کالمز

نذیر صابر اور علی سدپارہ ، ہم شرمندہ ہیں

تحریر۔ اسرارالدین اسرار

محمد علی سدپارہ جب کے ٹو کی مہم جوئی کے لئے نکلے تھے تو سوائے چند ایک کے باقی لوگ ان کو جانتے تک نہیں تھے بلکہ ان کی اس مہم جوئی کو ایک فضول اور غیر ضروری سرگرمی سمجھ رہے تھے۔ آج علی سدپارہ کئ روز سے کے ٹو کی بلند چوٹی پر لاپتہ ہیں تو وہ ہر کسی کے ہیرو ہیں۔ بلکہ ان کی محبت میں کچھ لوگ اتنے جنون کا شکار ہیں کہ ان کی مہم جوئی پر تبصرہ کرنے والوں پر بھی لعنتیں بھیج رہے ہیں۔

یہ لعنتیں بھیجنے والے لوگ نہ تو کوہ پیمائی کی ابجد سے واقف ہیں نہ ہی ان کو اس ضمن میں کوئی عقلی و تیکنکی بات سمجھنے کا شوق ہے۔ ان میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہے جو کل تک یہ کہتے رہے ہیں کہ آخر اس ٹھنڈ میں کے ٹو پر جانے کا کیا فائدہ ؟ علی سدپارہ و دیگر کو مفت میں اپنی جانوں کے ساتھ کھیلنے سے کیا ملتا ہے؟

یہ الگ بات ہے کہ کوہ پیمائی سے دنیا کے کئ ممالک اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کماتے ہیں مگر اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس خطرناک کھیل میں حصہ لینے والے بہادر لوگوں کو دنیا واقعی ہیرہ کا درجہ دیتی ہے۔

دیگر کھیلوں کی طرح کوہ پیمائی ایک کھیل ہونے کے علاوہ ایک مکمل مضمون ہے۔ جو لوگ عمران خان کو آج تک کرکٹ کی دنیا کا ہیرو سمجھتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ کرکٹ پر ان کی کہی ہوئی بات دنیا بھر میں تسلیم کی جاتی ہے کیونکہ عمران خان کرکٹ کے نہ صرف بہترین کھلاڈی رہے ہیں بلکہ وہ اس مضمون کے استاد بھی ہیں۔ آج اگر کوئی آفریدی کو کرکٹ کا ہیرو سمجھ کر کرکٹ پرتبصرہ کرنے والے عمران خان پر لعنت بھیجھے گا تو کرکٹ کے مضمون کو سمجھنے والے اس کو پاگل سمجھیں گے۔

بلکل اسی طرح کا معاملہ نذیر صابر اور محمد علی سد پارہ کا بھی ہے۔ کل سے درجنوں لوگ نذیر صابرکو ان کے ایک تبصرہ پر برا بھلا کہتے ہوئے ساتھ پوچھتے بھی ہیں کہ یہ نذیر صابر کون ہیں۔ جو علی سد پارہ کو آج ان کی گمشدگی کے بعد ہیرو کہتے ہیں وہ صحیح معنوں میں نہ تو علی سدپارہ کو جانتے ہیں اور نہ ہی نذیر صابر کو جانتے ہیں۔ اصولا ایسے لوگوں کو کوہ پیمائی کے موضوع پر خاموش رہنا چاہیے لیکن اس بیماری کا کیا کیا جائے جو یہاں پوری قوم کو لاحق ہے۔ ہر شخص ہر موضوع کا سقراط ہے۔ اس لئے یہاں کسی شعبے میں ماہرین پیدا نہیں ہوتے ہیں۔ جو ماہرین پیدا ہوتے ہیں ان کو جہالت کی بھینٹ چڑھا کر ان کا حشر نشر کیا جاتا ہے۔ جو جس کا مضمون نہیں ہے وہ اسی پر تبصرہ کے لئے کود پڑتاہے۔ ایسے معاشرہ میں ماہرین نہیں جہلا پیدا ہوتے ہیں جو معاشرے کا ستیاناس کرکے رکھ دیتے ہیں۔

مجھ بھی ہائکنگ کا شوق ہے۔ لیکن میں کوہ پیمائی کی الف ب سے واقف نہیں ہوں۔ علی سد پارہ کے واقعے کے بعد مجھے نذیر صابر ، ساجد سدپارہ، مرزا علی بیگ اور دیگر ماہر کوہ پیماوں کی رائے کا انتظار تھا۔ ان کی رائے سننے اور پڑھنے کے بعد مجھے سمجھ آیا کہ علی سد پارہ اور ساتھیوں کے ساتھ کے ٹو کی چوٹی پر اصل کیا واقعہ پیش آیا ہوگا۔

نذیر صابر اور علی سد پارہ دونوں کوہ پیمائی کے کھیل کے ہیرہ ہیں۔ ہمیں ان کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے اپنی تعصبانہ اور گندی ذہنیت کا اظہار کرنے کی بجائے دنیا سے عقل سیکھنے کی ضرورت ہے۔ دنیا ہمارے ان دونوں سپوتوں کو ہیرو کہتی ہے۔ نذیر صابر ہیرہ ہونے کے ساتھ علی سد پارہ سمیت ہزاروں کوہ پیماوں کے پیشرو، استاد اور ساتھی بھی ہیں۔ نذیر صابر کو دنیا اس پہلے پاکستانی کے طور پر جانتی ہے جس نے ماونٹ ایورسٹ پر پاکستان کا جھنڈا لہرایا تھا۔ کوہ پیمائی کی دنیا کی بہتری درسگاہوں میں وہ آج بھی لیکچرز دیتے ہیں۔ دنیا کے نامور ماہرین کوہ پیماء ان کے زیر تربیت رہے ہیں۔ نذیر صابر دنیا کے ماہر ترین کوہ پیماوں میں سے ایک ہیں۔ آج بھی علی سد پارہ واپس آجائے تو مجھے یقین ہے وہ نذیر صابر کو سلام کہنے ان کے گھر ضرور جائیں گے۔ ان دونوں کی رفاقت بہت پرانی ہیں۔ وہ دونوں کوہ پیمائی کے میدان کے شہسوار رہے ہیں۔ کوہ پیمائی میں جس نے جو اعزاز حاصل کیا ہے وہ اس کے ساتھ رہتا ہے۔ نذیر صابر کا اپنا اعزاز ہے جو اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ آج کے ہمارے ہیرو علی سد پارہ کا اپنا اعزاز ہے جس کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں چھین سکتی۔

نزیر صابر کی ماہرانہ گفتگو میں جس بات پر اعتراض کیا گیا تھا وہ میرے حساب سے علی سدپارہ کو کم دکھانے کے لئے نہیں تھی بلکہ ان کی ہیروشپ کو مزید بلند کرنے کے لئے تھی۔ پورے سیاق و سباق میں دیکھا جائے تو نذیر صابر نے علی سدپارہ سمیت کوہ پیمائی سے منسلک اپنے ساتھیوں کی اس مشکل کا ذکر کیا تھا جس کا خود انہوں نے بھی اپنی کوہ پیمائی کی مہمات کے دوران سامنا کیا تھا۔ نذیر صابر بھی ہنزہ کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک عام محنت کش تھے وہ بھی اپنی محنت اور لگن سے آگے گیا ہے۔ انہوں نے بجا طور پر کہا تھا کہ علی سد پارہ کی مالی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ علی سدپارہ کو اس مہم میں بھی ان کے ایک غیر ملکی ساتھی جان سنوری نے مدد فراہم کی تھی جو کہ ان کے ساتھ اس مہم کے دوران تاحال لاپتہ ہیں۔ نذیر صابر کا یہ گلہ بھی بجا تھا کہ علی سدپارہ کو ہماری حکومت اور چاہنے والوں سے کوئی سپورٹ نہیں ملی تھی۔ اس کے باجود علی سدپارہ نے جو کارنامہ سرانجام دیا ہے وہ رہتی دنیا یاد رکھے گی۔

ہمارے عقل کے اندھوں کو نذیر صابر کی اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ہندوستان اور نیپال سمیت دنیا کے تمام ممالک میں کوہ پیمائی کی تربیت کے متعدد سکول موجود ہیں۔ وہاں ہزاروں لوگوں کو کوہ پیمائی کی تربیت دی جاتی ہے اور اسی سبب دنیا بھر میں لاکھوں لوگ آج اس کھیل سے منسلک ہیں اور اربوں ڈالر ان ممالک کو زرمبادلہ ملتا ہے۔ دنیا کی دس اونچی چوٹیوں میں سے زیادہ تر گلگت بلتستان میں واقع ہیں ۔ اس کے باوجود یہاں کے لوگ کوہ پیمائی کی اہمیت سے نابلد ہیں۔ آج بھی یہاں کے لوگ پوچھتے ہیں کہ علی سد پارہ جیسے لوگ پہاڈوں پر کیوں جاتے ہیں؟

نذیر صابر سے دنیاء فائدہ اٹھاتی ہے ہم ان کی ایک بات کو پکڑ کر ان پر لعنتیں بیجھ رہے ہیں۔ ہم نذیر صابر اور علی سد پارہ کو ایک دوسرے کا دشمن ثابت کرنے پر تلے ہیں۔ حالانکہ ان دونوں کی رفاقت دوستوں ، بھائیوں اور عزیزوں کی طرح ہے۔ وہ دونوں ایک ٹیم کے دو کھلاڈیوں کی طرح ہیں۔ ہمیں شرم ہوتی تو یہاں کوہ پیمائی کے تربیتی مراکز قائم کر کے نذیر صابر ، علی سد پارہ، ثمینہ بیگ ، ساجد سدپارہ، مرزا علی بیگ سمیت اپنے دیگر کوہ پیماوں کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر یہاں کے ہزاروں نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرتے اور اس کھیل کے زریعہ اربوں روپیے کا زرمبادلہ کماتے۔

ہم میں سے کسی کو بھی علی سد پارہ کے کام اور کارناموں کا آج سے پہلے کھبی علم نہیں تھا اور نہ ہی ان کی مشکلات کا اندزہ تھا۔ گویا سب کو علی سدپارہ کی گمشدگی کا انتظار تھا۔ آج وہ گم گئے اور ہم نے ان کو ہیرو بنادیا ۔ نذیر صابر زندہ ہیں اس لئے ان کو ہم ہیرو ماننے کے لئے تیار نہیں ۔

ہمیں تو بس نفرتیں پھیلانا آتا ہے۔ ہم لاکھوں اچھائیوں میں سے ایک برائی کو ڈھونڈ نکالتے اور اسی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ ہم نفرتوں، کدورتوں اور تنازعات کے بیوپاری ہیں۔ ہمیں محبت، امن، ترقی اور خوشحالی ، صلح جوئی اور بھائی چارگی پھیلانا نہیں آتا۔ ہمارا مرنے والوں سے محبت کا اظہار ریاکاری پر مبنی ہوتا ہے۔ ہم دراصل انسانیت کے دشمن ہیں۔ ہم زندہ انسانوں سے نفرت کرتے اور مرنے والوں سے جھوٹی ہمدردی کرتے ہیں۔

نذیر صابر اور علی سد پارہ اپنے شعبہ کے کل بھی ہیرو تھے اور آج بھی ہیرو ہیں۔ ان دونوں کو ہیرو بنانے میں ہمارا کوئی رول نہیں ہے۔ وہ دونوں اپنی محنت سے ہیرو بنے اور ہیرو رہیں گے۔ فیسبکیوں کو نہ کل کسی ہیرو کی پہچان تھی اور نہ آج کسی ہیرو کی پہچان ہے۔

نذیر صابر اور علی سدپارہ ہم آپ دونوں کے سامنے شرمندہ ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button