چترالکالمز

چترال میں بلدیاتی کیچڑی

دو سال کی طویل اور صبر آزما ء انتظار کے بعد بالآخر خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت صوبے بھر میں مقامی Karimحکومتوں کے انتخابات منعقد کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔کسی بھی معاشرے کی ترقی اور پسماندگی کے خاتمے کا دارومدار اختیارات کی زیادہ سے زیادہ نچلی سطح پرمنتقلی پر ہے۔ جس معاشرے میں مقامی حکومتوں کا نظام موجودنہ ہوان معاشروں میں ترقی ایک خواب بن کر رہ جاتی ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ پاکستان میں گزشتہ 68برسوں کے دوران اکثر اوقات سیاسی نظام کو پٹڑی سے اتارا گیا، جمہوری سیاسی نظام کو ڈی ریل کرنے کی وجہ سے نہ تو عوام میں سیاسی شعور بیدار ہوااور نہ ہی نظام مستحکم ہوگئی جس کی وجہ سے کرپشن،اقراباپروری اور دوست نوازی اپنے عروج کو پہنچی۔ جبکہ ملک روز بروز تباہی کی دلدل میں دھنستے گئے۔

پاکستان کی چھ دہائیوں پر محیط تاریخ میں کسی بھی سول جمہوری حکمران نے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی اور مقامی حکومتوں کے انتخابات کے انعقاد کرنے کی کوشش نہیں کی البتہ فوجی آمروں نے اپنی ناجائز حکومتوں کو طول دینے کے لئے مختلف ناموں سے بلدیاتی انتخابات کا ڈھونک رچاتے رہے۔ لیکن اختیارات کی منتقلی اور اپنے لائے ہوئے نظاموں کو مستحکم بنا نے کی جانب کبھی بھی توجہ نہیں دی بلکہ ان اداروں اور اپنے منتخب کردہ نام نہاد عوامی نمائندوں کے ذریعے اپنے مفادات کی حفاظت کرتی رہی۔

مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے جمہوریت مستحکم ہونے کی بجائے مزید تنزلی کا شکار ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کا تعلیم یافتہ طبقہ آج فوجی بیرکوں کو نجات کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ پاکستان میں ایوبی آمریت کی کوکھ سے بنیادی جمہوریت کا نظام ، ضیاالحق کی آمریت نے ضلع کونسل جبکہ مشرف نے یونین کونسل کا نظام متعارف کیا۔2013کے عام انتخابات کے بعد اعلیٰ عدالتوں اور میڈیا کی دباومیں آکر جمہوری حکومتوں نے بھی نہ چاہتے ہوئے اپنے صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔

اس سلسلے میں شورش زدہ بلوچستان نے سب سے پہلے اپنے صوبے میں مقامی حکومتوں کا انتخاب عمل میں لایا۔ اس عمل کو سیاسی مبصرین معجزے سے تعبیر کررہے ہیں لیکن ان انتخابات کی شفافیت اور عوام کی مرضی کی نمائندگی کے حوالے سے بہت سارے سوالات اٹھ رہے ہیں ۔ کیونکہ ان انتخابات میں ٹرن آوٹ انتہائی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر رہی۔ اسکے بعد پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے بھی خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی الیکشن کرنے کا فیصلہ کیا۔ تیس مئی کو صوبے بھر میں انتخابات منعقد ہوگئے جو کہ دس سال کے بعد صوبے میں ہونے والی مقامی حکومتوں کا انتخاب تھا۔ آخری مرتبہ سن 2005ء میں خیبر پختونخواہ سمیت پورے ملک میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہواتھا البتہ حالیہ انتخابات کے برعکس مشرف دور کے بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر عمل میں آئی تھی۔

پی ٹی آئی نے صوبے میں حکومت سنبھالنے کے بعد ایک نئے طرز سے مقامی حکومتوں کا نظام رائج کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے صوبے میں لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2013 ء کے نام سے ایک قانون اسمبلی سے منظور کیاتھا جس میں اختیارات کو مکمل طورپر نچلی سطح میں منتقلی کا فیصلہ ہوا۔ اس قانون کے مطابق صوبے کے دور دراز پسماندہ علاقوں میں دیہی کونسل ،جبکہ شہری علاقوں میں نیبر ہوڈ یعنی پڑوس کونسل جیسے اداروں کا قیام عمل میں آیا جس کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد ہوئے جبکہ اسکے علاوہ تحصیل کونسل اور ڈسٹرکٹ کونسل جیسے ادارے بھی وجود میں آئے ان کے ممبران کا انتخاب جماعتی بنیادوں پر عمل میں آیا۔

حالیہ تیس مئی کو منعقد ہونے والے انتخابات میں صوبے بھر سے 83ہزار افراد نے حصہ لیا جو کہ پاکستان کی انتخابی تاریخ کا سب سے بڑا الیکشن تھا ۔بلدیاتی انتخابات کے بعد صوبے بھر سے ہارنے والی امیدواروں اور سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کاالزام عائد کرکے تنائج کو مسترد کرتے ہوئے احتجاجی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

صوبے کے دور افتادہ پہاڑی ضلع چترال کے 24وارڈز کے انتخابات کے بعد اب حکومت سازی کا عمل جاری ہے۔ ضلع کے انتخابی نتائج پر نگاہ ڈالی جائے تو ایک ڈسٹرکٹ کونسل اور دوتحصیل کونسلوں میں بالکل غیر یقینی نتائج سامنے آچکے ہیں۔ چونکہ حالیہ انتخابات کے لئے دو سال قبل قانون سازی ہوچکی تھی لیکن بدقسمتی سے ا س بل کے اسمبلی سے پاس ہونے کے دوسال بعدتک نہ تو کسی سیاسی جماعت نے اس پر غور کرنے اور عوام کو اس نظام سے متعارف کرانے کی کوشش کی اور نہ ہی اراکین اسمبلی اور سرکاری وغیر سرکاری اداروں کی جانب سے موجودہ نظام کے بارے میں عوام کو شعور دیاگیا۔ عوام بلکہ تعلیم یافتہ طبقات اور بہت سارے جیتنے والے امیدواروں کو بھی اس بات کا علم نہیں کہ بالآخر موجودہ بلدیاتی نظام ہے کیااور ڈسٹرکٹ کونسل ،تحصیل اور دیہی کونسل کس طرح کام کرتے ہیں۔

جیتنے والے ارکین کی ذمہ داری کیا ہے؟سیاسی جماعتوں ،اراکین اسمبلی اور سرکاری ونیم سرکاری تنظیموں کی اس غیر سنجیدہ روئے اور ہوم ورک کے بغیر الیکشن میں کودنے کی وجہ سے عوام کی اکثریت کو موجودہ سسٹم کو سمجھنے میں دقت کا سامنا کرناپڑا جسکی وجہ سے 30مئی کے بلدیاتی انتخابات کے بعد ضلع اور تحصیل لیول میں میکسچر تیارہوچکا ہے۔

اگرچہ انتخابات سے قبل ایکدوسرے کے سایوں سے بھاگنے والی دو مذہبی جماعتیں یعنی جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے غیر متوقع طورپر انتخابی اتحاد قائم کیاجو کہ انتہائی نامساعد حالات کے باوجو دآخری وقت تک برقرار رہی جس کے نتیجے میں ضلع کونسل کے چوبیس میں سے بارہ نشستیں اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ شروع میں اس اتحاد کو کاونٹر کرنے کے لئے ضلع بھر کے سیکولر سیاسی جماعتیں یعنی پیپلز پارٹی ،پاکستان تحریکِ انصاف اور آل پاکستان مسلم لیگ نے بھی ملکر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیاتھا لیکن بعد میں اس اتحادکو برقرار رکھنے میں ناکامی ہوئی اور یوں دائیں بازو کے ووٹر متحد ہوگئے جبکہ بائیں بازوکے جماعتوں کا انتشارنے مذہبی طبقات کی بالادستی کو یقینی بنایا۔

انتخابی نتائج کے مطابق جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام چھ چھ نشستوں کے ساتھ سرفہرست جبکہ پاکستان تحر یک انصاف پانچ،پاکستان پیپلز پارٹی تین ،آل پاکستان مسلم لیگ دو،جبکہ دو آزاد امیداوار میدان مارنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ضلع کونسل میں کسی بھی سیاسی جماعت کو واضح برتری نہ ملی سب ڈویژن مستوج کی تحصیل کونسل بھی دلدل بن گئی، جمعیت علمائے اسلام دس میں سے تین ،پاکستان تحریکِ انصاف اور آل پاکستان مسلم لیگ دو دو،پاکستان پیپلز پارٹی ایک جبکہ دوآزاد امیدوار کامیاب ہوگئے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں ضلع کونسل اوردونوں تحصیل کونسلوں میں بلدیاتی کیچڑ ی تیار ہو چکی ہے ۔ اب آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ ان حالات میں دو یا دو سے زائد جماعتوں کے اتحادی حکومت بننے سے اس پسماندہ ضلع کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟ البتہ بیشتر وارڈز میں عوام نےہوش کے بجائے جو ش کے سہارے ایسے امیدواروں کو ووٹ دیا جن کی قیادت میں ترقی صرف سہانے خواب سے بڑھ کر اور کچھ نظر نہیں آتا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button