کالمز

ّْہنزہ کی لوک کہانیاں – ہندی کی چڑیل ددی

محمد ذاکر خان 

(نوٹ: ذاکر خان ہنزائی صاحب نے گلگت میں برطانوی راج کے دوران پولیٹیکل ایجنٹ (1923)کےطور پر خدمات سرانجام دینے والے لیفٹیننٹ کرنل لوریمر کی انگریزی کتاب “فوک ٹیلز آف ہنزہ” سے مختصر کہانیوں کااردو میں ترجمہ کرنا شروع کردیاہے۔ اس سلسلے کی یہ تیسریکہانی ہے۔ اسی طرح کی مزید کہانیاں آنے والے دنوں میں پامیر ٹائمز پر شائع کر دی جائینگی۔ مدیر)

ہندی کی ایک لوک داستان جو مدتوں عوام کے زیر زبان رہی

ہندی میں ایک قلعہ نما برج تھا جو جنڈو شکاری کے نام سے مشہور تھا۔یہ پہرہ دینے کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ رات کو کچھ لوگ اس برج پر چڑھ کر پہرہ دیا کرتے تھے۔لیکن کچھ عرصہ سے رات کو پہرے پر جانے والے لوگ جب صبح واپس آتے تو ان میں سے ایک کم ہو جاتا۔ اگر دو پہریدار اوپر جاتے تو واپس ایک ہی آتا۔ اگر تین جاتے تو دو لوٹ کر آتے کیونکہ برج پر ایک چڑیل (بلس) نے قبضہ کر رکھا تھا جو بندے کھاتی تھی۔

512RD78JQvL._SX316_BO1,204,203,200_ہندی کی آبادی ان دنوں یونہی کم تھی۔ اس آفت ناگہانی نے لوگوں میں سراسیمگی اور اضطراب پیدا کر دیا۔شرم سے انہوں نے یہ بات تھم (نواب یا حاکم) سے چھپا کر رکھی۔ لیکن بات کہاں تک چھپتی۔تھم کو اس کی خبر ہو گئی۔تھم نے شون غوقر نامی ہنزہ کے مشہور بٹن کو اس آفت سے نبٹنے کے لئے ہندی بھیج دیا۔شون نے لوگوں کو بتایا کہ اس برج پر ایک چڑیل اور اس کی سات بیٹیوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔وہی پہرہ داروں کو کھا رہی ہیں۔

شون غوقر نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور ان سے کہا کہ ان کے پاس جو بندوق ‘ تلوار ‘ خنجر یا کوئی اور اسلحہ ہے لے کر میرے پیچھے چلے آئیں۔شون آگے آگے کچھ منتر پڑھتا ہوا چلا اور لوگوں سے کہا خوب زور زور سے جنگی نعرے لگاتے ہوئے اس کے پیچھے آ جائیں۔ بلس ددی نے جب دیکھا کہ ایک بٹن ہاتھ میں بڑا سا نیزہ لئے اتنے بہت سے مسلح لوگوں کے ساتھ حملہ کرنے آ پہنچے ہیں تو وہ اپنی ساتوں بیٹیوں کو لے کر بھاگ کھڑی ہوئی ۔ ایک بیٹی دریا کی طرف بھاگی اور کنارے پر موجود ایک چٹان پر چڑھ گئی۔شون غوقر نے آگے بڑھ کر اپنا بھاری نیزہ اس کے سینے میں گاڑ دیا۔دوسری بیٹی ایک دوسرے قلعے کی طرف دوڑی ۔ وہاں بھی ایک چٹان تھی وہ اس کے پیچھے چھپ گئی۔شون نے اسے بھی جا لیااور اپنے نیزے سے اسے بھی مار دیا۔اسی طر ح اس نے چڑیل کی ساتوں بیٹیوں کو ٹھکانے لگا دیا۔پھر ان کی ماں بھی پکڑی گئی۔ شون نے اسے ہندی قلعہ کے ستون کے ذریعے فصیل پر چڑھا دیا۔جہاں شون نے اسے نیزہ مار کر فصیل سے گاڑ دیا۔ چڑیل ددی مر کر بھی نہیں مری۔اس نے پوچھا مجھے کھانے کو کیا دوگے۔شون نے کہا تمہیں ہر سال کھانے کے لئے بارہ بکرے ملیں گے۔تم ان کا خون جی بھر کے پینا۔کسی سال اگر بارہ بکرے نہ دے سکے تو سات بکرے ضرور دئے جائیں گے۔شرط یہ ہے کہ ہم جب بھی کسی سے جنگ کرنے نکلیں تو تمہیں ہمارے آگے آگے چلنا ہوگا۔یہ کہ کر شون نے ددی کو لوہے کی ایک مضبوط کھونٹی کے ساتھ زنجیر سے جکڑ دیا ۔تب سے ہندی کے لوگ ہر سال اس دن اپنی بندوقیں‘ تلواریں‘ خنجر اور دیگر اسلحہ اٹھائے‘ جنگی نعرے لگاتے چڑیل ددی کی یادگار پر بارہ یا سات بکروں کا خون بھینٹ چڑھاتے ہیں۔کہتے ہیں جب خون بہتا ہے تو کھونٹی گھومنے لگتی ہے۔ہندی کے لوگ اس سالانہ رسم کو شیریس کہتے تھے۔لوگوں کا عقیدہ تھا کہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو بلس ددی زندہ ہو کر پھر سے ہمارے بندے کھانا شروع کر دے گی۔ یہ بات انہیں شون غوقر نے باور کرائی تھی۔

یہ سب کچھ ہنزہ کے تھم میر محمد ناظم خان کے دور حکومت سے پہلے ہوتا رہا۔میر ناظم خان اور اس کے وزیر ہمایوں بیگ نے ہندی کے لوگوں کو شیریس کی سالانہ رسم ادا کرنے سے روک دیا۔شون غوقر کی گاڑی ہوئی کھونٹی برسہا برس اپنی جگہ موجود رہی ۔لیکن یہ اب وہاں نہیں ہے۔لوگوں کا خیال ہے کوئی اسے نکال کر لے گیا ہے۔البتہ وہ پتھر جس کے ساتھ شون نے یہ کھونٹی باندھی تھی اب بھی موجود ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button