیں۔اگر کوئی متعصب اور اسلام بیزار آدمی ممبر بنا تو لازمی بات ہے کہ وہ اسلام اور عوام دشمنی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گا اور یہ یقیناًعوام کے لیے نقصان عظیم سے کم نہیں۔علمائے امت نے مسلمانوں کے لیے جلب منعفت اور فع مضرت مقاصد دین میں گردانا ہے۔ایک دیندار اور صالح و غیور امیدوار کے کامیاب ہونے میں دفع مضرت بھی ہے اور جلبِ منفعت بھی۔
یہاں یہ ذہن میں رہے کہ جو پارٹی اپنے منشور کے اعتبار سے یا اپنے قول و عمل کے اعتبار سے اسلام دشمنی کا اظہار کررہی ہے۔ مسلمانوں کے عام مصالح کے لیے رکاوٹ بن رہی ہے ایسی پارٹی میں شرکت کرنا یا پھر ایسی پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دینا جائز نہیں ہوتا۔
اور نہ ہی ایسی پارٹی کا امیدوار بننا جائز ہے۔ سورۂ ممتحنہ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ’’یا یہا الذِین آمنوا لا تتخِذوا عدوِی وعدوکم ولِیاء ‘‘اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بنا!آیت مذکورہ میں اسلام کے دشمنوں اور دشمن قوتوں کے ساتھ دوستی قائم کرنے کو سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے،لہذا وہ سیاسی پارٹیاں جو اسلام اور مسلم دشمنی کو اپنا شعار بنائے ہوئی ہیں،منظم فسادات بھڑکا کر مسلمانوں کی جان مال اورعزت وآبرو سے کھیلتی ہیں، ان کے مقدس مقامات کو نقصان پہنچاتی ہیںیا نقصان پہنچانے میں ممد و معاون بنتی ہیں اور اس پر خوش بھی ہوتی ہیں ایسی سیاسی و مذہبی پارٹیوں میں مسلمانوں کی شمولیت احکام الہی کی صریح خلاف ووزی ہے ۔یہاں تک سیکولر پارٹیوں کی بات ہے توان میں مشروط شرائط کے ساتھ سیاسی وابستگی کی گنجائش ہے یعنی کہ ان سے مسلمانوں کے عمومی و خصوصی مصالح کو نقصان نہ پہنچے۔
خواتین اسلام کے حوالے سے قرآن و حدیث میں واضح احکامات موجود ہیں۔بہت سارے معاملات میں مرد اور عورت کی ممتاز حیثیت ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ کا عورتوں کے لیے حکم ہے ’’تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور پچھلی جاہلیت کی طرح بناو سنگار کرکے مت نکلا کرو‘‘۔ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی کہ اہلِ فارس نے کسری کی بیٹی کو اپنا سربراہ بنا لیاہے،تو آپ نے فرمایاکہ وہ قوم کبھی کام یا ب نہیں ہوسکتی جو کسی عورت کو اپنا سربراہ بنا لے ۔ان احکام کے بعد عورت کو سربراہ مملکت بننا جائز نہیں ہوتا۔تاہم اگر خواتین کے لیے مکمل پردے کے انتظام کے ساتھ الگ نشستوں کا اہتمام ہو، ان کی تمام ایوانی کاروائیاں الگ سے کی جارہی ہوں تو ان کے لیے شاید ممبراسمبلی بننا جائز ہواور اگر یہ خواتین اپنی ممبری اور دیگر سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں احکام شرع کی پابندی نہ کرسکیں تو لامحالہ ان کو سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں شرکت مناسب نہیں ہوگی بلکہ ناجائز ہوجائے گی۔
موجودہ پارلیمنٹ کے حوالے سے یہ عرض کرنا ضروری ہے ۔پارلیمنٹ کی حیثیت مجلس شوریٰ کی سی بن گئی ہے۔ مشاورت کے حوالے سے اللہ کا فرمان ہے کہ ’’وامرہم شوریٰ بینہم ‘‘ اور ’’وشاورہم فی الامر‘‘۔ تاہم یہ مشاورت اور قانون سازی ان امور ہوگی جن میں نصوص اور اجماع امت نہ ہو۔چونکہ اسلام میں کچھ احکام منصوص من اللہ ہوتے ہیں اور کافی سارے احکام کے بارے میں اجماع امت ہوچکا ہے ہے۔ ان امور میں نہ مشاورت کی گنجائش ہے نہ ہی کسی قسم کی قانون سازی کی۔ مثلاً سود وشراب حرام ہے، حاکمیت صرف اللہ کے لیے مخصوص ہے اوراسی طرح حدوداللہ میں کسی تغیر ،مشاورت اور قانون سازی کی قطعا گنجائش نہیں ہے۔تاہم اسلام نے مشاورت کی شکل کو کسی خاص صورت میں بیان نہیں کی۔ ہرزمانے کی ضروریات و تغیریات کو مدنظر رکھتے ہوئے مشاورت کے لیے کوئی سا فورم بنایا جاسکتا ہے۔مگر اس فورم میں اہل الرائے کا ہونا ضروری ہے۔ پارلیمنٹ کو مجلس شوریٰ کا ادارہ کہا جاسکتا ہے ، اور اسی پارلیمنٹ میں اسلام کی روشنی میں نئی قانون سازی کی جاسکتی ہے۔مگرقانون سازی کے نام پر حدوداللہ اور منصوص احکام کیساتھ چھیڑنے کی قطعا گنجائش نہیں۔ اس کی اجازت تو رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین کوبھی نہیں تھی۔
یہ راز بھی اب راز نہیں رہی کہ جمہوریت چاہیے جس شکل میں بھی ہو، کا ایک اصول ہے کہ ہر حال میں حکومت حاصل کی جائے، اس کے سِوا جمہوریت کی چکی دو قدم چل ہی نہیں سکتی۔انتخابی مہم کے دوران تمام سیاسی پارٹیاں اور کنڈیڈیٹ ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ اور ہر جائز و ناجائز طریقے کو روا رکھتے ہیں۔پروپیگنڈہ کا رواج عام ہوجاتا ہے۔ اپنے حلقے کے لوگوں سے بے شمار جھوٹے وعدے کیے جاتے ہیں۔دھندھالی کو باقاعدہ رواج دیا گیا ہے۔ووٹوں کی خریداری معمول کا حصہ بنا ہے۔عوام تو عوام یہاں تو سینٹ کے لیے ممبر وں کے ممبر خریدے جاتے ہیں جو کو ہمارے عرف میں ہارس ٹریڈنگ کہلاتا ہے۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ حصول اقتدار کے لیے اس سب کی اسلام سے اجازت مل سکتی ہے؟اسلام اس چیز کی کبھی بھی حمایت نہیں کرتا کہ حصول اقتدار کے لیے اپنی ہی تعریف میں قلابازیاں کھایا جایا۔ بڑے بڑے بینر لگوایا جائے،اور اخبارات اور ٹی وی چینلز پر انتخابی مہم یا کمپیئن کے نام پر کروڈوں کا خرچہ کیا جائے۔ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ بتاتا ہے کہ خود سے حکمرانی طلب کرنا یا عہدے مانگنا بہت بڑی عیب کی بات ہے بالخصوص اس صورت میں جب انسان نااہل ہو۔آپ ﷺ نے فرمایا ہمارے نزدیک تو وہ شخص بہت بڑا خائن ہے جواز خود حکومت طلب کرے۔کنزالاعمال میں ایک حدیث ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن سمرہ کو مخاطب فرماکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’ اے عبدالرحمن بن سمرہ! منصب کا سوال مت کرو اس لیے کہ اگر طلب پر تم کو یہ دیا جائے تو تم کو اسی کے حوالے کردیا جائے گا اور بلاطلب ملے تو نصرتِ الہی شامل حال ہوگی‘‘ آج کامل پانچ برس کے بعد پھر سے گلگت بلتستان میں انتخاب کا اہم ترین مرحلہ آچکا ہے۔ انتخابی مہم با قاعدہ شروع ہوچکی ہے۔گزشتہ پانچ سالوں میں جن لوگوں نے گلگت بلتستان کو بدآمنی، کرپشن، بدحالی ، بے انصافی، اور مذہبی تشدد پسندی جیسے مسائل میں دھکیلا ہے آج پھر سے انہوں نے اپنے آپ کو اصول پسند، سچے اور قوم کے لیے ضروری گرداننے کی کمپیئن شروع کیا ہے۔ایسے میں عوام کو بہت ہی سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔
جن لوگوں نے قوم اور علاقے کو قعرمذلت میں دھکیلا ہے آ ج پھر سے وہی لوگ عوام الناس کو یہ خوبصورت خواب دکھلا رہے ہیں کہ ہم جمہوریت کے علمبردار ہیں۔ آپ کے ہی ووٹ سے ہم منتخب ہوکر اسمبلی میں جائیں گے۔ تم ہی اصل طاقت کا سرچشمہ ہو،عوام کو اصل اقتدار کا مالک ٹھہرانے کے بعد یہی لوگ پھر سے اسمبلیوں میں پہنچ کر عوام الناس کو بھول جائیں گے اور عوام جمہوریت کے ثمرات سے مستفید ہونے کا خواب دیکھتی رہی گی۔ یہی جمہوریت کی اصل صورت ہے مگر پھر بھی ہم جمہوریت کے علمبردار بنے پھر رہے ہیں۔عجیب بات ہے کہ پوری دنیا میں جمہوری نظام سیاسی پارٹیوں کے بغیر دو قدم نہیں چل سکتا۔ یہ سیاسی پارٹیاں ہر ملک میں ہوتی ہیں۔ یہ پارٹیاں اپنے آپ کو نظریاتی، مذہبی، دینی اور نہ جانے کیا کیا القابات سے نوازتی رہتی ہیں۔ ان کے منشور اٹھا کر دیکھو تو انسان حیرت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مگر بخدا یہ لوگ نہ نظریاتی ہیں نہ کوئی اور صفت ان میں پائی جاتی ہیں۔ یہ تمام پارٹیاں اپنی پارٹی قائد کا جتھے ہیں جو مخصوص مقاصد کے لیے قربان ہوتے رہتے ہیں۔ کیاعوام الناس نے کبھی سوچا ہے یا سوال کیا ہے کہ یہ سیاسی پارٹیاں انتخابی مہم کے انعقاد کے لیے اتنا سرمایہ کہاں سے لاتی ہیں۔ان کے کنونش، دھرنوں، ہڑتالوں اور جلوسوں اور اشتہاربازیوں کے لیے اتنا کثیر سرمایہ کون عطاکرتا ہے۔یہی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہوتی ہیں جو ان کے تمام انتخابی اخراجات برداشت کرتیں ہیں تاکہ ان کے لوگ اسمبلی پہنچ کر ان کے مفادات کا تحفظ کرسکیں۔یہی کمپنیاں پوری پارٹی خرید لیتی ہیں اور پھر پارٹی کو فنڈنگ کرتی ہیں اور پارٹی حلقوں اور امیدواروں کو یہ رقم بطور انتخابی مہم چلانے کے لیے دے دیتی ہیں۔غور سے جائزہ لیا جائے تو پوری دنیا میں یہی کچھ ہورہا ہے۔
جو لوگ جمہوریت کو پرموٹ کرتے ہیں اصل میں وہی لوگ جمہورت کے اصل نمائندے ہیں۔یہی کارپوریٹ کلچر کے افراد ہی دنیا میں بھوک وافلاس اور غربت و بے روزگاری کے اصل ذمہ دار ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ اپنی مصنوعا ت کے ذریعے غریب اور مفلوک الحال انسانوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اور ان کی جائیداد میں منٹ منٹ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہی جاگیر دار پوری کی پوری سیاسی پارٹیاں خرید لیتے ہیں یعنی الیکشن کمپئین کا پورا خرچہ برداشت کرلیتے ہیں تاکہ ان کے منطور نظر لوگ اسمبلیوں میں آکر ان کے کاروبار اور مصنوعات کو وسعت دینے کی پالیساں اور قانون سازی کریں ۔ یہی کارپوریٹ جمہوریت کے اصل مالکان غریبوں کی لوٹی ہوئی دولت کا کچھ حصہ غریبوں میں بانٹ کر میڈیا پر اشتہار دے دیتے ہیں اور انسانی دنیا کے سخی ترین افراد کہلاتے ہیں۔ مگر بدبختی یہی ہے کہ اس صورت حال کا ادارک نہ عوام کو ہوتا ہے نہ خواص کو۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ دنیا کے کچھ امیر انسانوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے جمہوری نظام کو دنیا پر مسلط کیا ہے یعنی کہ پارٹی فنڈگ کے ذریعے پارٹی کی پارٹی اور افراد کے افراد کو خریدا ہوا ہے۔یہی لوگ جمہوری اداروں یعنی اسمبلیوں سے معاشی قوانین پاس کرواتے ہیں۔دنیا بھر کے کارپوریٹ سرمایہ داروں نے اپنی مصنوعات کے ذریعے عوام کی لائف اسٹائل تک کو تبدیل کررکھا ہے۔انہیں ایسی ایسی چیزوں کا عادی بنایا جاتا ہے کہ عوام ان کو زندگی کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں۔
کیا ہمیں معلوم نہیں ہے کہ پورا مغرب اور ان کے تھینک ٹینک چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں جمہوریت کا رواج ڈالا جائے اور قابل قبول بنانے کے لیے ’’اسلامی جمہوریت ‘‘ کا خوبصورت نام تراشا جاتا ہے۔ مغرب اور اس کے پالیسی ساز سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کو جمہوریت کے خوشنما نعرے میں ہی غرق رکھا جائے۔ اگر یہ لوگ جمہوریت کے بجائے خلافت اپنانے لگے تو یہی خلافت مغربی زوال کا ابتداء ہوگا۔سچ یہ ہے کہ پوری مسلم امہ کو خلافت یاد ہی نہیں رہی اور مغرب خلافت کے تصور کو کبھی بھول ہیں نہیں سکتا کیونکہ اسلامی خلافت مغرب کے لیے ابدی موت کا پیغام ہے۔ اس لیے دنیا میں جہاں کہی بھی خلافت کی آواز یا اسلامی نظام کی لہر شروع ہوتی ہے تو مغرب اس کو تاراج کرنے کے لیے ناٹو کی شکل میں اکھٹا ہوتا ہے اور غریب اور مفلوک الحال ممالک میں چڑھ دوڑتا ہے تاکہ وہاں جمہوریت قائم کرسکے۔مغرت نے تمام مسلمانوں کو خلافت سے بدظن کرکے جمہوریت کا درس دیا ہوا ہے تاکہ مسلمان اللہ کی حاکمیت و حکمرانی کو بھلا کر اپنی یعنی عوام کی حکمرانی میں جُت جائیں۔تب ہی تو مغرب مسلم دنیا میں جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ لیے پھرتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ جمہوریت سے صبح روشن کی امید کرنا ایک سراب ہے اور اس سراب میں گزشتہ ستر سال سے پوری پاکستانی قوم دھوکہ کھارہی ہے۔جمہوریت پر اسلام کا لیبل لگانا اور اس کو اسلامی بنانے کی کوشش کرنا ایک کار عبث سے زیادہ کچھ نہیں۔ ایک غیر اسلامی سسٹم پراسلامی لیبل چسپاں کرنے سے ہرگز اسلامی سسٹم نہیں بن سکتا۔
اسی پوری بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے جو شروع میں عرض بھی کیا تھا کہ اسی پارلیمانی جمہوری نظام کے اندر اپنے لیے گنجائش نکالنی ہے۔ اس کے بائیکاٹ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔عوام الناس کو چاہیے کہ اپنے اپنے حلقوں سے ایماندار اور صالح الفکر افراد بطور نمائندہ اسمبلی کے لیے منتخب کریں۔اسمبلی میں جانے کا مقصد تائید حق ہونا چاہیے اور انکار باطل بھی۔اگر اس نظام کو مغربی یا غیر اسلامی کہہ کر کنارہ کشی اختتار کی جائے تو لامحالہ سیکولر اور اسلام بیزار لوگ خوش ہونگے ان کے وارے نیارے ہونگے۔لہذا ووٹنگ کے ذریعے ان کا راستہ روکنا چاہیے۔ایماندار اور مصلح قوم افراد کو اسمبلیوں میں پہنچنا چاہیے اور لادین اور امت بیزار لوگوں کے لیے سدِسکندر ی بننا چاہیے۔میں نہیں سمجھتا کہ عوام دشمن اور ملک و ملت دشمن لوگوں کے لیے میدان خالی چھوڑا جائے۔الیکشن کمیشن کا ادارہ شفاف الیکشن کروانے کے لیے ہی بنایا گیا ہے اور آئین کے مطابق نگران حکومت کا بھی یہی اہم فریضہ ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر شفاف الیکشن کو یقینی بنائے۔ اب عوام، الیکشن کمیشن، نگران حکومت اور بیوروکریسی پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ شفاف الیکشن کے لیے ہر ممکن اقدام کریں اور آئین کی آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کے عملی نفاذ کو یقینی بنائے تاکہ کوئی ملک و ملت اور عوام دشمن انسان اسمبلی پہنچ کرملک و ملت اور عوام کے ساتھ کھلواڑ نہ کرسکے۔ہم ایک اضطراری دور میں جی رہے ہیں۔اس لیے جمہوری نظام کو قبول کرتے ہوئے الیکشن میں حصہ لینا چاہیے لیکن اصل منزل خلافت اور امارت کو نہ بھولنا چاہیے۔اس کے لیے مناسب اور اسلامی طریقے کے ذریعے کوشش کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے۔ کیا ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ اسلامی زندگی کے تمام پہلووں کو معاشرے اور ریاست میں نافذ کیے بغیر کہیں سے بھی خیر کی توقع کرنا فضول ہے۔ایک وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ میں ایک پولیٹیکل سائنس کا ا سٹوڈنٹ ہونے کے ساتھ ایک دینی طالب علم بھی ہوں۔ دونوں کامطالعہ اور زمینی مشاہدوں سے یہی کچھ سمجھ آیا ،جو بلاکم وکاست آپ کی خدمت میں عرض کیا۔وماعلینا الالبلاغ۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔