حالیہ الیکشن میں قوم، مذہب اورسلطنت
حالیہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے دوران گلگت بلتستان کے طول وعرض میں دلچسپ مناظر دیکھنے میں آئے۔ الیکشن کمپیئن کے دوران لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے امیدواروں نے طرح طرح کے مہارتیں استعمال کی جن میں قومیت‘ مذہب و مسلک‘ اور علاقائی تعاصب سب سے نمایاں تھیں۔ اگرچہ چندوفاقی سیاسی پارٹیوں نے اپنے انتخابی منشورکی تشہیر کی لیکن گاوں سطح پر لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے اہم طریقوں میں مذکورہ بالانکات ہی تھے۔ قارئین کرام یہ نئی بات نہیں۔ پوری دنیا کی تاریخ کے گم گشتہ اوراق میں یہی حربے کامیاب ثابت بھی ہوئے ہیں اور یہی قتل وغارت کا سبب بھی بنے ہیں۔ مادی ترقی جن میں تعلیم‘ صحت‘ سماجی ضروریات اورثقافتی و معاشی شعبے بھی اس مہم کے اہم ستون تھے لیکن ان پر اتنا زور نہیں دیا گیا جتناکہ ان تین چیزوں کی تشریح پر دیا گیا۔
یہاں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ آخر ایک چھوٹے سے خطے میں ان تین چیزوں کی گنجائش کیسے بنتی ہے؟ جبکہ ہمارے آباواجداد نے ان تین چیزوں کے نام سے ہی اس خطے کی آزادی حاصل کی ہے۔ انہوں نے اُس زمانے میں گلگت بلتستان کو انہی تین چیزوں کے نام پر حاصل کیا جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہاں اب قومیت‘ مذہب اور سلطنت ایک ہی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟اگر ایسا ہے تو اب اس خطے کی تعمیروترقی کیلئے نمایاں سیاسی‘ سماجی‘ معاشی‘ تعلیمی‘ صحتی‘ ثقافتی‘ اخلاقی ‘ مواصلاتی اورزرائع آمدرفت کے معاملات پر توجہ دینا چاہے تھا۔عبادت گاہوں‘ قبائلی تنظیموں اور علاقے کی تعصب نے ایک بار پھرسر اٹھاتے اٹھاتے دم توڈ دیا اور کچھ جگہوں پر استحکام پایا۔انتخابات کس نے جیتا اور کیوں جیتا یہ اس کالم کا موضوع نہیں بحث یہ ہے کہ آخرایک امت‘ ایک قوم اور ایک ملک کے رہنے والے کتنے ذیلی مسلکوں‘ قبائلوں اور علاقوں میں منقسم ہیں۔ اگرچہ ہمارا دین ہمیں بتا چکا ہے کہ’’ یہ قبائل اور قومیں شناخت کے لئے ہیں‘‘ اور’ سلطنت کو بلادالامین‘کہاگیاہے۔
مسئلہ ان نکات کی تشریح کا ہے کہ امت کے ذمہ دار لوگ ان نکات کی تشریح فراغ دلی سے کرتے ہیں یا تنگ ذہنی سی!عام آدمی اور عوام الناس انہی نعروں کی ذد میں اکر اپنے جذباتی رگ کو قابو نہیں کرپاتے ہے۔گلگت بلتستان کے مختلف ضلعوں میں مختلف مناظر دیکھنے میں آئے جہاں ایک ہی مسلک کے ہیں انہوں نے قومیت کی رگ دبائی جہاں مسلک الگ الگ ہے وہاں امیداروں نے مسلکی ہوا دی اور جہاں یہ حربہ بھی نہ چلا وہاں علاقیت کی گرم جوش نسبت کو سرعام کیا۔عوام کیا کریں کیا نہ کریں امیدوار اسمبلی میں آنے سے پہلے ہی ان کو تقسیم کرتے ہیں منتخب ہونے کے بعد کیا ہوگا؟
اس نکتے کے دوسرے رخ کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوا کہ عوام بھی منقسم تھی۔ نوجوانوں کی الگ سوچ دیکھنے میں آئی۔ بڑے اور بزرگ بھی ایک سوچ کے حامی نہیں نظر آئے۔ اس میدان میں خواتین بھی دنیا میں الگ تھلک نظر آئی کچھ علاقوں میں مردوں کے شانہ بشانہ تھی اور کچھ میں الگ تھلک۔ بحرحال معاشرے کے تمام طبقوں میں یگانگت اور یکجہتی نظر نہیں آئی۔ ان تمام باتوں کے پیش نظر جس امن اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا گیا وہ پورے پاکستان کے لئے قابل تقلید ہے۔ مختلف اختلافات کے باوجود خطے میں انتخابات کا عمل صاف‘ شفاف اور منصفانہ طور پر اختتام کو پہنچا۔
میڈیا میں گلگت بلتستان کی جنتی تعریف سامنے آئے وہ قابل تحسین ہے۔ میڈیا کے بڑے بڑے چینل گلگت بلتستان کو پر امن‘ تعلیم یافتہ اورباضمیر کے ساتھ ساتھ محب وطن دیکھا رہے تھے۔اس بات کے ہم سب قائل ہیں کہ یہاں کے لوگ محب وطن اور پرامن ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم مذہب ومسلک اور علاقے کے نام سے انتشار پھیلانے کے باوجود اپنے صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری نسل ان چیزوں سے نکل کر ملک کی تعمیر وترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔آج اگر ہم ان کے سامنے یہ چیزیں عام کرینگے تو کل یہی بچے انہی نعروں میں گم جائیں گے۔ ہمیں نئی نسل کو علاقے کی تعمیرو ترقی‘ سماجی و معاشی استحکام اور تعلیم کی اہمیت پر زور دینا چاہے تاکہ وہ پورے گلگت بلتستان کو اپنا علاقہ‘ دین اسلام کو اپنا دین اورگلگت بلتستان ہی کو اپنی قومیت سمجھے۔اگرچہ یہ بہت نازک اور مشکل موضوعات ہیں لیکن فراغ دلی ہی ان موضوعات کی دامن کو سمیٹ سکتی ہے۔ ادب میں قومیت سے مراد دین بھی ہے اور دنیاوی قبائل بھی ۔ سمجھنے کا نکتہ یہ ہے کہ سمجھانے والا جس نیت سے سمجھائے گا وہی اگلی نسل کی قومیت ہوگی۔ ویسے قومیت کو قبائلی اور نسلی درجہ دیا جائے تو ہمارے دیس میں سینکڑوں قبائل اورسینکڑوں نسل اور ذاتیں ہیں۔ کچھ گاوں میں درجن درجن مختلف نسلیں اور قومیں آباد ہیں۔ علاقائی لحاظ سے بھی ہم ایک نہیں لوگ مختلف علاقے سے آکر گلگت بلتستان میں آباد ہوئے ہیں۔ طبقات اور درجات کی بات کریں تو یہ ایک الگ درد سر ہے۔قدیمی اور مہاجریا پشتنی یا غیرمقامی کہے تو بھی سب ایک نہیں۔ بحرحال ذات پات‘ نسل‘ طبقات‘ قبائل‘ علاقہ اوررنگ و زبان پر اتریں تو گلگت بلتستان میں بھی گوناگونی اور تکثیریت ہے۔ ان تمام نچلی سوچوں سے نکل کر جدیدزمانے کی عینک لگادیں تو ایک ہی چیز نظر آئے گی اور وہ ہے گلگت بلتستان اور اسلام جو مل کرپاکستان میں رہنے کے ارزومند ہیں۔
اگرچہ کچھ آئینی مسائل درپیش ہیں جس کی وجہ سے نئی نسل تذبذب کا شکار بھی ہے کہ کیوں نہ ہم پاکستان کے پارلیمنٹ اور سینٹ میں نمائندگی حاصل کرسکتے ہیں؟ ہم اُن کے کچھ نہیں لگتے تو وہ ہمارے کیا لگتے ہیں؟ اگر وہ ہمارے کچھ لگتے ہیں تو ہمیں اپنے صفوں میں جگہ کیوں نہیں دیتے ہیں؟ یہی وہ سوالات ہیں جو نئی نسل کو اپنے مستقبل کے اُفق پر نظر آتے ہیں۔ اِن سوالات کا جواب ہی اگلے ادوار میں ایک قوم ایک مذہب اور ایک سلطنت کے نعرے کو دوام دے گا۔نئی حکومت سے ہم توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں ایک ہی شناخت دیں وہ شناخت ہے پاکستانیت۔ یہی وہ عنصر ہوسکتی ہے جو ہماری تانباک اور خوشحال مستقبل کی ضمانت ہوگی۔
سیاسی پارٹیوں کو بھی اپنے منشورپر ضرور دینا چاہئے۔ جمہوریت میں منشور ہی ہمارا نعرہ اور وہی ہمارا نکتہ ہونا چاہئے بھلے کوئی بھی شخصیت کیوں نہ جیتے۔ ہمارا منشور صرف اور صرف علاقے کی تعمیر وترقی ہونا چاہئے جس سے روزگار ملے‘ تعلیم و صحت کے میدان خوشحال ہو۔ سڑکیں ‘ پل‘ عمارات اور میٹرو یا موٹروے بھی ہمارے تقدیر کا حصہ ہونا چاہئے۔ ان چیزوں پر زور دینے سے لوگوں کا ذہن بھی تعمیر وترقی پر ہوگا۔ مسلکی ناچاقیاں ختم ہونگی۔ ورنہ لوگ انپی بقا کو مسلک اور قومیت میں ڈھونڈنا شروع کرینگے جو انتشار کا سبب ہوگا۔
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کھٹن ہے قوموں کی زندگی میں