خطے کی جمہوری تاریخ میں شائد یہ پہلا موقع تھاکہ کسی اہم سیاسی شخصیت کو ملکی الیکٹرونک میڈیا پر ریاستی حقوق اورخطے کو درپیش مسائل کے حوالے سے نمائندگی کرنے کا موقع ملا۔مجھے نہیں معلوم اس کا کریڈیٹ کس کو ملنا چاہئے۔ البتہ حلقہ صحافت میں کچھ برادارن ایسے ہیں جنہوں نے پاکستان کے کئی نامور لکھاریوں کے نام اوپن لیٹر لکھے ،میں ذاتی طور پر اگرچہ سبجیکٹ کے کچھ حصوں پر اُن سے اتفاق نہیں کرتا لیکن اُن کا قوم کیلئے جذبہ یقیناًقابل تعریف اور تقلید ہے۔
شائدیہی وجہ ہے کہ سلیم صافی نے اکنامک کوریڈر میں گلگت بلتستان کو بطور سٹیک ہولڈر نمائندگی نہ دینے پراپنے کالمز اور کئی پروگرامز میں وفاق سے بھر پور احتجاج کیا اور حالیہ دنوں میں انہوں نے یہاں کے محکوم عوام کی مظلومیت کو سمجھتے ہوئے ہمارے محترم وزیراعلیٰ صاحب کیلئے اوپن پلیٹ فارم فراہم کیا لیکن بدقسمتی سے وزیر اعلیٰ صاحب ہماری توقعات سے ہٹ کراینکر کی طرف سے بار بار خطہ بے آئین کا ترجمان ہونے کا اشارہ دینے کے باوجود پٹری سے اُترتے رہے ۔
چلیں اس انٹرویو سے یہاں کے باشندوں کو اتنا تو معلوم ہوا کہ اسطرح کے لوگ اگر مکمل طور پر بااختیار ہوجائے تو ریاست کے ساتھ کیا کھلواڑ ہوسکتا ہے ۔آج میں کوشش کروں گا کہ اُس انٹرویو کے کچھ اہم نکات پر روشنی ڈال سکوں جو کسی بھی حوالے سے گلگت بلتستان کے حق میں نہیں جاتے ہیں۔
آئینی حیثیت کے حوالے سے کئے گئے سوال پر قاری صاحب کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں اہلسنت چاہتے ہیں کہ وہ کشمیر کے ساتھ شامل ہوں تاکہ اُن کی اکثریت ہو ،اس جملے نے نہ صرف انکا خبط باطن کو ظاہر کیا بلکہ انہوں نے خطے کے اہلسنت مسلک دیوبند اور اہل حدیث کے سیاسی اور مذہبی نمائندوں کو بھی امتحان میں ڈال دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ نمائندے اس بات کی تردید کرتے ہیں یا تصدیق۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ یہ انکا انفرادری سوچ ہوسکتا ہے اجتماعی نہیں لیکن ایک ذمہ دار شخص کی طرف سے اسطرح کے الفاظ کامنہ سے نکلنا خطے کے مفاد میں نہیں کیونکہ ریاست کسی خاص مسلک یا مذہب کا نہیں بلکہ یہاں بسنے والے تمام لوگوں کیلئے مساوی حقوق رکھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ماضی میں اُنکے اقاوں نے ہمیں اس طرح کے مسائل میں الجھا کرمفاد حاصل کرتے رہے۔
آگے چل کر موصوف فرماتے ہیں کہ ہم نے آئینی حقوق کا نہیں بلکہ آئین کے بغیر کے ڈویلپمنٹ کا نعرہ لگاکر اقتدار حاصل کی ہے۔ چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ ماضی کے وہ تمام بیانات بھی جھوٹ پر مبنی تھے، لیکن اُنہیں کو ن سمجھائے کہ کسی بھی ریاست میں آئین کے بغیر ترقی کا تصور ناممکن ہے۔ یعنی صاحب اس قسم کے ہتھکنڈوں کے ذریعےآئینی حیثیت کے مسلے کو لٹکا کے رکھنا چاہتے ہیں۔
ساتھ ہی انکا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیراعظم نے آئینی حیثیت کے حوالے سے سرتاج عزیز کی سربراہی میں میں کمیٹی قائم کی ہے۔ جبکہ دفتر خارجہ پہلے ہی تردید کر چکی ہے کہ گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے کیلئے کوئی کمیٹی کام نہیں کر رہی۔
اگلے کچھ ہی لمحے میں حافظ صاحب پھر کہتے ہیں کہ کشمیر کا مسلہ حل ہونے تک گلگت بلتستان کو کسی قسم کا سٹیٹس دینے یعنی آئینی اور مالی حقوق دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس سے کشمیر کاز اور پاکستان کے خارجہ پالیسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یقیناًانکا یہ جملہ انتہائی قابل مذمت اور ریاستی حقوق سے محروم عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے برابرہیں۔ اسی بات پر سلیم صافی نے اُن پر واضح کیا کہ بھارتی کشمیر ان تمام مسائل کے باجود مکمل آئینی اور قانونی حیثیت رکھتے ہیں اور اگر پاکستان بھی ایسا کریں تو یہ پاکستان کے مفاد میں ہیں، لیکن، میں نہ مانوں، کیونکہ مسلہ عہدے سے عہد وفا کا بھی ہے جب کہیں پھل بغیر محنت کے مل رہے ہیں تو پانی ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔
عدالتی نظام کے حوالے سے کئے گئے سوال پر قاری صاحب فرماتے ہیں کہ اس حوالے سے اُنہیں کوئی شکایت نہیں جبکہ دوسرے صوبوں میں عدالتی نظام کے حوالے سے بڑے مسائل ہیں، دوسری ہی سانس میں فرمایا کہ یہاں بھی سپریم کورٹ کا سرکٹ بینج ہونا چاہیے ،سوال یہ ہے اگر عدالت اور عدالتی نظام کے حوالے سے یہاں کوئی ایشو نہیں ہے تو آپ سرکٹ بینج کا مطالبہ کیوں کررہے ہیں؟
قاری صاحب کی نزاکت پر قربان جائے۔جہاں تک شکایت والی بات ہے تو گلگت بلتستان کے سیاسی اسیران کی شنوائی کیوں نہیں ہو رہی ؟ کونسا ایسا کیس ہے جس کا فیصلہ ہوا ہو اور مجرموں کو سزا دی گئی ہو؟فاتح گلگت بلتستان کے فرزند اور دوسرے لیڈران کا جرم کیا ہے؟
غیر مقامی گورنر کی تعیناتی کے حوالے سے حافظ صاحب بڑے فخر سے فرماتے ہیں کہ ہم چونکہ آئینی دائرہ کار سے باہر ہیں لہذا ضروری نہیں کہ مقامی گورنر ہو۔ اُنکے مطابق غیر مقامی گورنر کے ہونے سے مسائل جلد حل ہوجاتے ہیں۔ وفاق میں شنوائی ہوتی ہے۔
جناب تو پھر یہ جمہوریت کا نعرہ،یہ ووٹ اور یہ اسمبلی کس لئے؟ اگر قانون ساز اسمبلی ایک وفاقی وزیر کے برابر اختیار نہیں رکھتی، اگر مسائل خود حل نہیں کرسکتی تو آپ کو استعفی دے دینا چاہئے۔اور ویسے بھی گورنر کا کام تو مسائل حل کرنا نہیں بلکہ وہ آئینی صوبوں میں وفاق کی نمائندگی کرتا ہے۔
قاری صاحب یہاں بھی آپ نے اپنے آپ کو دھوکھا دیا ہے غور فرمائیں، مالی مسائل کے حوالے سے قاری صاحب کا کہنا تھا چونکہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے لہذا وفاق مالی مدد کرتی ہے۔ جناب ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ہیں وسائل بہت ذیادہ ہے اُسے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے لیکن مسلہ یہ ہے کہ جس خطے کی قانونی حیثیت ہی نہ ہو وہاں یہ سب کچھ ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں لیکن آپکو معلوم ہونا چاہئے کہ صرف دریائے سند ھ اور شاہراہ قراقرم کی رائلٹی مل بھی جائے تو یہ خطہ خود کفیل ہوسکتا ہے آپ خود ہی فرما رہے تھے کہ وفاق ہم سے ٹیکس وصول کرتے ہیں لہذا وہی ٹیکسز بھی اگر یہاں خرچ ہوجائے تو مسلہ حل ہوجائے ۔
افسوس کی بات ہے کہ دنیا گلگت بلتستان کو سونے کی چڑیا سمجھتی ہے اور ہمارے نام نہاد لوگ آج بھی خود کو لاچار اور مجبور سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ مجبوری ہماری غلطی سے نہیں بلکہ ایسے ہی لوگوں کی کم ظرفی کی وجہ ہے ہو رہی ہے۔
اقتصادی راہداری میں نظرانداز کرنے کے حوالے سے بھی قاری صاحب کا کہنا تھا کہ جب ایوب خان نے کے کے ایچ بنایا تواُس وقت بھی عوام سے رائے نہیں لیا تھا لہذا آج اگر کوریڈور بھی ہم سے پوچھے بغیر بنائیں تو فائدہ عوام کو ہی ہوگا۔یہاں اتنا ہی کہوں گا، کہ ہائے گندم کو حقوق سمجھنے والے لیڈران اس سے ذیادہ کیا سوچ سکتے ہیں۔
قومی اسمبلی اورسینٹ میں نمائندگی کے حوالے سے کئے گئے سوال پر بھی بے شرمی کی انتہا دیکھیں ،کہتے ہیں کہ چترال کو نمائندگی حاصل ہے مگر چترال گلگت بلتستان سے سو سال اور کوہستان دو سو سال پیچھے ہیں یعنی گلگت بلتستان اس وقت ترقی کی آسمانوں کو چھو رہے ہے۔
یہی نعرہ مہدی شاہ نے بھی لگایا تھا لیکن انکے دور میں اداروں کا جو حال ہوا سب کے سامنے ہیں۔
چلیے، مان لیا حافظ صاحب درست کہتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس میں آپ کی پارٹی کا کونسا کمال شامل ہیں؟ آپ نے کتنے سکول اور کالج بنائے ہیں، کتنے ہسپتال اور یونیورسٹیاں قائم کی ہے ؟ آج گلگت بلتستان میں جو کچھ ہے وہ بھٹوکی مرہون منت ہے جنہوں نے اس خطے ترقی کیلئے کچھ عملی کام کیا اور پھر جنرل مشرف نے ہمارے سینکڑوں جوانوں کو کارگل وار میں دھکیلنے کے عوض وار کرائمز کے ڈر سے خطے میں کچھ ترقیاتی کام کئے۔
نون لیگ نے پیتس سال پاکستان پر حکومت کرنے کے باجود گلگت بلتستان کیلئے کیا کچھ کیا عوام کے سامنے ہیں۔ باقی آپ نے جن ترقیاتی منصوبوں کا ذکر کیا انشاللہ مکمل ہونے کے بعد اس حوالے سے بھی قلم اُٹھا جائے گا لیکن وزیراعلیٰ کا حالیہ انٹرویو معاشرتی ترقی، ریاستی حقوق، مذہبی آہنگی خطے کی ضرورت، تعلیم اور ترقی کے حوالے سے کسی بھی صورت میں ہمارے مفاد میں نہیں تھا براہ کرم اپنے نظرئے پر نظر ثانی کیجئے کم از کم اپنے شہید بھائی سیف الرحمن کو اپنے لئے رول ماڈل بنائیے کیونکہ سیاست دان کا ایمان اور عقیدہ عوامی خدمت اور ریاست سے وفاداری ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے آپ کے اندر ان تمام خوبیوں کے حوالے سے ایک بھی عنصر نظر نہیں آیا۔ اللہ ہم سب کا حامی ناصر ہو