کالمز

! احتساب کرنے کا

بگروٹ جاتے ہوئے لبوں  پہ مسکراہٹ سی ابھر آئی تھی  ۔۔مسکرانے کی بات آئی ہے تو یہ بھی نہ سمجھیں  کہ میں کوئی لطیفہ  جو  اکثر سکھ سردار ،پٹھانوں یا بگروٹ  کے علاقے سے منسوب ہیں سنا کر  آپ کے دل کو مزید کھلکھلانے کا موقع فراہم  کرنے جا رہا Hidayat-Ullahہوں شائد بگروٹ  کا نام  پڑھ کر   آپ   کا ذہن بھی اسی طرف چلا گیا ہوگا ۔ایسی بات ہرگز نہیں ہے ۔ میں جو بات کہنے جا رہا ہوں ممکن ہے کہ وہ  ایسی ہو  جو آپ کی طبعت کے مطابق نہ ہو  یا یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اسے سن کر واہ واہ کر جائیں ۔۔

۔یہاں بات واہ واہ اور ناگواری کی نہیں بلکہ  آہ والی ہے  اور آہیں بھرنے کے سوا کچھ نہیں  اور یہی آہئیں پچھلے آٹھاسٹھ سالوں سے  اٹھ رہی ہیں لیکن  کوئی بھی  ایسا  ہمدرد یا غمگسار  نہیں جو  ان آہوں کی طرف کان دھرے ۔اور کسی  کو اتنی فرصت ہی کہاں کہ  وہ  غریب اور بے سہارااور تکلیف سے بلبلاتے معصوم دیہاتیوں جس کو آپ اور ہم سب عوام کہتے ہیں  ان کے مسائل کی طرف دھیان دے۔ میرا  موضوع  بگروٹ ہے  جی ہاں بگروٹ   آپ کے ذہن میں یہ بات بھی آرہی ہوگی   بگروٹ  کا ذکر کیوں؟ اب اس کیوں کاجواب پانے کے لئے  اقتصادی و معاشی کوری ڈور یا راہدری کا تذکرہ بھی کردوں تو یہ عجیب سا تو لگے گا  لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہم اپنے سامنے بڑے معاشی و اقتصادی راہدری کی باتیں تو کرتے ہین لیکن ان چھوٹے اقتصادی راہداریا ں جن میں بگروٹ نلتر گاشوپہوٹ اور کارگہ شامل ہیں یکسر بھول چکے ہیں ۔  بگروٹ سمیت دوسرے سیاحتی مقامات جو گلگت کے بہت قریب ہیں رسائی ممکن بنا دی جاتی تو ان علاقوں کی معاشی حالت بدل سکتی تھی۔۔لیکن اٹھاسٹھ سال گزرنے کے بعد بھی ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ یہ سیاحتی مقامات۔یا وادیاں جو  گلگت کے قریب قراقرم اور ہندوکش پہاڑی سلسلوں  کے بیچ  بلند بالا پہاڑوں میں  واقع ہیں  اور سیاحوں  کے لئے بڑی دلچسپی کا ساماں رکھتے ہیں  ضروری سہولیات سے یکسر خالی ہیں اگر یہ سہولیات  مہیا کی جائیں تو زر مبادلہ کمانے کے ذرائع بن سکتے ہیں ۔ ۔ان مقامات کی خوبصورت اور دلکش نظاروں کے بارے پہلے لکھا جا چکا ہے اور آگے بھی  ادیب اور سیاح لکھتے رہئنگے    ۔گھومنا پھرنا انسان کی فطرت میں  شامل ہے خاص کر موسم گرما تو  ہے ہی  سیر سپاٹے کے لئے اور  اس موسم میں    اکثر لوگ  پہاڑی علاقوں کا رخ کرتے ہیں ۔تاکہ فطرت کے مناظر اور  قدرت  کے دلکش نظاروں سے  لطف اندوز  ہو سکیں ۔

ایسے ہی ہم بھی بگروٹ  کی وادی کے سیاح بن گئے۔  جوں ہی گاڑی اوشکھنداس داس  سے بگروٹ والے راستے کی طرف مڑی تھی  ۔ہمارےایک  ہمسفر  ساتھی  گویا ہوئے    کہ   آج سے بیس سال پہلے جب وہ  بگروٹ  آیا تھا  یہی  کچا راستہ یا سڑک تھی اور   آج بھی اسی طرح کچی ہی ہے  ۔۔اور اگلے ہی لحمے وہ مجھ سے سوال کر رہا تھا کہ سر ایسا کیوں ہے؟جیسے میں کوئی عوامی نمائندہ ہوں اور میں نے ہی کوئی سکیم  دی ہو جو  مکمل نہیں ہوئی ہے۔۔میں اپنے اس ساتھی  سے کیا کہتا۔اس کی بات پر  کان ہی نہ دھرے ۔اور ٹالنے کے انداز میں ہاں ہوں کرتا رہا۔بس صرف اتنا کہا کہ شکر ہے  اب بھی یہ کچی سڑک موجود اور قائم و دائم ہے  ۔۔جو ہمیں گلگت سے نزدیک  خوبصورت اور حسین وادی بگروٹ  تک  لے جانے میں مدد گار بن رہی ہے۔بگروٹ  دیکھنے کے بعد تو باتیں اس کے قدرتی حُسن اور اس  کے دلکش نظاروں کی ہونی چاہئے تھی  لیکن یہاں اس کی دلکش نظارے اور قدرت حُسن  کو دیکھنے کے بعد حکومت سے زیادہ  نام نہاد عوامی نمائندوں کو کوسنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا پر دوسرے ہی لحمے خیال آتا ہے کہ  ان کچی سڑکوں کا پکا  اور مکمل نہ ہونے کا تعلق تو جا کے ہمارے کچے ذہنوں سےجُڑ جاتا ہے جس کے باعث  نہ ہماری سڑکیں ٹھیک ہو رہی ہیں اور نہ ہی دوسرے کام  پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں ،ان کچے ذہنوں کے  ذمہ دار بھی  یہی  لٹیرے اور چور نمائندے ہی ہیں جنہوں نے  عوام کو دوسرے مسائل میں الجھا دیا ہے اور وسائل کو دونوں ہاتھوں  سے لوٹ رہے ہیں ۔دیکھا جائے تو ان نام نہاد سیاسی لیڈروں  نے کہیں کا نہ چھوڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے،نہ کسی گائوں میں ڈھنگ کا کوئی سکول ہے اور نہ ہی کوئی ہسپتال۔۔بگروٹ جاتے ہوئے اس کچے سڑک پر  بہت ساری  پُرانی ماڈل گاڑیاں بھی ہمیں نظر آئیں جن کے چھتوں میں بھی لوگ سوار تھے اور کہیں تو چڑھائی ایسی کہ   سواریاں اتر کر گاڑی کو دھکا لگانے میں مصروف۔۔۔۔

اور ادھر میں سوچوں میں گھم کہ  اکیسویں صدی   اور گلگت بلتستان   جی گلگت بلتستان  میں صرف بگروٹ ہی ایسا علاقہ نہیں  جس کو ان حالات کا سامنا ہے یہاں تو ہر علاقے میں آپ جائیں  آپ کو  ایسے کئی مناظر دیکھنے کو مل جائینگے ۔۔سنکر،دتوچے اور بلچی کے کچھ مکینوں نے اس کا ذمہ دار حکومت کو ٹھرایا اور کچھ نے ممبروں کو  ۔۔اب آپ ہی بتائیں کہ ایسے میں دل  نام نہاد عوامی نمائندوں کو نہ کوسے تو پھر کن کو کوسے لیکن کیا کوسنے سے بات بن جائیگی جی نہیں کوسنا اس  کا حل نہیں۔سوال یہ ہے کہ جی بی کی یہ چھوٹی چھوٹی اقتصادی راہداریوں میں یہاں بسنے والے باسیوں کو کب شریک کیا جائیگا۔ اور یہاں تک پہچننے کے لئے ان کچی سڑکوں کو چوڑا اور پکا کب کیا جائیگا ۔۔آخر کب۔آخر کیا وجہ ہے کہ ترقیاتی کام اول تو ہوتے نہیں  اور اگر کوئی سکیم بن بھی جاتی ہے تو مکمل کیوں نہیں ہوتی۔ اور لوگ مسائل کا شکار کیوں ہیں  ان سب کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ جی بی میں احتساب نام کا کوئی عمل موجود نہیں ۔ احتساب کون کرے گا۔عوام یا حکومت ۔حکومت کے احتساب کے اپنے کئی طریقے ہیں لیکن عوام  جو احتساب کرینگے وہ فیصلہ کن  ثابت ہوسکتا ہے خوش قسمتی سے آگے آنے والا الیکشن عوام کے لئے ایک بہترین موقع ہے احتساب کرنے کا۔۔۔۔۔۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button