گلگت بلتستان کا انتخابی عمل کو فرقہ وارانہ تعصبات سے پاک رکھنا ہوگا
یہ عجیب تماشہ ہے کہ نادرا نے 2009ء کے 7لاکھ 17ہزار 286ووٹ کے مقابلے میں 2015کے انتخابات کیلئے 6لاکھ 18ہزار 364ووٹرز کی فہرست مرتب کی جو 2009ء کے مقابلے میں تقریبا ایک لاکھ ووٹ کم ہیں
عبدالجبارناصر
گلگت بلتستان میں قانون ساز اسمبلی کی 24عام نشستوں کے لیے انتخابات کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں اور انتخابی مہم بھی اپنے عروج کی طرف گامز ن ہے ۔کاغذات نامزدگی جانچ پڑتال کے بعد امیدواروں کی حتمی فہرست بھی جاری ہوچکی ہے جس کے مطابق مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں اور آزاد 286امیدوار 24نشستوں کیلئے میدان
میں ہیں۔
سیاسی و مذہبی جماعتوں میں مسلم لیگ(ن) نے 24،پیپلزپارٹی نے 23، تحریک انصاف نے 18 ، مجلس وحدت المسلمین نے 12، اسلامی تحریک پاکستان نے 11جمعیت علماء اسلام(ف) نے 10،پاکستان عوامی تحریک نے 8،ایم کیوایم نے 7،جماعت اسلامی نے 6،آل پاکستان مسلم لیگ نے 5،سنی اتحاد کونسل نے 4، گلگت بلتستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے 2،باورستان نیشنل فرنٹ اور قراقرم نیشنل موومنٹ نے ایک ایک امیدوار میدان میں اتارا ہی۔ 2009ء کے انتخابی عمل
میںشریک مسلم لیگ(ق) اور عوامی نیشنل پارٹی کا وجود ہی مٹ چکا ہے ۔
اب تک کے مختلف سروے کے مطابق ضلع گلگت کے حلقوں میں مسلم لیگ(ن)پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف۔ضلع ہنزہ نگر کے 3حلقوں میں مسلم لیگ (ن ) پیپلزپارٹی ، اسلامی تحریک پاکستان ، مجلس وحدت مسلمین اور تحریک انصاف ۔ ضلع سکردو کے 6حلقوں میں مسلم لیگ (ن) پیپلزپارٹی ، تحریک انصاف، مجلس وحدت المسلمین اور اسلامی تحریک پاکستان۔ضلع استور کے 2 حلقوں میں مسلم لیگ (ن) پیپلزپارٹی اور آزاد امیدوار وں ۔ ضلع دیامر کے حلقوں میں مسلم لیگ (ن) جمعیت علماء اسلام (ف)، پیپلزپارٹی اور آزاد امیدواروں ۔ ضلع غذر کے حلقوں میں مسلم لیگ (ن) پیپلزپارٹی تحریک انصاف ، بالاورستان نیشنل فرنٹ اور ضلع گانچھے کے حلقوں میںمسلم لیگ (ن ) پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے مابین مقابلہ متوقع ہی۔
مسلم لیگ (ن) کوسے 11،پیپلزپار ٹی کو 5سے 8،تحریک انصاف کو سے 4 ،مجلس وحدت المسلمین کو 2سے 3 ، اسلامی تحریک پاکستان کو 2سی، جمعیت علماء اسلام کو 1سے 2،بالاورستان نیشنل فرنٹ کو ایک اور آزاد امیدواروں کو 1سے 3نشستیں ملنے کا امکان ہے تاہم اصل صورتحال جون کے پہلے ہفتے میں ہی واضح ہوگئی۔
انتخابات میں کامیابی کے لیے جوڑ توڑ بھی جاری ہے اور مجموعی طور پر تقریبا تمام ہی جماعتیں مسلم لیگ (ن) باالخصوص اس کے صوبائی سربراہ حافظ حفیظ الرحمن کے خلاف مہم میں مصروف ہیں اگر تمام 24حلقوں کا مختصر جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا مناسب ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) اور دیگر کے مابین مقابلہ ہی۔اب تک مختلف جماعتوں کے مابین مفاہمت کیلئے کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی تاہم تحریک انصاف،مجلس وحدت المسلمین، سنی اتحاد کونسل اور پاکستان عوامی تحریک کے اتحاد اور انتخابی مفاہمت کا نہ صرف واضح امکان ہے بلکہ کافی حدتک پیش رفت بھی ہوچکی ہے ، آخر الذکر دو جماعتوں کا ووٹ 24میں سے کسی ایک حلقے میں بھی اتنا نہیںکہ وہ کسی امیدوار کی کامیابی اور ناکامی میں اہم کردار ادا کرسکی۔
گلگت بلتستان میں جماعتی بنیادوں پر 1994ء سے ہو رہے ہیں اور 8جون015ء کو ہونے والے انتخابات پانچویںجماعتی انتخابات ہیں ۔ماضی کے انتخابات کاجائزہ لیں تو بدقسمتی سے خطے کے کچھ علاقوں میں باالخصوص گلگت ،گانچھے ،غذر اور استور میں فرقہ وارانہ سوچ کا عمل دخل رہاہے اور گلگت شہر کی صورتحال تو اس حوالے سے ہمیشہ کشیدہ ہی رہی ہے تاہم یہ بات خوش آیند تھی کہ گزشتہ چند سالوں میں لوگوں کی سوچ فرقہ وارانہ ووٹ کی بجائے سیاسی ووٹ کی طرف بڑھ رہی تھی اور جو علاقے ماضی میں مختلف مکاتب فکر کے امیدواروں کے لئے نوگو ایریاز بن چکے تھے وہاں آزادی سے انتخابی مہم چلانے اور انتخابی دفاتر قائم ہورہے تھے ،لیکن کچھ نو واردجماعتوں کے مذہبی نعروں نے ایک مرتبہ پھر گلگت بلتستان کے انتخابی عمل کو بعض علاقوں میں فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی ہے اور بعض آزاد امیدواروں نے بھی اس میںاہم کردار ادا کیا ہی۔ اس ضمن میں سب سے اہم واقعہ ضلع گلگت کے حلقہ نمبر 1کے علاقہ نومل میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والا وہ ریفرنڈم ہے جو فرقہ وارانہ سوچ کے مطابق حلقے میں اپنے امیدوار کو کامیاب کرانے کیلئے ہوا ہے ۔ انتخابات سے قبل اس طرح کا ریفرنڈم اور اقدام نہ صرف قابل مذمت بلکہ قابل گرفت بھی ہے ۔ چیف الیکشن کمشنر آف گلگت بلتستان جسٹس(ر)سید طاہر علی شاہ اور نگران وزیر اعلیٰ شیر جہان میر کوفرقہ وارانہ انتخابی مہم کا نوٹس لینا چاہئے کیونکہ ماضی میں یہ عمل خطے میں تباہی کا سبب بنا ہے ۔ تمام جماعتوں اور امیدواروں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ فرقہ واریت ، لسانیت ، قبائلی اور علاقائی تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے انتخابی منشور پر مہم چلائیں ۔اس ضمن میں انتخابی عمل میں شرکت کیلئے جانے والی پاکستانی قیادت کو بھی غور وفکر کرنے کی ضرورت ہی۔
q تحریک انصاف کے اہم صوبائی عبدالطیف اور ہنزہ کے رہنمائوں کی مسلم لیگ (ن ) میں شمولیت اور حافظ حفیظ الرحمن و میر غضنفر علی خان کی حمایت یقینا تحریک انصاف کے لئے بہت بڑا دھچکا ہی۔ دیگر جماعتوں کے مابین بھی ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر اختلافات کھل کر سامنے آچکے ہیں اور امیدوار ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگارہے ہیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن )بعض حلقوں میں مشکلات کا سامنا ہے ۔پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ اور مختلف رہنمائو ایک دوسرے پر سخت الزام تراشی کر رہے ہیں ۔نگر سے محمد علی اختر کی بغاوت پیپلزپارٹی کے لئے نقصان کا باعث بن سکتی ہے ۔
انتخابات کیلئے تین ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا لیکن ووٹر فہرست تنازعہ حل نہ ہوسکاہے ۔ یہ عجیب تماشہ ہے کہ نادرا نے 2009ء کے 7لاکھ 17ہزار 286ووٹ کے مقابلے میں 2015کے انتخابات کیلئے 6لاکھ 18ہزار 364ووٹرز کی فہرست مرتب کی جو 2009ء کے مقابلے میں تقریبا ایک لاکھ ووٹ کم ہیں ۔1999 ء سے ووٹرز کی تعداد کا جائزہ لیاجائے تو ووٹرز میں مسلسل اضافہ ہوتارہاہے جو قانون فطرت بھی ہے ،اسی تناسب سے ووٹوں میں اضافہ ہوتا تو 2015ء میں کل ووٹ 8لاکھ سے زائد ہونے چاہئے تھے لیکن 2015کی فہرست میں اضافے کے بجائے 2009ء کے مقابلے میں تقریباًایک لاکھ ووٹ کم ہوگئے ہیں ۔ ماضی کے ریکارڈ کے مطابق 1999ء میں کل ووٹ 493099، تھے جو 2004 میں بڑھ کر 520316ہوئے (.52فیصد اضافہ )اور009ء ووٹرز کی تعداد 717286تھی(7-85فیصد اضافہ ) ،009ء کی ووٹرز فہرست میں زیادہ اضافے کا ایک بڑا سبب یہ تھاکہ 2009میں پہلی مرتبہ ووٹرز کی عمر 21سال سے کم کرکے 18سال کردی گئی تھی اور ماضی کے حقیقی اضافے کو بنیاد بنایا جائے تو 2015 میں ووٹرز کی تعداد تقریبا 8لاکھ ہونی چاہیے تھی مگر یہ تعداد18364 ہے جو009ء مقابلے میں تقریبا پونے دو لاکھ ووٹ کم ہے ۔ الیکشن کمیشن آف گلگت بلتستان اور حکومت اس کی بڑی وجہ پورے ملک میں ایک شخص ایک ووٹ کے فارمولے کو بیان کررہے ہیں ۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ گلگت بلتستان کے تقریبا ایک لاکھ سے زائد افراد کا ووٹ پاکستان کے مختلف علاقوں میں درج ہونے کی وجہ سے وہ اپنے علاقوں میں ووٹ کا حق استعمال نہیں کرسکیں گے جبکہ کشمیریوں کیلئے ایسی کوئی پابندی نہیں ہے ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نادرا کے حکام کے مطابق گلگت بلتستان کی حکومت اور الیکشن کمیشن کی درخواست کے بغیر ہم گلگت بلتستان کے ووٹرز کو آزاد کشمیر طرز پر دہرے ووٹ کا حق از خود نہیں دے سکتے اس ضمن میں راقم نے 2011ء اور 2015ء کے شروع میں سابقہ اور موجودہ حکومت کو خطوط اور مضامین کے ذریعے صورتحال سے آگاہ کیا تھا تاہم اس پر دلچسپی نہیں لی گئی جس کی وجہ سے ایک لاکھ سے زائد ووٹرز حق رائے دہی سے محروم رہیں گے اور یہ تعداد کئی حلقوں میں ہار اور جیت میں بنیادی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہی،اس لئے ووٹرز فہرست میں اصلاح کی سخت ضرورت ہے