کالمز

انسانی حقوق پر ورکشاپ

شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی میں انسانی حقوق کے بارے میں دو روزہ ورکشاپ تھا۔ورکشاپ کے منتظم انسانی حقوق کمیشن صوبہ خیبر پختونخواہ کے زمہ دار تھے۔ورکشاپ میں چترال کے معروف اہل علم سے مختلف موضوعات پر لکچردلوائے گئے۔شرکاء سے مختلف سرگرمیاں کرائی گئی گروپ ورک کرائے گئے مجھے اتنے سارے اہل علم میں اپنے آپ کوپاکربہت اچھا لگا۔یہ سارے نوجوان تعلیم یافتہ ،پرعزم،باہمت،ان سب کی اکھیوں میں اُمید کی کرنیں اور سب کی پیشانیوں پر رضا کی منزل لکھی ہوئی تھی۔منتظمین بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تھے۔۔۔۔بات انسانی حقوق کی ہورہی تھی۔۔۔۔معاشرے میں بے چینیاں ہیں۔۔۔ہم ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرسکتے۔۔ہمیں ایک دوسرے کی فکر نہیں ۔۔۔ہم ہیں کہ صرف اپنے آپ کو سوچتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ ہم پرکسی کا حق بھی ہے ہم اپنے فرائض سے غافل رہتے ہیں ہم درد سے خالی ا ور سوز درون نہیں رکھتے۔۔۔ہم ہیں کہ پتھر ہیں۔۔۔

hayatمیں یہ سب باتیں ایک کونے میں بیٹھ کے سوچ رہا تھا۔جس نے بات کی اس نے بے چینی کی بات کی۔دہشت اور خوف کی بات کی۔وجہ بھی طویل تر بتائے کوئی حل نہ بتاسکے۔آخر کیوں ایسا ہوتا ہے یہ کسی نے نہیں بتایا۔الزامات کی بھرمار تھی۔مختلف طبقوں کونشانہ تنقید بنایا گیا۔میں شریر بچے کی طرح ان باتوں پر دھیان دینا چھوڑ دیا۔میں یہ سوچنے لگا کہ انسانی حقوق سے آگاہی کس طرح پیدا کی جائے۔میں سوچنے لگا جولوگ خود انسانی حقوق سے محروم نہیں ہیں وہ کیسے بتاسکیں گے کہ حق سے محروم ہونا کیا ہوتا ہے۔منتظمین میں سے کوئی اپنے حق سے محروم نہیں تھا،شرکاء میں سے کوئی بھی اپنی بنیادی حق سے محروم نہیں تھا۔کسی کے چہرے پر افسردگی نہیں تھی کسی کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے کوئی بھی بوکا پیاسا نہیں تھا ۔سب ناشتہ کرکے آئے تھے۔سب کے کپڑے اُجلے اور قیمتی تھے سب کے جوتے چمک رہے تھے۔سب کے بال صاف تھے سب کی جیبیں نوٹوں سے بھری ہوئیں تھیں۔

میں نے ایک چھوٹا سا سوال پروفیسر مطیع،پروفیسر ظہور دانش اور پروفیسر عظمیٰ شیر کے سامنے رکھا وہ میری آنکھیں نہ پڑھ سکے سوال میری آنکھوں میں تھا۔سوال یہ تھا کہ تم لوگ کس حق کی بات کررہے ہو۔تمہاری سوچوں کی دنیا کتنی آباد ہے۔تم نے کبھی کسی مجبور ومقہورکے بارے میں سوچا ہے۔تم نے کھبی معاشرے میں پھیلی بے چینیوں کے اسباب کے بارے میں سوچا ہے۔کھبی اس بات پر غور کی ہے کہ تمہارے اردگرد لوگوں کا ہجوم چیخ کیوں رہے،تڑپ کیوں رہا ہے۔۔۔منتظمین شرکا کو ایسی سرگرمیاں دے رہے تھے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ہنسیں ،قہقہالگائیں۔ان قہقہوں کی گونج سے عمارت ہل جائے۔۔۔میں نے کڑ کر خود کلامی کی۔اس ورکشاپ میں قہقہوں سے زیادہ تو آنسوؤں کی ضرورت ہے۔ایسے ورکشاپ میں لازم تھا کہ ایک بچی کو لاکر سامنے کرسی پر بٹھایا جاتا۔اس کے کپڑوں میں پیوند لگے ہوتے۔۔جوتے پھٹے ہوئے ہوتھے۔آنکھوں میں آنسو،چہرے پر افسردگی ،بال گرد الود،پرشان اور وہ خود سراپا سوال ہوتی۔اس سے پوچھا جاتا۔تمہارے ابو کیا کرتے ہیں؟۔۔۔جواب دیتی۔۔۔مزدور ہے۔سوال ہوتا آمی زندہ ہیں۔۔۔وہ کہتی کہ بیمار ہیں۔۔۔سوال ہوتا آپ کا کوئی بھائی ہے جواب ملتا ۔۔۔بم دھماکے میں فوت ہوئے ۔۔۔سوال ہوتا پڑتی ہو جواب ملتا ۔نہیں سوال ہوتا کپڑے اتنے پُرانے کیوں ہیں جواب ملتا ابو نئے کپڑے نہیں خرید سکتے۔مزدوری کے پیسے آمی کے علاج پر خرچ ہوتے ہیں ہم اکثر گھر میں بھوکے رہتے ہیں۔۔۔۔

پھر اس کے حقوق پر بحث ہوتی۔اس کی محرومیوں پر ڈیبیٹ ہوتا۔معاشرے میں اس کا مقام زیر بحث لایا جاتا ۔ہمسایوں ،اہل ثروت لوگوں اور حکومت پر ان کا کوئی حق ہے کہ نہیں اس پربات ہوتی۔اگر وہ حق سے محروم ہے تو غور کیا جاتا کہ کیا اس کے حقوق کا کوئی ذکر آئین میں نہیں یا آئین نے اس کو حق نہیں دیا۔قانون میں نصاب میں اس کے حق کا کوئی ذکر نہیں۔۔۔۔دوستو !ایساکچھ نہیں ہوتا۔حقوق سے محرومیوں پر ورکشاپ سہولیات سے بس کمروں میں بیٹھ کر قہقہا لگانے سے نہیں ہوتا۔لمبی چوڑی تقریر کرنے سے ان کی محرومیوں کا ازالہ نہیں ہوسکتا ۔اس کے لئے آٹے کی بوری کندھے پہ اُٹھائے رات کی تاریکی میں گھر گھر پہنچانا پڑتا ہے۔خطبہ دینے کے دوران ایک عام شہری سوال تحمل سے سننا پڑتا ہے اور تسلی بخش جواب دینا پڑتا ہے۔وصال کے وقت یہ وصیت کرنی پڑتی ہے کہ میرا زاتی گھر بھیج کر قیمت بیت المال میں جمع کرادوکیونکہ میں نے دوران خلافت بیت المال سے وظیفہ کھایا ہے۔اگر یہ سب صلاحیت پیدا کرنا ممکن ہوتو انسانی حقوق کی حفاظت ممکن ہے اگر اس بچی کے آنسوؤں سے پوچھا جائے تو وہ جواب دیں گے کہ دہشت گرد وہ جو ہمیں ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ہمیں آپس میں لڑاتا ہے ہمارے درمیان فاصلے بڑھاتا ہے جو ہمارے ہاتھوں میں بندوق تھماتا ہے۔ہمیں مفاد پریستی اور خود غرضی کابت بناتا ہے۔جب ہم لڑلڑ کے تھک جائیں اور بیکاری بن جائیں تو ہمیں کشکول تھمادیتا ہے۔۔۔۔لڑکی کا جواب درست ہے۔لڑکی کے آنسو سچ ہیں۔نوجوان پروفیسر اب میری آنکھوں میں موجود سوال نہیں پڑھ سکے تھے ان کو اپنی پڑی تھی۔پروفیسر عظمیٰ نے شاید میری اکھیوں میں موجود سوال پڑھ لیا تھا۔خود کلامی کے انداز میں کہا۔۔۔ہاں Sirہمیں آنسو چاہیئے۔ایسے آنسو جودلوں کے نہاں خانے سے اکھیوں کے راستے پھر دلوں پہ ٹپکیں ہمارے ساتھ ہنسی راس نہیں آتی۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button