کالمز

یاس زدہ قہقہہ

ذمہ دار آفسروں کا گروپ تھا نئے کو نسلرز بھی تھے گاؤں کے لوگ بھی تھے ایک گروپ تھا جو سیلاب سے تباہ شدہ افراد کے نقصانات کی فہرست بنا رہے تھے تباہ شدہ لوگ تھے کہ مہک مہک کر اپنے نقصانات بتا رہے تھے ۔ انکی انکھوں میں اُمید کی چمک اترآئی تھی ان کو لگتا تھا کہ کل ہی تلافی ہوجائے گی ’’ پیسے ‘‘ ملیں گے ۔دوبارہ آباد کاری ہوگی ۔وہ حکومت کو دعا دیتے تھے مختلف اداروں کے لوگوں کو پیار اور احترام سے ’’ صاحب ‘‘،صاحب ‘‘ کہتے تھے ’’صاحب لو گ جی ٹھیک اور لاپرواہی سے وہ جو کہتے تھے لکھ لیتے ۔۔ گویا کہ کل ہی سب کچھ ان کو تھما دیں گے ۔۔ ایک تباہ شدہ گھر تھا ۔۔کیچڑ میں لت پت ایک چٹان نماپتھر تھا ۔جس پر ایک بوڑھا بیٹا ہوا تھا ۔لوگ سب اس کے پاس دائر ہ بنا کر کھڑے تھےْ میں بہت پیچھے کھڑا تھا بابا ہر سوال کا اُلٹا جواب دیتا اور جواب پر اس کے چہرے پر ایک زہر بھری ہنسی پھیل جاتی ۔اس نے کھڑے ہوکر بھی آفیسروں کااستقبال نہیں کیا۔۔۔ لوگ غصہ ہوکر بکھر گئے ۔۔۔ جب بوڑھا اکیلا رہ گیا تو میں اس کے قریب گیا ۔۔ سلام کیا ۔۔ وہ کیچڑآ لود ہاتھوں کو زانوپہ رکھ کر کھڑا ہو گیا ۔۔ اس نے کہا ۔۔ بیٹا ! دل تو چاہتا ہے ۔کہ تجھے سینے سے لگا ؤں مگر یہ میرے کپڑے ،ہاتھ سب خاک آلود ہیں تیرے کپڑے اور ہاتھ گندے ہوجائیں گے ۔۔ میں نے کہا۔۔ بابا۔۔۔ مٹی کے اس بت کو خاک اور نکھارتی ہے ایسا نہ کہو۔۔ میں نے کہا ۔۔بابا یہ جو کیچڑ نما چٹا ن ہے جس پر تم بیٹھے ہو ۔۔ بابا ۔۔ ہنس کر کہا ۔۔ یہ اندازتاً سیدھا اس کمرے کے اوپر ہے جہاں ہم بیٹھتے ،سوتے ، نماز ،پڑھتے ۔۔یہاں بیٹھ کر اس کمرے کی یادیں تازہ کر رہا ہوں ۔۔ بابا ہنس پڑا ۔۔میں نے کہا بابا ،،مسکراتے کیوں ہو۔۔ بیٹا شکر ادا کر تاہوں ۔۔جانیں بچ گئیں۔۔جان ومال دونوں امانتیں ہوتی ہے رب چاہے امانتیں واپس لیتا ہے۔ ما ل کی امانت لے لی جان کی چھوڑی ۔۔ شکر ہے رب کا ۔۔ میں نے کہا ۔۔باقی سب کچھ تباہ ہو گیا کیا؟ ۔۔ ہاں بیٹا ۔۔ میں نے کہا بابا۔۔ یہ افیسر لوگ کیا کر نے آئے تھے۔۔۔ بیٹا پوچھنے آئے تھے ۔۔۔ کہ تباہی کتنی ہوئی ۔ ۔۔ میں نے کہا کچھ نہیں ہوئی ۔۔وہ لوگ غصہ ہو کر چلے گئے ۔ میں نے کہا تو نے کیوں ایسا کیا ۔۔ اس نے کہا ۔۔ بیٹا ہم کہانی سنا سنا کر تھک گئے ہیں ۔۔ میں نے کہا بابا تو نے سب کو سنا یا ان کو بھی سنا تے تو کیا برائی تھی ۔۔ اس نے کہا بیٹا اس’’کہانی ‘‘ کی بھی ایک ’’کہانی ‘‘ ہے۔ میں نے اشتیاق سے کہا بابا یہ والی ’’ کہانی ‘‘ نہیں اس ’’ کہانی ‘‘ کی ’’ کہانی ‘‘ مجھے سنائیں۔اس نے کہا بیٹا ۔۔ میں بہت چھوٹا تھا ۔ میر ے ابو ،دادا ، تایے سب زندہ تھے سیلاب آیا تباہی ہوئی ۔ اس زمانے میں ایسے امداد،وغیر ہ کا تصور نہ تھا ۔ ابلتہ رشتہ دار مد د کو آتے ۔ہمیں کسی نے اپنا بیل دے دیا ۔ کسی نے اپنی گائے بھیج دی ۔کسی نے ایک جوڑا بستر ہ بھیجا ۔کسی نے کدال ،بلیجہ دست تباہ بھیج دی ۔۔ میرے دادا ابو کا زمانہ گذر گیا 1984 ؁ء آگیا شاید تو بہت چھوٹا ہوگا ۔تجھے یاد ہو یا نہ ہو ۔سیلاب آگیا ۔ اسی طرح تباہی ہوئی ۔ میں جوان تھا ۔ یہی افیسر لوگ آئے ۔ فہرستیں بنائی گئیں ۔نقصانات کے تخمینے لگائے گئے ۔ہماری آنکھوں میں چمک اترآئی ۔انتظا ر کی گھڑیاں ستانے لگیں۔ہم خیالوں میں ہواؤں میں قلعے تعمیر کر نے لگے ۔ایک مہینے تک انتظار کیا ۔ پھر خود کا م میں لگ گئے۔میں جوان تھا ۔ ملبہ ہٹا یا ۔ پھر سے گھر بنا یا ۔۔ ہمارا کیا گھر ہے چند کچے کمرے بنا ئے ۔ایک سال بعد مجھے بلا یاگیا ۔۔ ۔ دیکھا ۔۔ کہ ایک ’’ ہجوم ‘‘ تھا لوگوں کا اژدھام تھا ۔۔ افیسر لوگ تھے ۔۔موٹی موٹی رجسٹر ز تھے ۔ میرا شناختی کارڈ دیکھا گیا فہرست میں نام نکایا گیا ۔۔ بابا کی ہنسی پھو ئی ہنس ہنس کر اس کی آنکھوں میںآنسو آگئے ۔ ۔ کہا ۔ میر ے نا م کے سامنے مبلغ 20 روپے لکھے ہوئے تھے ۔ مجھے10 کے دو دو نوٹ تھما دئے گئے ۔ باباکی ہنسی قہقہا میں بد ل گئی ۔ پھر زہر بھری مسکراہٹ اس کے چہر ے پر پھیل گئی ۔ اس نے کہا ۔ اب پھر یہ لوگ آئے تھے بیٹا میں10 کے چند نوٹوں کے لئے ’’ کہانی ‘‘ کیوں سناؤں۔۔ دو مہینے بعد میں پھر گاؤں گیا بابانے ابھی صرف ایک کمرے کا ملبہ ہٹایا تھا ۔ انٹی اس کے لئے چائے لائی تھی ۔مجھے دیکھ کر بابا کھڑا ہوگیا چیخ کر کہا۔ بیٹا ۔ میں دوڑ کے پہنچ گیا ۔ اس نے پھر کہا میں تمہیں سینے سے لگا تا ۔۔ مگر تمہارے کپڑے اور ہاتھ ۔ میں شرمندہ ہوگیا ۔۔ اس نے پیالی میں چائے ڈالی ۔۔ کہا ۔۔ میرے بازؤوں میں طاقت ختم ہوگئی ہے 2 مہینے میں صرف ایک کمرے کا ملبہ ہٹا یا ۔ اس کمرے کو برف پڑنے سے پہلے بناؤں گا میں اور تمہاری انٹی زندگی کا آخری ’’چیپٹر ‘‘ اس کمرے میں پڑھیں گے ۔دیکھتے ہیں ۔چیپٹر ‘‘ مشکل ہے کہ آسا ن ہے ۔ دعا کر یں بیٹا کہ یہ ’چیپٹر‘‘ختم ہونے سے پہلے پھر سیلاب نہ آئے ۔اور اگر آئے تو یہ’’ چیپٹر ‘‘ ہی ختم کر دے ۔اور یہ کمرہ ہمارا ’’ آخری آرام گا ہ‘‘ ہو ۔۔۔ بابانے قہقہالگایا ۔۔ پھر ہم تینوں خاموش ہوگئے ۔۔ میں نے چائے پی لی اور روانہ ہوگیا ۔۔ میں نے سوچا کہ جس قوم کے حکمرانوں کی حویلیوں کی دیوار اتنی اونچی اور مضبوط ہوں اور باہر کی طرف اعلیٰ قسم کی پلستر کی گئی ہوں۔ ان تک غریبوں کی آوازیں جاٹکراتی ضرور ہیں مگر ان کے اندر والوں کی کانوں تک نہیں پہنچ پاتیں۔ پھر میں بابا کی دانائی پر عش عش کر اُٹھا کہ اس نے مفت میں’’ کہانی ‘‘ سناکر اپنا دماغ خراب نہیں کیا ۔ افیسر لوگوں کے ناز نخرے نہیں اُٹھا ئے اور اپنے آ پ کو انتظا ر کے عذاب سے بھی بچا لیا۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button