عبدالجبارناصر
گلگت بلتستان میں انتخابات کے بعد حکومت سازی کا عمل بھی مکمل ہوا ہے، صرف کابینہ کی تشکیل باقی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے سربراہ اور وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف نے پارٹی خدمات ، قربانی ،کارکردگی ،میریٹ اور عوامی خواہشات کو مدنظررکھتے ہوئے حافظ حفیظ الرحمن کو وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نامزد کیا،جنہیں 33رکنی ایوان نے 26جون کو بلامقابلہ قائد ایوان منتخب کیا اور اسی روز گورنر گلگت بلتستان برجیس طاہر نے نو منتخب وزیر اعلیٰ سے ان کے عہدے کا حلف لیا۔27
جون کو اسمبلی کے اجلاس میں نومنتخب وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن نے 31ارب 92کروڑ سے زائد کا صوبائی بجٹ پیش کیا جو 30جون کو ایوان نے کثرت رائے سے منظور کیا۔ اگرچہ بجٹ سازی کے عمل میں نو منتخب حکومت اور ایوان کا کوئی کردار نہیں تاہم مجموعی طور پر خطے کی صورتحال کو مدنظر رکھا جائے تو مناسب بجٹ قرار دیا جاسکتاہے۔ اس میں سابق نگرا ں وزیر اعلیٰ شیرجہان میر اور ان کے ساتھیوں کا یقینامثبت کردار ہے ،تاہم وفاقی حکومت سےمزید خصوصی گرانٹ کے لئے کوشش کی ضرورت ہے ۔
وزیر اعظم نوازشریف نے 26جون کونومنتخب وزیر اعلیٰ کی تقریب حلف برداری میں خصوصی طور پر شرکت کرنی تھی لیکن موسم کی خرابی کے باعث ایسا نہ کرسکے۔ اس کے بعد یکم جولائی کی تاریخ رکھی گئی تاہم کراچی میں مصروفیات کے باعث وزیر اعظم کا یہ دورہ ایک مرتبہ پھر ملتوی ہوا ۔دراصل اس وقت خطے کے عوام وزیر اعظم کے دورے کے شدید منتظر ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انتخابات سے قبل وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف نے خطے میں ترقیات اور نئے اضلاع کے قیام کے حوالے سے کئی اہم اعلانات کئے اور اب ان اعلانات پر عملدرآمد کا وقت آیاہے اور عوام کی خواہش ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف پارٹی کو خطے میں ملنے والے اس کامیابی، پاک چین اقتصادی راہداری اور گلگت بلتستان کی تاریخی اور جغرافیائی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے سابقہ اعلانات پر عمل در آمد اورمزید اقدامات کا اعلان کریں۔ خطے کے عوام نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے اور اب حکومت کے کورٹ میں بال ہے۔
گلگت بلتستان کی نومنتخب حکومت باالخصوص وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کی خواہش بھی یہی ہوگی کیونکہ عوام نے بھرپور انداز میں ان پر اعتمادکیاہے اور اگر وہ اعتماد پر پورا نہیں اترتے ہیں تو نہ صرف مسلم لیگ (ن) بلکہ خود حافظ حفیظ الرحمن کا سیاسی مستقبل بھی سوالیہ نشان بن جائے گا۔پاکستان کی تاریخ میں گلگت بلتستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آزاد کشمیرکے سابق صدر میر واعظ شیخ الحدیث مولانا یوسف کشمیری اور خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ شیخ الحدیث مفتی محمود کے بعدکسی عالم دین (حافظ حفیظ الرحمن) کوبطور وزیر اعلیٰ عوامی خدمت کے لئے منتخب کیاہے ۔اولذکر دونوں نے نہ صرف اپنی ذمہ داریاں پوری کیں بلکہ قوم کو بتادیا کہ علماء کو موقع دیا جائے تو وہ بہتر نظام حکومت چلا سکتے ہیں،آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا میں آج بھی ان کی مثالیں دی جاتیں ہیں ۔دونوں بزرگوں نے اپنا فرض احسن طریقے سے پورا کیا مگر جامعہ اشرفیہ لاہور کے فارغ تحصیل نوجوان عالم دین حافظ حفیظ الرحمان کاامتحان اب شروع ہوا ہے، امید ہے کہ اس کا ادراک موصوف کو بھی ہوگا ۔ انہیں اس امتحان میں پاس ہونے کیلئے اپنی کارکردگی دکھانے کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کے تعاون کی بھی ضرورت ہے اوریہ بھی ضروری ہے کہ کابینہ کی تشکیل میں تجربہ، اہلیت اور میرٹ کو مدنظر رکھاجائے،۔ خوشامدیوں کی بجائے اچھے مشیروں کا انتخاب کیا جائے ۔
اسی طرح گلگت بلتستان کونسل کے6ارکان کے انتخاب میں پارٹی کے لئے مشکل حالات اور ہمہ وقت قربانی دینے والے نصف درجن سے بھی کم رہنمائوں کو نظر انداز کیا گیا تو یہ پارٹی اور نظریاتی سیاست کے ساتھ ظلم ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) مناسب حکمت عملی اختیار کرے تو 5نشستیں جیت سکتی ہے ۔ مزید یہ کہ کونسل کے ایک ووٹ کے لئے 50سے 70لاکھ روپے کی بولی لگانے والوں کو عبرت کا نشان بنایا جائے جو لوگوں کے ضمیر کو خرید نے کے لئے گلگت کے ہوٹلوں میں بازار لگائے بیٹھے ہیں۔ ضمیر فروشوں اورسوداگروں کوروکنے کے لئے ہر قانونی راستہ اختیار کیا جائے اور منتخب عوامی نمائندوں کو بھی چاہئے کہ وہ ہارس ٹریڈنگ کی گندگی کا شکار ہونے کی بجائے زندہ ضمیری اورعوامی رائے کا احترام کریں ۔
حافظ حفیظ الرحمن کیلئے ضروری ہے کہ وہ پانچ سالہ مدت کے حوالے سے اپنی ترجیحات کا ابھی سے تعین کریں ۔ انہوں نے100دن کی ترجیحات کے حوالے سے دس رکنی کمیٹی قائم کرکے مثبت قدم اٹھایا ہے۔ اسی طرح انہیں ایک سے دو سالہ،دو سے تین سالہ،تین سے چار سالہ اورچار سے پانچ سالہ منصوبہ بندی بھی کرنی ہوگی۔ فی الوقت خطے کے چند اہم بحرانوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جن میں بدترین لوڈ شیڈنگ، سڑکوں کی تباہ حالی،امن وامان کا قیام اور فوری بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بینادی ایشوز ہیں۔ ان ایشوز کو 100دن کی ترجیحات میں شامل کرنے کے ساتھ طویل المدت ترجیحات میں شامل کرنا بھی ضروری ہے ۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے پڑوسی ملک چین سے فائدہ اٹھایا جاسکتاہے اسی طرح سولر انرجی کو وقتی حل کے طور پر استعمال کرنے کیلئے عوام کوترغیب دیناضروری ہے۔ خطے کے کئی علاقوں میں سولر انرجی کے ذریعے لوگ کسی حدتک اپنی ضروریات کو پورا کررہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات رواں برس اکتوبر تک یقینی بنائیں ۔
سب سے بینادی نقطہ امن وامان کا قیام ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں لوگوں کی معیشت سے سیاحت کا گہرا تعلق ہے لیکن گزشتہ ایک دھائی کی دہشت گردی اور بدامنی نے تقریباً اس شعبے کو تباہ کردیاہے ۔ بدامنی کی وجہ سے نہ صرف غیر ملکی بلکہ ملکی سیاحوں نے بھی رخ کرنا عملًا چھوڑ دیاہے اس کے لیے چند اقدام نہایت ضروری ہیں۔ پہلا یہ کہ انتخابی اور سیاسی تلخیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس حوالے سے حافظ حفیظ الرحمن اپنے سیاسی مخالفین بالخصوص سابق وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ،جسٹس (ر) جعفر شاہ اور اپنے قریبی عزیز جمیل احمد کے گھر جائیں اور تلخیوں کا خاتمہ کریں اور ان سے مشاورت کریں۔ تمام منتخب ارکان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے علاقوں میں اس طرح کا ماحول پیدا کریں کہ سیاسی اور انتخابی تلخیاں ختم ہوجائیں اور خطے میں ایک نئی روایت اور نئے دور کا آغاز ہو اگرچہ اس عمل کاآغازدوطرفہ انتخاب کے فوراً بعد ہونا چاہیے تھا لیکن سوائے مرحوم مرزا حسین کے کسی نے یہ اخلاقی جرات نہیں کی بلکہ 29جون کو گلگت شہر میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں میں تصادم نے مزید کشیدگی پیدا کردی ہے۔
دوسراعمل یہ کہ خطے میں مذہبی ہم آہنگی کیلئے وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن خود تمام مکاتب فکر کے مقتدر اور جید علماء اور رہنماوں سے نہ صرف رابطے کریں بلکہ ان کی مشاورت سے ماحول کو بہتر بنانے کیلئے ضروری اقدام کریں۔ اس ضمن میں سیاسی ومذہبی قیادت سے بھی تعاون حاصل کریں۔
خطے میں شعبہ تعلیم وصحت،شعبہ مواصلات اور تباہ حال سڑکوں کی بہتری پر خصوصی توجہ بھی دینے کی ضرور ت ہے ۔اس ضمن میں پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت کی ناکامیوں سے ہی کامیابیوں کی راہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ حافظ حفیظ الرحمن کیلئے حالات اس لئے بھی ساز گار ہیں کہ اپوزیشن کے تمام 11ارکان نے اعلان کیاہے کہ وہ اختلاف برائے اختلاف کے بجائے اختلاف برائے اصلاح کی راہ اختیار کریںگے، اس کی ابتداء انہوں نے قائد حزب اختلاف کے انتخاب سے خودکیا۔ جماعتی عدد کی بنیاد پر اسلامی تحریک کا قائد حزب اختلاف ہونا چاہیے تھا لیکن جمہوری اصولوں کے مطابق اپوزیشن ارکان نے کل کی اکثریت کے فیصلے کو مدنظر رکھا جودرست ہے۔ اپوزیشن جماعتوں میں اسلامی تحریک کے 4، مجلس وحدت مسلیمن کے3 ، پیپلزپارٹی ،تحریک انصاف ، جمعیت علماء اسلام اور بلاورستان نیشنل فرنٹ کا ایک ایک رکن ہے۔ مجلس وحدت مسلمین اور دیگر جماعتوں کے 7 ارکان نے قرعہ اندازی کے ذریعے جمعیت علماء اسلام کے حاجی شاہ بیگ کا انتخاب کیا (جو پرانے اور تجربہ کار پارلیمنٹرین ہیں)۔ تاہم اسلامی تحریک نے اس سے اختلاف کیاہے ،اسلامی تحریک کی اس معاملے میں ناکامی در اصل اس کی ناکام سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔اسلامی تحریک پاکستان نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تواب کونسل کی نشست بھی ان کے لئے خواب ثابت ہو سکتی ہے ،اس ضمن میں اسلامی تحریک کو روایتی سیاست سے ہٹ کر نوجوانوںکو موقع دینا ہوگا اسلامی تحریک پاکستان کے پاس غلام شہزاد آغا جیسے محترک نوجوان کونسل کے لئے بہتر ثابت ہوسکتا ہیں۔
گلگت بلتستان میں انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی کی تنظیم نو کے حوالے سے ابتدائی طور پر چند کوششیں کی گئی اور مختلف رہنماؤں نے نہ صرف امیدوار ہونے کا اعلان کیا بلکہ یہ دعویٰ بھی کیاکہ پارٹی کی صوبائی تنظیم توڑ دی گئی ہے،بیشتر رہنماء سابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اور صوبائی صدر سید مہدی شاہ پر پارٹی کی ناکامی کا الزام عائد کررہے ہیں۔ الزام کلی طور پر نہیں تو جزوی طور پر درست ہے تاہم جہاں تک سید مہدی شاہ کو عہدے سے ہٹائے جانے والی خبروں کا تعلق ہے اس کی تردید پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے سید مہدی شاہ کے والد کے انتقال پر لکھے گئے تعزیتی خط میں کی ہے جس میں سید مہدی شاہ کو سابق وزیر اعلیٰ اور پارٹی کے صوبائی صدر کے طور پر مخاطب کیاگیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے بیشتر حلقوں کا کہناہے کہ موجودہ بحران سے پارٹی کو جسٹس (ر)جعفر شاہ ہی نکال سکتے ہیں تاہم حالیہ انتخاب میں پارٹی کی ناکامی نے ان کو بھی سوالیہ نشان بنادیاہے اور امجد حسین ایڈوکیٹ صدارت کیلئے سرگرم امیدوار ہیں تاہم ان کے حالیہ متنازعہ بیانات ان کیلئے مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں بالخصوص خطے میں نسلی تعصب کو ہوادینے اور عوام کے منتخب نمائندوں کو جاہل اور نااہل قرار دینے جیسے بیانات انتہائی افسوسناک ہیں ۔اس وقت گلگت بلتستان میں جمعیت علماء اسلام بھی انتخابی ناکامی کے بعدمشکلات میں ہے اور جمعیت کے کئی اہم رہنماء انتخابی ناکامی کی ذمہ داری صوبائی قیادت بالخصوص صوبائی صدر مولانا سرورشاہ پر عائد کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ناکامی کا جائزہ لیں اور مستقبل کیلئے مثبت فیصلے کریں اور مسلم لیگ (ن ) اپنی کامیابی کو برقرار رکھنے کیلئے ایسی حکمت عملی طے کرے کہ پانچ سال بعد بھی عوام ووٹ دیں اسی میں بقاء ہے۔