بیشو اسپرو اور پھین دیک کا تہوار
پاکستان کے شمال میں ہندوکش اور ہندوراج کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع چترال جہاں اپنی تاریخ کے حوالے سے ممتاز مقام کے حامل ہے وہیں اس ماڈریٹ قبائلی معاشرے میں برسوں پرانی روایات پوری آب وتاب سے اب بھی زندہ ہے۔ ثقافتی دولت سے مالامال اس خطے میں کیلاش جیسی قدیم ترین تہذیب اپنے وجود کو نہ صرف منوانے میں کامیاب رہی بلکہ مقامی آبادی کی بڑی اکثریت کیلاش برادری کے ساتھ ملکر ان کے تہواروں میں شامل ہوکر معاشرے میں موجود ہم آہنگی اور رواداری کو فروع دینے میں پیش پیش نظرآتی ہیں۔
دیکھاجائے تو چترال میں نہ صرف کیلاش تہذیب اپنی موسیقیت سے بھرپور ہونے کی وجہ سے منفرد مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں بلکہ چترال کے مسلمان آبادی میں بھی قدیم رسوم ورواج کو جدید زمانے میں ڈھال کر زندہ رکھنے کی تجسس نظر آتی ہے۔ جبکہ ملک بھر میں جاری ثقافتی گھٹن کے باوجوداس خطے کے باسیوں نے اپنی ثقافتی روایات کو زندہ رکھ کر جدید زمانے سے ہم آہنگ مہذب معاشرے کے قیام میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔ ملک کے دوسرے حصوں میں موجود دہشت کی فضا کے باوجود چترال کے لوگوں نے اپنے خون میں موجود موسیقی سے لگاوکو زندہ رکھ کر اپنے معاشروں کو منافرت ،نفرت اور عدم برداشت سے بچائے ہوئے ہیں۔ یہیں وجہ ہے کہ ایک طرف ان خطوں سے ملحق افعانستان اور پاکستان کے قبائلی اور نیم قبائلی معاشرے خوف ودہشتگردی اور کلاشنکوف کلچر کی وجہ سے انسانی خون سے سیراب ہورہے ہیں تو ہندوکش اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان رہائش پذیر لوگ اپنی امن پسندی ،علم دوستی اور موسیقی سے شغف کی وجہ سے دنیا میں بلند مقام حاصل کرچکے ہیں ۔علاقے کے سماجی زندگی کے مطالعے سے یہ بات عیان ہوجاتی ہے کہ سال کے بارہ مہینے اس معاشرے میں تہواروں کی بھرمار ، رقص وموسیقی اور سرور کی محفلیں جمی رہتی ہے ۔ موسم بہار کی آمد نوروز سے ہوتی ہے تو موسم سرما کو خوش آمدید کہنے کے لئے بھی مختلف علاقوں میں مختلف تہواروں کا رواج اس ٹیکنالوجیکل دور میں بھی جاری ہے ۔
جشنِ نوروز:
چترال ،گلگت بلتستان سمیت پوری دنیا میں ہر سال 21مارچ کو جشن نوروز مناکر نئے سال کا آغاز کیا جاتاہے ۔نوروز یعنی نیا دن کی شروعات جدید تحقیق کے مطابق آج سے تین ہزار برس قبل فارس سے ہوا اور مختلف مدارج طے کرتے ہوئے آج بین الاقوامی شہرت اختیار کرچکی ہے ۔چترال اور گلگت بلتستان کے لوگ بھی سال کا آغاز جشن نوروز سے کرتے ہیں۔ اسی مناسبت سے مختلف پروگرامات منعقد کئے جاتے ہیں۔ کسان اسی روز کھیت میں جاکر کام کا آغاز کرتے ہیں۔ نوروز سے قبل کام کرنے کو بدشگونی خیال کیاجاتاہے ۔تاریخ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گلگت بلتستان اور چترال کے شاہی حکمران زمانہ قدیم میں نوروز کو سرکاری تہوار کے طورپر مناتے تھے۔
اس دن پولو گراونڈ میں پولو کا میچ منعقد ہوجاتا اور حکمران خود میچ دیکھنے کے لئے گرائونڈ میں تشریف لے جاتے۔ رات کو خصوصی کھانوں کا بندوبست کیاجاتا اور اسکے بعد موسیقی کی محفل جم جاتی ۔بہار کے آمد کی خوشی میں چھوٹے بڑے سب ناچتے گاتے، ایسی حالات میں نہ کسی کا ایمان خطا ہوتا اور نہ ہی مذہب خطرے میں پڑ جاتی۔ معاشرے میں امن وبھائی چارگی کا دور دورہ تھا ۔مذہبی منافرت ،عدم برداشت یا مخالفین کے خلاف کسی قسم کا فتویٰ سامنے نہیں آتے ہر ایک مکاتب فکر کے لوگ اپنے نظریات پر کامل ایمان رکھتے البتہ مخالفین کے خلاف جہاد ابھی تک واجب نہیں ہواتھا۔ہر طرف امن وامان کی فضا قایم تھی ہاں آج کی طرح اس دور میں بھی موسیقی کا راج تھا لیکن آج کے بغیر پئے مدہوش نوجوانوں کے برعکس اس دور میں علاقے کے لوگ ہوش میں پرجوش تھے جبکہ اس دور میں بھی اچھے فنکاروگلوکاروں اور ناچنے والوں کااحترام کیا جاتاتھا۔
جشنِ پھین دیک:
چترال اورشائد غالباََ گلگت بلتستان کا دوسرا تہوار پھین دیک کا ہوتا ہے بنیادی طورپر علاقے میں موجود چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں جسے مقامی زبان میں بیشو کہاجاتاہے میں جب پھول اگ آتی ہے تو اسکے ساتھ ہی علاقے کے لوگ پھین دیک کا تہوار مناتی ہے۔ مئی کے آخر یا جون کے پہلے ہفتے میں یہ تہوار منایاجاتاہے۔ بنیادی طورپر جب پہاڑی چراگاہوں میں سبزیاں اگ کر علاقہ مکمل سرسبز ہوتا ہے تو کسی مخصوص دن عموماََ اتواریا بدھ کے روزپھین دیک کا تہوار منایاجاتاہے ۔اس تہوا ر کے انعقاد سے ایک ہفتہ قبل گاوں کے معتبران اعلان کرتے ہیں کہ اگلے ہفتے پھین دیک کا تہوار منایاجائے گا لہٰذا اس کے لئے تیاری کی جائے۔ اس کے ساتھ دود ھ کو اسٹور کیا جاتا ہے تاکہ پھین دیک کے لئے لسی تیارکیا جاسکے۔ اس لسی سے حاصل ہونے والی مکھن کو ایک روایتی کھانا’ سناباچی‘ کی تیاری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ لسی کو ابھال کر اس سے ایک اور آیٹم ’شپھینک‘ تیار کیا جاتاہے جو کہ ’سناباچی‘ سے ملا کر کھایا جاتا ہے۔
کہوار زبان میں اس خوراک کے لئے ’چشٹ‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ۔ ’سناباچی‘ چترال کی سب سے قیمتی خوراک ہے ،’پھین دیک‘ کے پہلے شام مویشی خانے کے چھت میں’ بیشو‘ سمیت کئی سرسبز درختوں میں سے شاخ توڑ کر ان کا گچھا بنا تے ہیں جسے ’پھورپ‘ کہتے ہیں ۔’پھورپ‘ دراصل مویشی خانے سے ملحق ایک بغیر چھت کے مکان کو کہتے ہیں۔ اسی مکان کے دیوار میں یہی ’پھین دیک‘ کا’ پھورپ‘بنایا جاتا ہے ۔ اگلے روز اہل خانہ صبح سویرے اُٹھ کر نماز پڑھنے کے بعد’ پھین دیک‘ کی تیاریوں میں مشغول ہوتے ہیں ۔سارے جانوروں کے سینگ میں گھی کی مالش کی جاتی ہے جسے’ چارو‘ کہاجاتا ہے۔ اسکے بعد جونہی روشنی صاف ہونے کے بعد سورج کی شعاعیں پہاڑوں میں نمودار ہوتی ہے تو سب سے پہلے بکریوں کو لیکر بوڑھےو بچے پہاڑوں میں لے جاتے ہیں ۔جس کے ساتھ اس’ سناباچی‘ کو بھی برتن میں ڈال کر پہاڑی کے عین شروع کے مقام میں لے جاکر بکریوں کو اوپر پہاڑی کے لئے روانہ کیاجاتا ہے۔ جبکہ وہاں ایک اور رسم’ اشٹاریک ‘منانے کے بعد اس خوراک کو سب ملکر کھاتے ہیں۔ جو بچ جائے ان کو آپس میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
یاد رہے صبح بکریوں کو مویشی خانے سے روانہ کرتے وقت لسی کو ابالتے وقت اس سے جو پانی الگ ہوتے ہیں ان کو برتن میں ڈال کر کسی درخت کے پتوں سے ان کے چھینٹے ان جانوروں پر ڈالتے ہیں جسے’ چھراش‘ کہاجاتا ہے ،مقامی روایات میں اس کے بغیر بکریوں اور دوسرے مویشیوں کو باہر لے جانا بد شگون تصور ہوتاہے ۔زمانہ قدیم میں چونکہ علاقے میں تعلیم کا رواج نہیں تھا اسلئے لڑکے اور لڑکیا ں عموماََ مال مویشیوں کی حفاظت پر معمور ہوتے ہیں،’ پھین دیک ‘کے روز ان کے لئے عید کا سماں ہوتاتھا۔ پہلے بکریوں کو پہاڑی میں لے جاتے ہوئے ’سناباچی‘ کے خوب مزے لیتے تھے پھر دوپہر کے وقت بھیڑوں کو چراتے ہوئے کسی نہر میں کودتے تھے اور ایکدوسرے پر پانی پھینکتے تھے اس رسم کو’ اوغ جاڑ‘کہاجاتاہے۔
بیشو اسپرو:
چترال کے مختلف علاقوں میں موسم بہار کی آمد آہستہ آہستہ ہوتی ہے ۔’بیشو‘ایک خاص قسم کی جنگلی درخت ہے ۔مئی اور جون کے مہینے میں ان درختوں میں پھول اُگ آتے ہیں، اسکے ساتھ ہی پوری وادی ان درختوں کی زردپھولوں سے جنت کا منظر پیش کرتی ہے ۔ بیشو اسپرو کے ساتھ ہی چترال میں’ پھین دیک ‘کا تہوار منایاجاتاہے ۔جو کہ موسم بہار کے اختتام اور موسم گرما کے آمد کی نوید سناتاہے ۔’بیشو اسپرو‘کے اختتامی دنوں میں چترال میں ’شونجور اسپرو‘ کی آمد ہوتی ہے جسکی خوشبو تقریباََ ایک ماہ تک پوری وادی کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے ۔
دیکھا جائے تو ہزاروں برسوں پر محیط منفردتاریخی اور ثقافتی ورثوں کے حامل ضلع چترال اپنی قدیم روایات ،ثقافت وادب، تہواروں ،فطری حسن سے مالامال سیاحتی مقامات ،ندی نالوں ،بہتی دریائوں اور پرامن و موسیقیت سے محو لوگوں کی وجہ سے دنیا میں منفرد مقام کے حامل قبائلی خطہ ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ علم وادب اور موسیقیت پر مبنی اس معاشرے کو مزید امن کا گہوارہ بنا کر بیرونی سیاحوں کو اپنی جانب مدعوکرنے کے اقدامات اٹھایا جاہئے۔ اپنی ثقافت وادب ،تاریخی تہواروں اور روایات کا دوبارہ احیا ء ہی ہماری بقاء کی علامت ہے ۔جبکہ ان روایات کو دورِ جدید سے ہم آہنگ کرکے ہی ترقی کے مدارج طے کرسکتے ہیں۔ورنہ مادی ترقی اور ٹیکنالوجی سارے اقدار کو اپنے ساتھ بہا کے لے جاسکتی ہے جبکہ ہم اپنی روایات سے محروم ہوکر اپنی شماخت کھوسکتے ہیں۔