مسلم لیگ (ن) اور جی بی کے مسائل
ہمیں اس بات پر حیران ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ مسلم لیگ (ن ) نے گلگت بلتستان کے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کر لی ہے۔ گلگت بلتستان میں 1994 سے جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوتے رہے ہیں تب سے لیکر آج تک یہ بات طے شدہ ہے کہ وفاق میں جو جماعت بر سر اقتدار ہوتی ہے وہ گلگت بلتستان میں واضح اکثریت سے کامیاب ہو جاتی ہے۔ مستقبل میں اگر جے سالک کی ٹانگہ پارٹی وفاق میں برسر اقتدار آ ئی تو یہی اکثریت ان کے نصیب میں بھی آسکتی ہے۔ یہ یہاں کے لوگوں کی سیاسی بصیرت کا نتیجہ ہے یا کسی خفیہ ہاتھ کی غیبی طاقت کا کیا دھرا ہے اس سے متعلق کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔ مگر اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ (ن) لیگ اپنے اگلے پانچ سالہ اہداف کا تعین کیسے کرتی ہے اور ان کے حصول کے لئے کیا حکمت عملی تیار کرتی ہے؟
مسلم لیگ (ن) نے گلگت بلتستان میں گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے کے دوران ایک اچھی اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہے اور خاص طور سے گزشتہ پی پی پی کی صوبائی حکومت کی نااہلی اور ناقص کار کردگی کو اجا گر کرنے اور ان کمزوریوں کو اپنے حق میں استعمال کرنے میں کمال مہارت سے کام لیتی رہی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ قیام امن کے لئے بھی اس جماعت کی کوششوں کو انہی سطوروں میں ہی سراہا جاتا رہا ہے۔ خود زمہ داری اٹھا نے کی نسبت اپوزیشن میں رہ کر بر سر اقتدار جماعت پر تنقید کرنا زیادہ آسان کام سمجھا جاتا ہے اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے اصل امتحان کا وقت اب شروع ہو گیاہے۔
آج سے ٹھیک پانچ سال قبل جب مہدی شاہ صاحب اقتدار کی کرسی سنبھا ل رہے تھے تو اس وقت ہم نے قطرہ قطرہ کے زریعے ان سے چند گزارشات کی تھیں تاکہ ان کی توجہ اصل ایشوز کی طرف دلایا جا سکے مگر وہ اقتدار کے نشے میں اتنے مست تھے کہ ان کو ہماری گزارشات نظر نہیں آئیں۔ جس کی وجہ سے ان کو آج پانچ سال بعد یہ برے دن دیکھنے پڑے ۔ اب جب (ن ) لیگ برسر اقتدار آئی ہے تو ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ان کے سامنے ان مسائل کی جھلک دیکھائی جائے جو کہ حل طلب ہیں اور ان کے حل سے گلگت بلتستان کے عوام کو ریلیف مل سکتا ہے۔
گلگت بلتستان کا بنیادی مسلہ اس علاقے کی غیر یقینی سیاسی حیثیت کا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ گلگت بلتستان کاہر باسی اس خطے کی آئینی حیثیت کے بارے میں فکر مند ہے۔ اب وقت آیا ہے کہ گلگت بلتستان کو پیکیجز کی کہانی سے نکال کے اس مسلے کا ایسا حل نکالا جائے جو کہ مستقل طور پر یا کم از کم مئسلہ کشمیر کے حل تک یہاں کے لوگوں کی محرومیوں کا مداوا کر سکے۔
گلگت بلتستان کا دوسرا بڑا مئسلہ فرقہ ورانہ ہم آہنگی کا ہے۔ اس کے لئے ایک ایسی جامع پالیسی کی ضرورت ہے جو یہاں بسنے والے تمام فرقوں کے درمیان ہم آہنگی کا باعث بنے اور علاقے سے یہ ناسور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے۔ مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس کا حل ہماری معاشی اور سیاسی ترقی کے علاوہ قانون پر عملداری، میرٹ کی پاسداری، بے روزگاری اور غربت کے خاتمہ سے جڑا ہوا ہے۔
گلگت بلتستان کا ایک اور اہم مئسلہ ہمار ے infrastructure کی تباہی ہے ۔ تمام بین الاضلاع رابطہ سڑکیں خستہ حالی کا شکار ہیں۔ گلگت تاسکردو روڈ، گلگت تا استور روڈ، رائیکوٹ پل تا چلاس روڈ، گلگت تا غذر روڈ اور سب سے بڑھ کر گلگت شہر کی اندرونی سڑکیں سمت ڈرینج اور سیوریج کا نظام تباہ و برباد ہیں۔ کئی بالائی علاقے بھی اس جدید دور میں سڑک سے محروم ہیں۔ اسی طرح چلاس تا بشام اور تھک نالہ سے کاغان ناران تک روڈ جلد مکمل کرنے کے لئے وفاق سے مطا لبہ کرنے کی ضرورت ہے۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔ پہلے صرف سردیوں میں لوڈشیڈنگ ہوتی تھی اب گرمیوں میں بھی طویل لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ اسی طرح گلگت اور سکردو شہر سمت دیگر کئی علاقوں میں پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے۔ شہروں کی صفائی بھی ایک بڑا مسلہ ہے۔
بے روزگاری گلگت بلتستان کا بہت بڑا مئسلہ بن کے ابھر رہا ہے۔ اگر اس پر بر وقت قابو نہیں پایا گیا تو صورت حال قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ اس کے لئے ایک پالیسی بنانے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ پبلک سیکٹر میں تمام لوگوں کو ملازمتیں فراہم نہیں کی جاسکتی ہیں۔ اس لئے پرائیویٹ سیکٹر کی فعالیت اور بیرون ملک ملازمتوں کے لئے راہ ہموار کرنی ہوگی۔
میڈیکل اور انجنئیرنگ کالجز کے علاوہ ٹیکنکل کالج کا قیام بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جبکہ تعلیم کے محکمے میں بڑے سطح پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اسی طرح صحت کا شعبہ جس زبوں حالی کا شکار ہے اس کی بہتری کے لئے دن رات کام کرنے کی ضرورت ہے۔
شندور، بابوسر اور بھاشا کے مقام پر گلگت بلتستان کی سرحدات کا تعین بھی ایک اہم مئسلہ ہے کیونکہ ان علاقوں میں کے پی کے کا قبضہ ہو چکا ہے جو کہ تشویش کا باعث ہے۔
غذر تا تاجکستان، غذر تا چترال، استور تا کشمیر اور اسکردو تا لداخ روڈ کھل جانے سے کاروبار کے نئے مواقع جنم لے سکتے ہیں۔ ان کی طرف بھی توجہ لازمی ہے۔
مذکورہ مسائل کے علاوہ تمام مردہ سرکاری اداروں میں جان ڈالنے کی اشد ضرورت ہے جن میں فشریز، زراعت، لائیو سٹاک، منرلز، سیاحت، جنگلات، پانی وبجلی، تعمیرات وغیرہ شامل ہیں۔
تھانہ کلچر تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے اس کے روک تھام اور تھانوں کو عوام کے لئے تحفظ کی جگہیں بنانا ، پولیس کی عوام دوستی کی تربیت، جبکہ تحصیل ، ڈی سی آفس میں ون ونڈو سروس متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔
ماتحت عدالتوں میں مقدمات کے بڑھتے ہوئے بوجھ کے پیش نظر ججز اور دیگر عملے کی تعداد میں اضافہ اور عملے کی سائل دوست تربیت کا اہتمام بھی لازمی ہے۔
مذکورہ چیدہ چیدہ مسائل کے علاوہ بے شمار مسائل حل طلب ہیں مگر ان تمام کے حل لئے مضبوط قوت ارادی کے علاوہ وسائل کی بھی ضرورت ہے جو کہ وفاق، بین الاقوامی ڈونر اداروں کے علاوہ مقامی وسائل سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ جس کے لئے ماہرین کی مدد سے پالیسی بنائی جا سکتی ہے۔ حکومتی امور چلانے کے لئے صرف سیاسی ٹیم کافی نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے مختلف امور کے ماہرین کی مدد لینا لازمی ہوتا ہے اس لئے گلگت بلتستان کے وہ باسی جو مختلف شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں ان کے علاوہ اندرون ملک اور بیرون ملک سے ماہرین کو مدعو کر کے ان سے رائے لینا بہت سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔
امید ہے مسلم لیگ (ن) کی آنے والی جی بی کی حکومت اپنا وقت پی پی پی کی سابق حکومت کی طرح ضائع نہیں کرے گی۔