کالمز

گلگت سے کالا پل تک – حصہ دوئم

امیر جان حقانی 

وزیر اقبال کا افسانوی گھر اور دھڑم خیل قبیلہ

وزیراقبال استور گوریکوٹ کے ہیں مگر ان کے پاس موجودہ نیشنلٹی سوئزر لینڈ کی ہے۔ انہوں نے شادی بھی سوئزر لینڈ سے کی ہے ۔ان کے دو بچے اور ایک بچی ہے۔ سوئس بینک کے ملازم ہیں۔ انتہائی ملنسار انسان ہے۔ان کی خصلتیں سوئس ہیں۔ مغرب کے کسی ملک میں عشرت کی زندگی گزارنے والے پہلے پاکستانی دیکھا جو پاکستان اور گلگت بلتستان سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں۔ان کاگھر، صحن، مویشی خانہ، چھوٹا سا چڑیا گھر اور دیگر مصروفیات دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ان کے باغیچے میں ہری ہری باریک کونپلیں اور رنگ برنگ پھول، سبزیاں اور ناKala pani ki daman mیاب درخت اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ صاحب باذوق ہیں۔میٹھے سیب پک کرتیار ہیں۔ ہم نے جی بھر کر کھائے۔ وزیر اقبال کو ہر قسم کے نایاب جنگلی و پالتو جانور پالنے کا بے حد شوق ہے۔کئی قسم کے جانوراور پرندے ان کے گھر کا زینت بنے ہوئے ہیں۔ان کے لیے انتظامات بھی کمال کے کیے گئے ہیں۔وزیراقبال دھڑم خیل قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ استور میں ہمیشہ حکومت اور نمبرداری دھڑم خیلوں کے پاس رہی ہے۔برٹش انڈیا کے دور میں دھڑم خیل قبیلے کو استور کی وزرات سونپی گئی تھے۔ وزیرروزی خان ہری سنگھ اور غلاب سنگھ کے استور میں وزیر تھے۔ یہ دونوں کشمیر کے مہاراجے تھے۔ آزادی کے بعد بھی استور کے اکثر ممبران گلگت اسمبلی بھی دھڑم خیل قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ گلگت بلتستاان کی پہلی گورنر محترمہ شمع خالد مرحومہ بھی دھڑم خیل تھی۔ دھڑم خیلوں کا تعلق افغان قبیلوں سے بہت قریبی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ یہ پٹھان قبیلوں کی ایک شاخ ہے۔

گوریکوٹ اور مضافات کا دوبینی نظارہ

وزیر اقبال کی بالاکونی سے استور گریکوٹ اور دیگر مضافاتی وادیوں کا منظر انتہائی صاف اور خوبصورت دکھائی دے رہا ہے۔ میں نے ان کی جرمن میڈ دوربین(German made Telescope) سے پورے علاقے کی سیر کی۔ دور دور تک کا نظارہ کیا۔ کہیں بہتے پانی نظرآتے، کہیں برف کے بڑے بڑے تودے دکھائی دیتے۔فلک بوس چوٹیاں اور ان چوٹیوں کو ڈھانپتا ہوا برف ، برفافی تودوں کی کشش، گلیشئرز کا رعب کسی رومینٹک(Romantic ) منظر سے کم نہیں۔ پھر تا حد نگاہ پہاڑوں، وادیوں اور چٹانوں پر اُگ آنے والے پھول ،نیلے نیلے، اودے اودے ، پیلے پیلے بیل بوٹے گویا مکمل بہار کا سماں پیش کررہے ہیں۔دوربین سے تمام وادیوں اور گھاٹیوں کانظارہ کیا۔پہاڑی ٹیلوں اور سبزوں پر مارخور، برفانی چیتے ،برفانی لومڑی اور گیڈر وغیرہ چلتے دکھائی دے رہے تھے۔مجھے ایسا لگاکہ برفیلے پہاڑوں اور کھائیوں میں یہ جنگلی جانور بسیرا جمائے ہوئے سیاحوں کو دعوت نظارہ دے رہے ہیں اور اس بات کی گواہی بھی کہ اللہ رب العزت اتنے سخت موسم اور حالات میں بھی اپنی مخلوقات کو زندہ وسلامت رکھتا ہے ۔فباء ی آلاء ربکما تکذبان۔

گوریکوٹ مسجد کا قضیہ اور قاضی کی سوچ

شیڈول کے مطابق ۲۵ اگست کو ہمیں سیدھا کالا پانی جانا ہے۔ تاہم قاضی صاحب کی گوریکوٹ آمد کی خبر پھیل چکی ہے ۔ ملاقاتیوں کا سلسلہ دیر تک جاری رہا۔ کچھ لوگوں کے اہم مسائل ہیں جو قاضی صاحب کے سا تھ شیئر کررہے ہیں۔ استورگوریکوٹ کی جامع مسجد کا قضیہ بھی قاضی صاحب اور جج خورشید صاحب کے پاس ہے۔مسجد کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے قاضی نثاراحمد نے کہا کہ’’ مجھے علاقے کا امن اور رواداری ہر اعتبار سے عزیز ہے۔ میری کوشش ہے ہوگی کہ اہل سنت کے دونوں دھڑوں میں ایک اچھا فیصلہ کروں اور ایک ایسا امام و خطیب کا تقرر کروں جو دونوں فریقین کے لیے قابل قبول ہوگا ۔ اس کی پہلی اور آخری ترجیح امن و سکون اور محبت و اخوت کا فروغ ہوگا اور علاقے میں دعوت دین وا شاعت توحید کا پرچار ہوگا۔ اور اس حوالے سے جج صاحب بھی مخلص ہیں۔ وہ بھی بھائی چارگی اور امن کے خواں ہیں‘‘۔

استور میںآرمی کی تعدی اور عوامی تویش

مجھے کدو کاوش اور جستجو کی فکر ہمیشہ دامن گیر رہتی ہے۔اس لیے موقع پاتے ہی وزیر اقبال کو کریدنا شروع کیا۔وہ پہلے پاکستانی پھر استوری ہیں مگر کچھ اداروں کی ستم کاریوں پر سخت نالاں بھی ہیں۔ سویلین حکومت کی بے توجہی پر کڑھتے ہیں۔ وہ استور کو سوئزر لینڈ دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ان کے پاس پلان بھی ہے مگر رفیقان کار نہیں۔انہیں سخت قلق ہے کہ چلم میں بارڈر بناکربند کردیا گیا ہے۔ چیک پوسٹ سے آگے سویلین کو جانے کی اجازت نہیں ، چیک پوسٹ سے آگے ہٹس (Huts)بنائے گئے ہیں جہاں آرمی آفیسرز اپنی فیملی سمیت سیر کو جاتے ہیں۔چلم میں چیک پوسٹ لگاکر عوام کو تنگ کرنا تُک ہی نہیں بنتا۔ان کا کہنا ہے کہ’’ رٹو اور دیگروادیوں میں ہزاروں کنال عوامی اراضی پرقبضہ جمانا دانشمندی نہیں ہے۔ کیا اسطرح دلوں کو فتح کیا جاسکتا ہے۔منی مگر میں بریگیڈ مِس (Brigade mess) دیکھ کرانسان کانپ جاتا ہے کہ کس طرح پاکستان کے ساتھ زیادتیاں کی جارہی ہیں‘‘۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ یہ باتیں سفر کی شیرینیوں میں کھٹاس پیدا کررہی ہیں۔خیر ہم نے تو آگے جانا تھا اور قدرت کی نیرنگیوں سے لطف اندوز ہونا تھا۔ سو چل دیے۔

راستے کی ایسی مفرح ساعتیں

دس بجے گوریکوٹ سے کالا پانی کے لیے روانہ ہوئے۔گوریکوٹ سے قافلہ بڑھتا گیا۔مجھے برادرم نقشبرکے ساتھ شریک سفر ہونا پڑا۔ مفتی ایوب(چیئرمین زکواۃ و عشرضلع استور) بھی ہمارے رفیق سفر ہوئے۔ قاضی صاحب ، قاری عبدالحکیم اور مولانا منیر ایک ساتھ بیٹھ گئے جبکہ وزیر اقبال اپنے لاؤولشکر سمیت اپنی ٹیوٹا میں پابہ رکاب ہوئے اور مفتی شفیع اپنی فیملی کے ساتھ محوخرام تھے۔گاڑیوں کا قافلہ چل پڑا۔ راستہ کالا پانی کا ہو، گاڑی لینڈکروزر ہو اور رفیقانِ سفرمیں انجینئر نقشبر جیسے باذوق ، ملنسار، آزاد طبع، علاقائی روایات، ثقافت، تاریخ اور ویلی ویلی سے آگاہ اور فرد فردسے واقف انسان ہو اور اس پر مستزاد مفتی ایوب جیسا معتدل مزاج شخص کی معیت ہو، ڈولتی گاڑی میں حمدیہ کلام، نعت، ملی نغمے اور دیسی ترانے مسلسل چل رہے ہوں توسوز و گداز کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور’’ سوختہ دل‘‘ فریفتگی وآشفتہ سری کی وادی سے نکل کر مسرت و آسودگی اور لذت وفرحت کے باغِ رضوان میں چہل قدمی کررہا ہوتا ہے۔ایسی مفرح ساعتیں کبھی کبھی نصیب ہوا کرتیں ہیں۔’’ریختہ دل ‘‘ آشفتہ نوائی سے باز آجاتا ہے۔. ایسے لمحات میں اگر مِسمریزم (Mesmerism)کا کوئی ماہر ساتھ ہو تو درونِ خانہ دل کے تمام پوشیدہ رازوں کو معلوم کرکے خوب محظوظ ہوسکتا ہے۔پھر قافلے میں قاضی نثاراحمد جیسا متقی اور بے باک لیڈر، قاری عبدالحکیم جیسا مدبر، مولانا منیر جیساخوش مزاج،مفتی شفیع جیسا’’ ماہرِ ازدواج وازواج‘‘ اور برادرم وزیر اقبال جیسا مہمان نواز اور مہذب انسان ہوں تودل کے نہاں خانوں میں سَرو ش غیب سے پیغام آتا ہے کہ تم سُورگ سے نکل کربہشت میں گھوم رہے ہو۔تو پھر مجھے یاد آتا ہے کہ ’’ اے کمبخت انسان ! تو اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگئے‘‘۔

تحصیل شونٹر کے مناظر اور سڑک کے کُلی

استور کی دو تحصیلیں ہیں۔ایک تحصیل استور اور دوسری تحصیل کا نام شونٹر ہے۔ شونٹر پل کراس کرتے ہیں دو راستے ہیں ایک شونٹر سے ہوتے ہوئے بائیں جانب چلم اور دوسائی سے ہوتے ہوئے اسکردو جانکلتا ہے جبکہ دوسرا روڈ رٹو کی طرف جاتا ہے۔ ہمارا سفر بھی رٹو روڈ سے ہوتے ہوئے کالاپانی تک تھا۔ شونٹر سے متصل ایک گاؤں ’’بولشربر‘‘ نامی ہے۔ ساتھیوں کا کہنا ہے کہ پورے استور میں اس گاؤں میں بہنے والے نالے کا پانی شفاف ہے۔ ٹراؤٹ مچھلیاں ہیں۔ میں نے خود مشاہد ہ کیا تو نالے کا پانی بہت شفاف اور دودھ جیسی رنگت کا ہے۔ بہتے نالے کے ساتھ فشریز کی فارم بھی دکھائی دے رہی تھی۔اس کے بعد پریجوٹ نام کا ایک خوبصورت گاؤں نظرنواز ہوتا ہے۔ رٹو جاتے ہوئے راستے میں چورت کا نالہ آتا ہے۔ چورت نانگا پربت کے دامن میں واقع ہے۔ چورت نالے سے بہنے والا پانی بہت ہی گدلا ہے۔ جبکہ رٹو سے آنے والا پانی بہت شفاف ہے۔ دونوں کا ملاپ بہت خوبصورت منظر پیش کرتا ہے۔جیسے حور کے ساتھ لنگور کے امتزاج سے جو کیفیت رونما ہوتی ہے۔رٹو جاتے ہوئے رام پور گاؤں آتا ہے جس کو لنک روڈ جاتا ہے ۔ اور شوگام گاؤں تو اپنی رعنائی اور خوبصورت سے دل بھا لینے کے لیے تیار کھڑا ہے۔اور ہماری گاڑیاں سرپٹ دوڑ رہی ہیں جبکہ پیاربھرے مناظر باصرہ نواز ہورہے ہیں۔شوگام گاؤں میں برلب روڈ اسکول کے طلبہ والی بال کھیلنے میں مصروف ہیں جبکہ دائیں بائیں مکئی اور آلو کی فصلیں پک کر کسانوں کو کاٹنے کی دعوت عام دے رہی ہیں۔ شوگام کافی بڑا گاؤں ہے ، دو حصوں پر مشتمل ہے شوگام بالا اور شوگام پائین۔ کیا دیکھتا ہوں کہ انجینئر نقشبر گاڑی روک کر کسی کو سختی سے کہہ رہے ہیں کہ واٹرٹینک چلاکر لوگوں کو پانی دے دو ورنہ کل سے آپ کی ڈیوٹی روڈ کلی کی لگادونگا۔اور دوسری جانب سے ’’جی سر ‘‘کی آواز گونجتی ہے۔ میرے استفسار پر بتایا کہ شونٹر سے لے کر کالا پانی کے آخر تک روڈ کی مینٹیننس(Maintenance ) اور واٹر سپلائی کی ذمہ داری میری ہے۔ اور پھر پورے سفر میں روڈ کلیوں کو کھڑے کھڑے جھڑکتے رہے مگر ان کی جھڑکیوں کا کوئی برا ہی نہیں مناتا۔ وہ ہر بستی میں گاڑی روکتے ۔ لوگ ان سے ملتے ۔ اور اگلے دنوں کے ہدایات لے کر چل نکلتے۔عجب آفیسر ہیں۔ ہر مستقل اور ڈیلی ویجیز پر کام کرنے والے کُلی کے نام اور گاؤں سے واقف ہیں اور کام چوروں کی بری خصلتوں سے بھی آگاہ ہیں۔ محنت کشوں کو شاباش دیتے ہیں جبکہ نوسربازوں کو ڈپٹتے ہیں اور سخت سرزنش کرتے ہیں۔ شوگام کے ساتھ ناصر آباد ہے جس کا بالائی منظر بہت ہی پیارا ہے۔ سنا ہے کہ یہ علاقہ بدعات اور خرافات آماجگاہ ہے۔

رٹو آرمی پبلک اور سنوں اسکول اور کیڈیٹ کالج ڈرنگ

میرے سامنے استور کا مشہور گاؤں رٹو ہے۔ رٹو سے دائیں جانب میر ملک وادی کی طرف سڑک جاتی ہے جبکہ بائیں جانب کالا پانی کا راستہ ہے۔میرملک اور کالا پانی کے نالوں کے پانی کے ملاپ سے ایک چھوٹاسا دریا بن جاتا ہے۔یہ دو دریائی نالوں کے پانی کاایک حسین سنگم ہے جومعشوقانہ ادا پیش کررہا ہے۔ رٹو میںآرمی پبلک سکول ہے اور فوجی آفیسروں کے لیے ٹریننگ کا ایک اسکول بھی ہے اسکا نام (Army altitude school Rattu) ہے۔استور ی لوگ اسے آرمی سنوں اسکول سے یاد کرتے ہیں۔ رٹو میں آرمی نے چار ہزارکنال زمین بغیر معاوضہ(Compensation )کے اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ جس سے لوگ سخت خفا ہیں اور نجی محفلوں میں خفگی کے ساتھ تذکرے کرتے ہیں۔لیکن مجھے یہ خیال باربار آتا ہے کہ آرمی جس جگہ میں بسیرا کرتی ہے وہاں بہت ساری سکیمیں لے آتی ہے جس سے لازمی طور پر مقامی لوگ بھی مستفید ہوتے ہیں۔ کئی ادارے بنتے ہیں اور روڈ پانی اور بجلی کے مسائل ہنگامی بنیادوں پر حل ہوتے ہیں اور پورا ایریا کمرشل بن جاتا ہے۔آرمی کی موجودگی پراگر مثبت نتائج پر نظر رکھی جائے تو اہلیان رٹو کو آرمی کی اس مقبوضبگی پر نالاں ہونے کے بجائے شاداں ہونا چاہیے۔بیشک کچھ سائٹس ایفکٹس ضرور ہیں فوائد بہر صورت کثیر ہوتے ہیں۔آپ دیامر کی مثال لیجیے ! دیامر میں کیڈٹ کالج بننی تھی اور 2012ء کو مکمل ہونی تھی تاہم چلاس کے چند وڈیروں کی انا پرستی کی وجہ سے نہ بن سکی۔ چلاس سٹی میں کالج کے لیے زمین نہ ملی، حکومت نے تھک داس میں بنانے کے لیے تمام انتظامات مکمل کرلیے مگر اہلیان تھک و نیاٹ نے مکمل عاقبت نااندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے کالج بننے نہیں دیا ۔ افتتاحی اسٹیج گردایا ۔ اسی دوران مجسٹریٹ تنویر احمد کی کاؤشوں سے گوہرآباد کے علماء و عمائدین نے کیڈیٹ کالج کی تعمیر کے لیے ڈرنگ داس میں ہزار کنال زمین فری آف کاسٹ دینے کی آفر کی۔ تب ڈرنگ داس میں کالج بنانے کا م شروع ہو۔اس کے فوائد اور معاشی، تعلیمی و سماجی اثرات و فوائد پر الگ تحریر کی ضرورت ہے تاہم میں گوہرآباد کے علماء وعمائدین سے اتنا ضرور کہونگا کہ جس جگہ میں کیڈیٹ کالج کو ہزار کنال فری زمین دی ہے وہاں قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے دیامر کیمپس کے لیے بھی فوری زمین دینے کی آفر کریں، اور ایک مناسب جگہ دینی دارالعلوم بنانے کے لیے بھی وقف کرلیں اور ساتھ ہی افواج پاکستان کی ڈیمانڈ کے مطابق تین چار سو کنال انہیں بھی عطا کیجیے۔افواج پاکستان سے طے کرلیں کہ وہ اس ایریا کو وی آئی پی کینٹ ایریا بنائیں گے۔ ہر حال میں آرمی پبلک اسکول اور سی ایم ایچ ہسپتال بنوائیں گے۔اور سول نوکریوں میں گوہرآباد کا مخصوص کوٹہ ہو۔آرمی موجود ہوگی تو امن کا ہونایقینی ہے۔ ان کی موجودگی میں ہر ایر گیرا ماحول خراب نہیں کرسکتا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ایریاگلگت جوٹیال سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے۔ اور اہلیان دیامر و گوہرآبادکی معاشی صورت حال یکسر بدل سکتی ہے۔ مگر دکھ اس بات کا ہے کہ خدا کی زمین کو اپنی زمین سمجھنے والے لٹیروں نے ڈرنگ کیڈیٹ کالج کے کام رکوانے کی ٹھان لی ہے اور عدالتوں میں جاگُھسے ہیں۔میں اتنا ضرور کہونگا کہ خدا کی زمین مخلوقات خد ا پر تنگ کرنے والوں کے لیے اللہ کا فرمان ہے۔ ’’ ان عذابی لشدید‘‘

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button