بدلتی دنیا
محمد جاوید حیات
گھر میں شاہانہ ماحول تھا ۔ دولت کی ریل پیل نے زندگی کو شاہانہ نبا دیا تھا۔ گھر والے اپنی تسکین کے لئے ہر ذہن آئی ہوئی بات کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے ۔ اس کام اور کوشش میں وہ ہمیشہ پریشان رہتے ۔ اپنے مرتبے کا لحاظ رکھنے کے لئے سب سے مقابلے کے رجحان رکھتے اور اپنی بڑائی جتانے کی فکر میں رہتے ۔ شادی بیاہ کسی اورمہم وغیرہ میں سار ا گھر انہ معاشرے میں اپنی انفرادیت بر قرار رکھنے کی کوشش کرتا ۔ بچے بڑے بڑے اعلیٰ معیار کے سکولوں میں پڑھتے تھے ۔ ان کی اپنی دنیا ئیں آباد تھیں ایک دن ایک سکول میں ایک استادنے ایک کلاس میں بتایا کہ بچو! اگر تمہارے سامنے فخر موجود ات ؐ کی کسی سنت کو زندہ رکھنے کا موقع آئے تو ہر قیمت پر اس کو زندہ کر و ۔ قیامت کے دن سرخرو اٹھو گے ۔ سمرینہ کے دل بہ چوٹ لگی ۔ آ قا ؐ تیری سنت میں زندگی ہے‘‘ بات پھر بھولی بسری ہوگئی ۔ ماحول ماحول ہوتا ہے پھر شاید سمرینہ کے کسی استاذ نے یوں نہیں کہا ۔۔۔ سمرینہ کو انگریزی زبان سے بُہت دلچسپی تھی اور ادب سے خاص لگاؤ تھا ۔ اس نے ڈھیر ساری کتابیں پڑی ۔ امتحانات پاس کر تی گئی ۔ کامیابیاں لیتی گئی ۔ معاشرے میں مقام بنتا گیا ۔ خاندان میں توقیر بڑھتی گئی ۔ پڑھائی ختم کی ۔ پہلے ہی امتحان میں لکچر ر بن گئی ۔ جوانی دیوانی ہوتی ہے ۔ حد بڑا جذبہ تھا ہمت تھی شوق تھا ۔ کلاس میں جاتی تو موضوع میں کھو سی جاتی ۔ انہوں متعلقہ سب کچھ پڑھ لی تھی شعر ، نثر ، حوالہ جات، وقعات سب از بر تھے ۔۔۔شادی کا پیام آیا ۔ بچی ایک شادی کے دن شاید اپنا سب غرور کھو دیتی ہے ۔ اس کی ہمت جواب دے دیتی ہے ۔ وہ کسی سوال کا جواب نہیں دے سکتی کسی موضوع پربات نہیں کر سکتی ۔ کسی سے جرا ء ت سے آنکھ نہیں ملا سکتی ۔ وہ نئی زندگی کا خواب دیکھ رہی ہوتی ہے۔ مگر خواب بتا نہیں سکتی ۔ ایک شرین سی افسردگی ہوتی ہے ۔ جو اس کو دلہن بنانے میں کام آتی ہے۔ افسردگی معصومیت میں بدل جاتی ہے ۔ معصومیت تہذیب میں ، تہذیب شرافت میں بدل جاتی ہے اس لئے ’’نئی نویلی دلہن ‘‘ ایک ’’ٹرم ‘‘ ہے ۔ سمرینہ کی بارات پہنچی ۔ سمرینہ کی جی بھر کے ممکنہ ’’ میک اپ‘‘ کیا گیا تھا ۔ بھویں جنجر تھیں ۔ ہونٹ لال تھے ۔ گال سرخی مائل تھے ۔ سہرا، پازیب ، انگوٹھے سجے تھے۔ ناخن بڑے تھے ۔ ان کو پالش کیا گیا تھا ۔ سر کے بال دیکھائی دے رہے تھے ۔ کیونکہ مانگ میں سہرا چمک رہا تھا ۔ دلہن کو دلہا کے پاس لا کربیٹھا یا گیا ۔ وہ سمٹ کر بیٹھ گئی ۔ محفل میں سب موجودتھے ۔ ایک استادبھی تھا ۔ سفید لمبی داڑھی تھی ۔ ٹوپی سر پہ تھی ۔ کندھے پر رومال تھا۔ ہاتھ میں تسبیح تھی ۔ قہقہا بلند ہوا تو استاد تڑپ اٹھا ۔ کہا ۔دوستو! یہ ایسی محفل ہے جس سنت رسولؐ زندگی ہو رہی ہے یہ محفل مبارک ہے ۔ اس میں خدا کے رسولؐ کی ایک سنت کا اتباع ہو رہاہے ۔ اس محفل کی اہمیت تو سمجھو ۔ یہ سب کچھ سن کر سمرینہ چیخ اٹھی ۔ کھڑی ہو کر کہا کہ خدا کے لئے میرے نکاح میں ایک گھنٹہ تاخیر کرو ۔ صرف ایک گھنٹہ ۔۔۔۔وہ تڑپ کر کمرے سے نکل گئی ۔ اس کواس کا استاد بہت یاد آیا ۔ ’’اگر تمہارے سامنے خدا کے نبی ؐ کی کوئی سنت پر عمل کا مرحلہ آجائے تو اس کو زندہ کرو ‘‘ سمرینہ دوڑ کر اپنے کمرے میں آگئی ۔ پہلے ناخن کاٹی ۔ پھر چہرے سے میک اپ اتاری ۔ ہونٹ صاف کئے ۔ دوپٹہ پھنک کر موٹی چادر پہن لی ۔ اس دوران وہ چیخ چیخ کر روتی رہی کہتی رہی ۔ ’’میرے آقاؐ ! تیری سنت پر عمل کا مرحلہ آگیا ہے ‘‘ اس نے اپنے ابو کو اپنے کمرے میں بلا یا ۔ اور کہا ابو! آپ میرے ولی ہیں ۔ میں یہاں بیٹھوگی میرا حق مہر مقر ر کرو ۔ مگر ابو مہر جو قانون جنت ، کائنات کی شہز آدی ، فخر موجودات ؐ کی لخت جگر فاطمہ زہرؓ کی تھی ۔ اس کے ابو آنکھیں ڈبڈ با گئیں ۔ اور بیٹی کی پیشانی چوم کر کہا ۔۔۔ ’’بیٹا آج مجھے یقین ہو گیا کہ تم تعلیم یافتہ ہو‘‘