کالمز

گنتی گنتی ہوتی ہے سید ھی ہو یا الٹی ۔۔

قلم کہانی۔۔۔رشید ارشد

رشیر ارشد
رشید ارشد

بلوچستان کے سابق وزیر اعلی اسلم رئیسانی کا فرمان یاد آیا کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے جعلی ہواصلی ۔۔گنتی گنتی ہوتی ہے سیدھی یا الٹی اپنا اثر تو دکھاتی ہے ۔ ؛گنتی تو الٹی شروع ہو چکی ہے اب گھڑی کی سوئیاں ٹک ٹک کر رہی ہیں ،جیسے ہی سوئیاں اپنے آخری نشان کو چھوئیں گی گلگت بلتستان حکومت کے سو دنوں کے احداف کے اثرات بھی سامنے آئیں گے اور مستقبل کے ارادے اور وعدے بھی ۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ گزشتہ حکومت نے اپنے پانچ برسوں میں نہ صرف گلگت بلتستان میں سرکاری سطح پر کرپشن کا رواج عام کیا بلکہ کرپشن کے ایسے ایسے ریکارڑ قائم کئے کہ دیگر صوبوں میں اس کی مثال نہیں مل سکتی ہے ،گلگت بلتستان پاکستان کا وہ واحد خطہ تھا جہاں کرپشن نے سرکاری سطح پر گھونسلے نہیں بنائے تھے لیکن بھلا ہو مہدی شاہ سرکا کہ کرپشن کی ایسی ایسی تراکیب ایجاد کی گئی کہ کرپشن کے بڑے بڑے بادشاہ بھی اس پر داد دئے بغیر نہیں رہ سکیں گے ،،،کہتے ہیں کہ عوام بہترین احتساب کرتے ہیں ،عوام نے ایسا احتساب کیا کہ گلگت بلتستان کی سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی کو اسمبلی کی ایک سیٹ تک محدود کر کے پیغام دیا کہ عوام کے جذبات سے کھیل کر سیاست و حکومت کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر صرف مال بنانے والو کے ساتھ مستقبل میں بھی یہی سلوک ہوگا ،،کرسی کرسی ہوتی ہے اقتدار کی ہو یا کسی سرکارہ دفتر میں اختیار کی ،،،،،کرسی میں نہ جانے وہ کون سا جادو ہے کہ اس پر جو بھی براجمان ہو اس کے ہوش ٹھکانے نہیں ہوتے ،ہاں مگر جنہیں اللہ کا خوف اور روز محشر کے روز کے امتحان کا ادراک ہو وہ بڑی سی بڑی کرسی پر بھی براجمان ہوں تو نہ ان کی گردنوں میں سریا آتا ہے اور نہ عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھ کر کچل دیتے ہیں ،،،،،،،،

گلگت بلتستان حکومت کے میر کارواں حافظ حفیط الرحمان کے حوالے سے ان کے شدید ترین سیاسی مخالفین بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ خوف خدا اورگلگت بلتستان کے مستقبل کو روشن کرنے کے عزم سے لیس ہیں یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے نتائج میں عوام نے ان پر بھر پور اعتماد کا اظہار کیا ،عوام کا وہی اعتماد اب تقاضہ کر رہا ہے کہ سو دنوں کے احداف کو محض وعدوں اور نعروں کی پوشاک پہنا کر عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے نہ دوڈایاجائے بلکہ عملی طور پر ایسے اقدامات کئے جائیں کہ عوامی اعتماد کی فصیلوں سے اینٹیں گرنے نہ پائیں ،،

اس بات میں کسی شک کی گنجائیش باقی نہیں رہتی کہ سابقہ حکومت نے سسٹم کی بنیادیں ہلا دیں ہیں لیکن اسی بگڑے ہوئے سسٹم کو درست کرنے کے لئے عوام نے مسلم لیگ کو زمہ دارایاں عطا کی ہیں اور اب حکومت کی زمہ داری ہے کہ وہ اپنے وعدوں اور نعروں پر عمل شروع کرے ،،،،ہمیں اس حقیقت کا بھی ادراک کرنا ہوگا کہ گلگت بلتستان جغرافیائی حوالوں سے دنیا کے اس حصے میں واقع ہے کہ جہاں سے ایک طرف یورب کے دروازے کھلتے ہیں تو دوسری طرف ایشیا کے ،،پاکستان میں دو تان ایسے ہیں جن میں ایک اگر پاکستان کے سر کی حیثیت رکھتا ہے تو دوسرا تان ڈھڑ ہے ، یہ دو تان ایک گلگت بلتستان ہے تو دوسرا گلگت بلتستان ،بدقسمتی سے ان دونوں ملک کے اہم خطوں میں دشمنوں کے آلہ کار اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے عوام کے جذبات سے کھیلنے کے لئے مختلف طریقے اپنا رہے ہیں ،پاک چین کوریڈور میں نہ صرف گلگت بلتستان کی تقدید پوشیدہ ہے بلکہ پاکستان اورچین کا مستقبل بھی اسی میں ہے کہ یہ عظیم منصوبہ مکمل ہو،اس نتاظر میں اس بات کی نشاندہی کرنا مناسب تصور کرتا ہوں کہ دشمن طاقتوں نے ایک طرف بلوچستان میں نفرتوں کے الاؤ روشن کئے ہے تو دوسری طرف گلگت بلتستان میں بھی دشمن ایسے ننگ وطنوں کی تلاش میں ہے جو کھبی مذہب کے نام پر تو کھبی حقوق کے نام پر نفرتوں کو عام کریں ،۔۔دنیامیں ترقی کا راستہ امن سے ہو کر ہی جاتا ہے ۔جہاں امن نہ ہو وہاں ترقی کے تمام فارمولے اور منصوبے ناکام ہوتے ہیں ،گلگت بلتستان کو بھی اگر ترقی کی منزلولوں سے آشنا کراناہے تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ امن اور انصاف حکومت کا بنیادی نعرہ ہو ،نعرہ صرف نعرہ نہیں اسے عملی پوشاک بھی پہنانی ہوگی ۔۔۔گلگت بلتستان میں امن و انصاف کا خواب اگر شرمندہ تعبیر ہو تو ترقی کے جتنے مواقع اس خطے میں موجود ہیں ان پر کام کیا جائے تو بہت قلیل عرصے میں گلگت بلتستان کا بچہ بچہ خوشحال ہو سکتا ہے لیکن اس کے لئے شرط اولین ہے کہ سیاسی نمبر سکورنگ اور روایتی حکومتی اور سیاسی انداز سے ہٹ کر سفر کا آغاز کیا جائے ،،،،،اپوزیشن بھی صرف نمبر سکورنگ اور سیاسیے مخاصمت کے خول سے باہر نکل کر ہر اچھے اقدام کی تعریف اور ہر برے اقدام کی مخالفت اصولوں اور عوامی مفاد میں کرے تو خوشحالی کے خواب پورے ہو سکتے ہیں،،،

گلگت بلتستان کے وزیر اعلی حافظ حفیظ الرحمان نے اپنے ابتدائی سو دنوں کے احداف کا اعلان کر کے یقیناًایک اچھے انداز حکمرانی کی ریت ڈالی ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ان سو دنوں کے احداف سے عمل کا پھل برامد ہوتا ہے یا محض سیاسی وعدوں کی گھٹری ۔۔۔وزیر اعلی گلگت بلتستان حافط حفظ الرحمان کے لئے سو دنوں کی الٹی گنتی ایک سیاسی امتحان کی حیثیت رکھتی ہے یقین ہے کہ سو دن جب پورے ہوں یہ ضروری نہیں کہ احداف سو فیصد پورے ہوں لیکن اتنا تو ضرور ہو کہ عوام کو یہ یقین تو آئے کہ ہماری حکومت صرف وعدے نہیں عملی کام بھی کر رہی ہے ،،،یقیناًبرسوں کا گند سو دنوں میں صاف تو نہیں ہو سکتا ہے لیکن صفائی کا آغاز تو ہو سکتا ہے ہمیں امید ہے کہ حکومت سو دنوں کے احداف کے بعد آنے والے چھہ مہینوں کے احداف بھی عوام کے سامنے لائے گی ،جس میں یہ احداف بھی شامل ہوں کہ کرپشن سے اپنی تجوریاں بھرنے والوں کا سیاسی انتقام سے مبرا ہو کر احتساب کیا جائے گا،،،گلگت بلتستان میں حقیقی اور دیرپا امن کے لئے اقدامات کئے جائیں گے ،گلگت بلتستان سے بے روزگاری کے خاتمے اور وسائل کو بروئے کار لانے کے لئے انڈسٹری زون بنایا جائے گا،،سیاحت کو فروغ دینے کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں گے ،،توانائی بحران کے خاتمے کے لئے بڑے منصوبوں کا آغاز کیا جائے گا،سرکاری اداروں سے سفارش ،اقربہ پروری اور رشوت کا خاتمہ ہوگا ،سرکاری ملازمتوں بالخصوص پولیس میں سیاسی نہیں میرٹ کے مطابق بھرتیاں ہو ں گی ۔۔۔گنتی گنتی ہوتی ہے سید ھی ہو یا الٹی ۔۔،،،،گنتی اب شروع ہو چکی ہے اب حکومت کا کام ہے کہ عوام کے سامنے اپنی سو دنوں کااعمال نامہ لا کر عوامی حکومت ہونے کا ثبوت فراہم کرے ۔۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button