کہا جاتا ہے کہ کسی بھی قوم کو اس کی ثقافت ، تاریخ اور تہذیب و تمدن سے دور رکھنے کے بعد اس کو غلام بنانے میں دیر نہیں لگتا۔ بالکل اسی طرح دنیا کے نقشے پر صدیوں پر محیط تاریخ ، ثقافت اور تہذیب و تمدن سمیٹا ہوا خطہ گلگت بلتستان کی طویل غلامی کے اسباب میں سے سب سے بڑا سبب بھی یہی ہے۔
یکم نومبر 1947کو بغیر بیرونی امداد ڈوگروں اور سکھوں سے آزادی دلانے کے بعد ایک خودمختار ریاست گلگت بلتستان کے نام سے وجود میں آئی لیکن سیاسی بے شعوری اور بغیر واضح حکمت عملی سمیت مسلمانیت کے جذباتی نعرے نے بیس لاکھ سے زائد انسانوں کو16نومبر 1947ء کو ایک بار پھر غلامی کے دلدل میں دھکیل دیا، سردار عالم نامی پولیٹیکل ایجنٹ(نائب تحصیلدار) کے ناپاک قدم پڑتے ہی ایک آزاد ریاست کی حیثیت تحصیل میں تبدیل ہوگئی اور ساتھ ہی ساتھ پاکستانی حکمراؤں نے اپنے پنجے ایسے گھاڑ دیئے کہ اب ان کو نکالنا ایک خواب بن کر رہ چکا ہے، کیونکہ ان ظالم حکمرانوں نے خطے میں موجود بھائی چارگی کو مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ پرستی کی آڑ میں پاش پاش کردیا جس سے خطہ تعمیر و ترقی کے علاوہ امن وامان کے حوالے سے ایک صدی پیچھے چلا گیا اور امن و امان کی فضا میں زندگی بسر کرنے والے لوگوں کو ایک دوسرے سے خوف آنے لگا اور گلگت بلتستانیت سے نکل کر عوام فرقہ پرستی، لسانیت اور علاقائیت کے نشے میں غرق ہوگئے اور اس نشے نکالنے کے لئے ایک طویل جدوجہد کی ضرورت ہے۔
قارئین کرام : آج کے نشست میں بات مطالعہ گلگت بلتستان کے حوالے سے ہونے والی تھی لیکن یہ بات ضروری سمجھی گئی کہ اس بحث سے پہلے خطے کی تاریخ پر طائرانہ نظر دوڈایا جائے۔ خیر یہ بات پہلے بھی بتائی جاچکی ہے کہ کسی بھی قوم کو اگر غلام رکھنا ہو تو اس قوم سے اس کی تاریخ، تہذیب و تمدن اور ثقافت کو ملیامیٹ کردیا جائے جو کہ گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ عر صہ دراز سے ہو رہا ہے۔ اگر ہم اپنی تاریخ سے روشنائی حاصل نہیں کرینگے تو یقیناًہم بھی بہت جلد دوسر ے گمنام اقوام کی طرح یاد ماضی ہی بن جائیں گے۔ یہاں پہ سوال یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ اگر ہم اپنی تاریخ سے روشنائی حاصل کرنا چاہے تو کیسے کریں کیونکہ ہماری تاریخ کو تو مسلط قوتوں نے ملیا میٹ کردیا ہے، وہ کیسے؟؟
کیا ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ جب ہم چھوٹے تھے تو ہمارے والدین نے ہمیں گاؤں کے چھوٹے سکولوں میں ہمیں داخل کیا وہ اس نیت سے کہ ہمارے بچے بڑے ہو کر علم کے نور سے منور ہو جائیں اور ملک و قوم کی خدمت اور قیادت کا علم سنبھالیں۔ بد قسمتی سے ہم نے پرائمری تک اپنے خطے اور اپنے آباؤ اجداد کے بارے میں کوئی ایک لفظ بھی ان پانچ سالوں میں کا موقع میسر نہیں آیا۔ ہم سوچ رہے تھے کہ شاید ہم چھوٹے ہیں اور ہماری تاریخ بہت بڑی ، جس کی وجہ سے ہمیں ہماری تاریخ نہیں پڑھائی گئی ، اب آگے آگے ہمیں ہماری تاریخ کے بارے میں پڑھنے کا موقع ملے گالیکن ہماری یہ سوچ غلط نکلی اور میٹرک تک ہمیں اس خطے کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ علم میسر نہیں آیا تاہم جب میں آغاخان ہائر سکنڈری سکول گاہکوچ میں کلاس9thکا طالب علم تھا ، ہمارے محترم استاد داور شاہ (جوہمیں پاکستان سڈیز پڑھایا کرتے تھے جس میں سوائے پاکستانی تاریخ اور پاکستانی ثقافت کے علاوہ گلگت بلتستان کے متعلق ایک لفظ بھی نہیں ہوتا) نے ہمارے اسرار پر گلگت بلتستان کی صدیوں پر محیط تہذیب ریاست بروشال، دردستان اور بلورستان(یاد رہے کہ یہ سلیبس میں شامل نہیں تھا) کے حوالے سے پڑھایاجو ہمارے لئے مفید ثابت ہوئی، اس کے بعد میٹرک ، پھر انٹر اور اب یونیورسٹی لیول پہ بھی کہیں گلگت بلتستان کے حوالے سے کچھ نہیں پڑھایا جاتا جو کہ گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج گلگت بلتستان کے 95فیصد پڑھے لکھے نوجوانوں کو ان کی حقیقی آزادی جو یکم نومبر کو حاصل کی گئی تھی کے متعلق بھی پتہ نہیں، اگر ان سے پوچھا جائے کہ یکم نومبر 1947کے کسی ایک ہیرو کا نام بتائے تو یہ وہ نہیں بتا سکتے ، اگر آپ ان سے مزید یہ پوچھے کہ دادی جواری کون تھی، تو وہ سوائے ندامت کے کچھ نہیں کہہ پاتے، اگر آپ ان سے یہ معلوم کریں کہ 28اپریل 1949کو کونسا جعلی معاہد ہ کن دو بیرونی طاقتوں کے درمیا ن ہوا تو وہ حیران رہ جاتے ہیں، اگر آپ ان سے مزید یہ پوچھے کہ ریاست بروشال ، بلور ، اور دردستان کی تاریخ کتنی پرانے ہے تو جواب نہیں دے سکتے۔ اگر آپ ان سے یہ بات دریافت کریں کہ گلگت بلتستان کے وہ تاریخی حصے کون کونسے ہیں جن پر بیروبی طاقتیں عرصہ دراز سے مسلط ہیں تو یہ جوابات نہیں ملے گی۔ ان کے علاوہ بھی گلگت بلتستان کے متعلق کئی بنیادی اور ضروری سوالات ہیں جن کے جوابات ہمارے ماسٹرز لیول کے نوجوان بھی نہیں دے سکتے ، اس کے برعکس اگر ہم ان سے پاکستان یا ساری دنیاکے متعلق کچھ پوچھے تو یقیناًپورے اعتماد کے ساتھ جواب دینگے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمیں سازش کے تحت کلاس فرسٹ سے پی ایچ ڈی تک مطالعہ پاکستان پڑھایا جاتا رہا، حالانکہ ہونا یہ چاہئے کہ گلگت بلتستان کے نوجوانوں اور طلبہ و طالبات کو مطالعہ گلگت بلتستان پڑھایا جائے تاکہ وہ اپنی تاریخ سے روشناس ہو سکے ، اپنی ثقافت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اس کو زندہ رکھ سکے ، اپنے قومی ہیروز کے بارے میں علم رکھ سکے لیکن ایسا کب ہوتا ہے! کوئی پاگل حکمران ہی ہوگا جو اپنے غلام رعایا کو ان کی تاریخ پڑھائے تاکہ وہ مضبوط قوم بن کر ابھرے اور اس کے اقتدار کو پاؤں تلے روندڈالے۔۔
قارئین! ہمیں اپنے آقاؤں سے یہ مطالبہ کرتے ہوئے ہر گز نہیں گھبرانا چاہئے کہ وہ گلگت بلتستان کے تمام سرکار ی و نجی سکولوں، کالجوں اور اکلوتی یونیورسٹی میں مطالعہ گلگت بلتستان کو بھی مضمون کے طور پر باقاعدگی سے پڑھایا جائے اور اس سلسلے میں گلگت بلتستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن اور دیگر وزرا ء اور عوامی نمائندوں کو کو چاہئے کہ وہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی سے قرارداد پاس کرائے اور یہ کریڈٹ اپنے نام کرائے یاکہ آنے والے وقت میں گلگت بلتستان کے ورثاء ان کے اس اکلوتے قومی کارنامے کی وجہ سے ان کو بھی ان لوگوں میں شامل کریں جو قومی حقوق اور قومی آزادی کی پاداش میں سختیاں جھیلتے ہیں، ایسا کرنا حفیظ سرکار کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ۔
پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔
Ju LA comrade …proud on you …