کالمز

حکیم الامّت، حضرت علامہ اقبالؒ

تحریر: نزارفرمان علی

’’ وہ (اللہ) جس کو چاہتا ہے حکمت دیتا ہے اور جس کو حکمت دی گئی تو بے شک اسے بہت زیادہ خیرو برکت دی گئی۔‘‘ (القرآن)
حکیم الامت ،مفکر پاکستان ،ممتاز فلسفی ،دانشور و عالم ،ترجمان حقیقت اور شاعر مشرق، مرد بصیرت حضرت علامہ اقبال 9 نومبر 1877 ء کو سیالکوٹ کے مردم خیز شہر میں ولادت ہوئی ۔آپ کے آباؤ اجداد صدیاں قبل مشرف بہ اسلام ہو کر کشمیر سے پنجاب منتقل ہوئے ۔آپ کے والد شیخ نور محمد نہایت عباد ت گزار ،حلیم الطبع اور صوفی منش انسان تھے آپ ان پڑھ تھے مگر خود آگاہی کی نعمت سے بہر مند تھے ۔آپ کی والدہ امام بی بی زہد و تقوی ،تہجد گزار اور خدا ترس خاتون تھیں۔ والدین کی عمدہ تربیت پر ناز تھا ان کی خدمت میں کئی اشعار ھدیہ کئے
’’ تربیت سے میں تیر ی انجم کا ہم قسمت ہوا ،گھر میرے اجداد کا سرمایہ عزت ہوا‘‘
یقیناًآپ کے ماں باپ کی اعلیٰ اخلاقی و دینی خوبیوں کا حضرت علامہ کی زندگی پر گہرااثر ہوا۔ خوش قسمتی سے بچپن ہی میں شمسالعلما سید میر حسن جیسے نابغہ روزگار ،فاضل زمانہ ،مشفق مدرس سے مستفیض ہونے کا موقع ملا جو اپنے دور کے مروجہ علوم خاص طور پر اسلامی علوم و ادب ،تصوف و تاریخ اور لسانیات کے بڑے ماہر تھے ۔افکار مشرق،ایقان و عرفان اور عربی ،فارسی اور اردو ادب کا ذوق و استعداد انہی کے زیر تربیت پیدا ہوا تھا ۔
’’مجھے اقبال اس سید کے گھر سے فیض پہنچا ہے ۔پلے جو اس کے دامن میں وہی کچھ بن کے نکلے ‘‘
جب سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ سے فارغ ہو کر گورنمنٹ کالج لاہور آئے وہاں فلسفے کی تعلیم مشہور متشرق پروفیسر آرنلڈ سے حاصل کیا ۔ماہر استاد سے فلسفہ قدیم و جدید کی تاریخ و تصورات سے بخوبی روشناس ہوئے مختصر مدت میں توجہ ،شوق اور محنت شاقہ کی بدولت فلسفہ و دانش میں اس درجہ پختگی پیدا ہو گئی کہ خود پروفیسر آرنلڈ کو کہنا پڑا ’’اقبال جیسا شاگرد استاد کو محقق اور محقق کو محقق تر بنا سکتا ہے ‘‘ اساتذہ میں مولانا فیض الحسن سہارنپوری ،مولانا حسین آزاد اور مولوی محمد دین شامل ہیں ۔شعر گوئی آپ کی سرشت میں شامل تھی آپ بچپن ہی سے شعر گوئی کا ملکہ رکھتے تھے کچھ وقت ارشد گورگانی خاص طور پر داغ دہلوی کی رہنمائی میں علامہ کے کلام میں خوبصورتی و نکھار پیدا ہوئی جس کا اقرار اور تعریف یوں فرمائی
’’جناب داغ کی اقبال یہ ساری کرامت ہے۔تیرے جیسے کو کر ڈالا سخن دان اور سخن ور بھی۔
پروفیسر رشید احمد صدیقی آپ ؒ کی شخصیت کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں ’’سر اقبال کی مقناطیسی شخصیت بے حد متاثر کن ، بہت چاہی جانے والی اورجادو گرروں جیسی لگی ان کی شخصیت میں والہانہ پن ، محبت ، گرم جوشی اور مروت تھی ان کی گفتگو کئی خصوصیات کی حامل تھی جس میں غیر معمولی عالمانہ اوروالہانہ انداز ، متوازن اور متوازی گفتگو، حشو و زوائد سے پاک زبان اور نہایت وضاحت اور جامعیت کے ساتھ کلام فرماتے۔‘‘طبیعت میں بلا کی آمد تھی ماشاء اللہ ایک نشست میں سو دو سو اشعار لکھ جاتے تھے۔مادر وطن ہی میں اعلیٰ کارکردگی کے ساتھ ایم اے کیا ،انگلستان سے بیرسٹری کی ڈگری حاصل کی اور جرمنی سے فلسفہ اور اخلاقیات میں پی ایچ ڈی ڈگری لی اور انہی دنوں بیرسٹر بھی ہوگئے اور عارضی طورپر پروفیسر عربی کی حیثیت سے لندن یونیورسٹی میں ڈاکٹر آرنلڈ کی قائم مقامی کی ۔مختصر یہ کہ علامہ اقبال انجمن حمایت اسلام لاہور کے صدر بعد میں پنجاب قانون ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے،آپ کی بے لوث خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے پنجاب مسلم لیگ کا صدر منتخب کیاگیا ،آپ نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس بمقام الہ آباد میں اپنے خطبہ صدارت میں پہلی مرتبہ پاکستان کا تصور پیش کیا ۔آپ نے تجویز دی کہ برصغیر کے جن صوبوں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے وہاں ان کی حکومت قائم کی جائے۔جب آپ کے خیالات و تصورات حقیقت کا روپ دھار چکے اس وقت آپ اس فانی دنیا کو چھوڑ چکے تھے ۔یعنی مسلم لیگ نے23مارچ1940 ء کو لاہور میں ایک قرارداد منظور کی جو قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہے اس قرارداد کی منظور ی کے سات سال بعد آزاد مملکت وجود میں آگیا ۔آ پ کی ، ہمہ گیراورپر حکمت شاعری کے مختلف ادوار بیان کئے گئے ہیں جو ہر ایک پر روشن ہیں۔ایک اہم تاریخی واقعہ1933ء میں سید سلیمان ندوی اور سرراس مسعود کے ساتھ نادر شاہ کی دعوت پر کابل جشن استقلال میں شریک ہوئے اور شاہ کی فرمائش پر ان دونوں کی مدد سے افغانوں کی تعلیمی سکیم مرتب کی ۔حضرت علامہ اقبال کی غزل گوئی کا آغاز وطن پرستی سے شروع ہو کر ملی غزل گوئی پر تمام ہوا کیونکہ وہ بخوبی سمجھتے تھے کہ انسانیت کے مصائب و آلام کا علاج وطنیت میں نہیں بلکہ ملت کے تصور میں ہے ۔
’’ایک ہو ں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے۔نیل کے ساحل سے لیکر تابہ خاک کاشغر‘‘
آپ کی تعلیمات میں پیش کئے گئے متعددنظریات تصورات میں سے چند ایک کے متعلق مختصراً بیان کیا جا تا ہے۔
1۔فلسفہ خودی۔ یہ تصور خودبینی یا خود پرستی کا نام نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خودی کی اصلاح و تربیت کے ذریعے خود آگاہی و خودشناسی کا حصول ہے جس کیلئے آہ سحر گاہی وتذکیہ اخلاق و نفس کا جہاد اکبر نا گزیر ہو تا ہے ۔حضرت علامہ کی نظم محاورہ مابین خدا اور انسان کے نظم میں خدا اس کے عطاء کردہ عقل اور اختیار کا غلط استعمال کا انسان سے گلہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’اے انسان! میں نے تو پوری دنیا کو ایک ہی پانی اور مٹی سے پیدا کیا تھا مگر تو نے اسے ایران، تاتاراور حبشہ وغیر(مختلف جغرافیائی و سیاسی خطوں ) میں تقسیم کردیا میں نے زمین سے خالص لوہا پیدا کیا مگر تو نے اس فولاد سے تلوار، تیر اور بندوق (تباہ کن ہتھیار) وغیرہ بنالئے تو نے باغ کے پودوں کو کاٹنے کیلئے کلہاڑا بنایا اورتو نے گیت گانے والے پرندوں کیلئے پنجرہ بنایا۔‘‘اللہ تعالیٰ کی بات کے جواب میں انسان (اپنی فطرت کے تعمیری پہلوکو نمایاں کرتے ہوئے )خدا سے عرض کرتا ہے کہ اے خدا تو رات بنائی تو میں نے چراغ بنایا، تو نے مٹی پیدا کیا میں اس سے پیالہ بنایا، تو نے بیاباں پہاڑ اور جنگل پیدا کئے تومیں نے پھولوں کی کیاریاں(کھیت) چمن اور باغ بناے، میں وہ ہوں جو پتھر سے آئینہ بناتا ہوں ، میں وہ ہوں جو زہر سے دوائے شفا بناتا ہوں۔ شاید اس میں وہی فلسفہ پوشیدہ ہے۔’’میں مسجود ملائک ہوں مجھے انسان رہنے دو۔‘‘
’’خودی کیا ہے راز درون حیات۔خودی کیا ہے بیداری کائنات‘‘
’’میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے ۔خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر‘‘
2۔نظرےۂ عمل۔ یہ انفرادی و اجتماعی زندگی میں جہد مسلسل اور سعی پیہم بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے ۔وہ سکوت و جمود کو بقاء حیات انسانی کیلئے موت قرار دیتے ہیں۔ آپ جذبہ عمل کی توانائی کو آفاق و انفس کی تسخیر ،علم و دانش کی تحقیق اور تہذیب و تمدن کی اساس قرار دیتے ہیں ۔قرآنی تعلیمات کے مطابق جب تک کوئی قوم اپنی حالت آپ بدلنے کے لیے آمادہ و کو شاں نہیں ہو تی اس وقت تک خدا بھی راضی و مدد گار نہیں ہو تا ۔آپؒ کی ایک اہم نظم بعنوان ’’اگر خواہی حیات اندر خطرذی‘‘ میں ایک ہرن اپنے دل کا دکھ کا حال اپنے ساتھ ہرن سے بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں آج کے بعد حرم شریف میں پناہ حاصل کرلوں گا کیوں کہ جنگل میں تو شکاری ہر وقت ہماری گھات میں بیٹھے رہتے ہیں اور ہم ہرنوں کی مرضی کے مطابق نہ صبح ہوتی اور نہ شام(ہمیں صبح و شام کسی وقت بھی چین میسر نہیں) میں تو شکاری کی اس مصیبت سے پناہ چاہتا ہوں اور اپنے دل کو ان تمام خطرات سے آزاد دیکھنا چاہتا ہوں یہ سن کر دوسرا ہرن کہتا ہے اے میرے عقل مند دوست ! اگر تو زندہ رہنا چاہتا ہے تو خطرات میں (رہ کر) جی ہر لمحے اپنے آپ کو ’’سان‘‘ پر رگڑتا رہ اورتیز دھار والی (عمدہ) تلوار سے بھی زیادہ تیز ہوکر زندگی گزار(کیوں کہ) خطرات تو طاقت (اورقوت)کیلئے امتحان (کی طرح) ہوتے ہیں اور جسم و جان کے امکانات کیلئے کسوٹی کاکام دیتے ہیں۔
’’بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا۔روشن شرر تیشہ سے ہے خانہ فرہاد۔‘‘ حضرت علامہ کے مطابق مصائب زمانہ کیخلاف شکوہ شکایت بے فائدہ ہے کیوں کہ جس نے سختیاں نہ سہی ہوں وہ کھوٹا رہتا ہے۔ ذوق خطر کے بغیر زندگی بے کیف ،مرگ آفرین اور قلب و زہن پر شکوک ، اندیشوں اور مایوسیوں کے سائے اسے زندہ لاش بنادیتے ہیں۔یہ مسائل و خطرات انسان کی صلاحیتوں کا پیمانہ ہیں اس کی پوشیدہ قوتوں کیلئے کسوٹی کی مانند ہیں لہٰذا ان سے گھبرا کر ہرن کی طرح بھاگنے کی بجائے اپنی زندگی (خودی) کو آزمائش و مصائب کے سان پر رگڑنے سے وہی خوبی اور اہلیت اجاگر ہوں گی جو تلوار کو سان پر چڑھانے یا خام سونے کو آگ پر تپانے سے ابھرتی ہیں۔کیا خوب کہا گیا ہے ’’زندگی زندہ دلی کا نام ہے، مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں ۔‘‘
3۔فلسفہ عشق۔ علامہ اقبال نے جذبہ عشق کومجازی معنوں میں استعمال نہیں کیا بلکہ انسانیت کے جوہر کو پہچاننے اور اوج کمال کا ذریعہ قرار دیا ۔وہ عقل کے مخالف تو نہیں مگر عشق کے بغیر اسے خام و نا تمام سمجھتے ہیں ۔گو کہ عقل علم و دانش کا خزانہ ہے تسخیر خودی و خدائی میں بہت حد تک معاون ہو تی ہے لیکن حقائق عالیہ تک کامل رسائی اس کے بس کی بات نہیں آپ فرماتے ہیں کتابیں چاٹ چاٹ کر آدمی کتابی کیڑا تو بن جا تا ہے مگر اس کا علم حقیقت کی چاشنی اور معرفت کی روشنی سے دور رہتا ہے ۔لہٰذا عقل انسانی کو عشق حقیقی کی آگ میں شک و حیلہ گری کی کثافت جلا کر اصل حیات اور اسرار شہنشاہی کا سراغ پا تے ہیں ۔
’’جب عشق سیکھاتاہے آداب خود آگاہی۔کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی۔‘‘ آپ ؒ فرماتے ہیں ساری دنیا بلخصوص حیات انسانی میں نشونما و ارتقاء کا مرکزی قوت عشق ہے عشق ہی درد ہے اور وہی دوا ہے عشق ہی راستہ اور عشق کی منزل ۔ بزرگان دین کے اقوال میں کائنات کی تخلیق کا سبب عشق اور اس کے احوال و انقلاب میں عشق ہی کی کارفرمائی ہے۔
’’مردِ خدا کاعمل عشق سے صاحب فروغ‘‘
’’عشق ہے اصل حیات، موت ہے اس پر حرام‘‘
ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کی بچوں کیلئے لکھی گئی ’’بچے کی دعا‘‘’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری۔۔۔۔ بقول حضرت علامہ اس کا تھیم مغرب کے مشہور شاعر سے لیا گیا ہے یہ دعائیہ نظم چھ اشعار پر مشتمل ہے وطن عزیز کے تقریباً تمام سکولوں کی اسمبلی میں پرجوش انداز میں پڑھی جاتی ہے ۔ تقسیم سے پہلے ہندوستان کے سکولو ں میں بھی پڑھی جاتی تھی۔ بچوں کی دعا کی اہمیت کے پیش نظر یہاں پر اس کا مطلب (معنی) پیش کیا جاتا ہے۔’’ خدائے بزرگ و برتر کی بارگاہ میں بچہ دعا کرتا ہے کہ میرے لبوں پر یہ دعا آرزو بن کر مچل رہی ہے کہ میری زندگی شمع کی مانند ہو۔ شمع جو گھور اندھیرے کو منورکردیتی ہے لیکن خود جلتی رہتی ہے۔ دنیا میں جہالت کی جو تاریکی چھائی ہے، بارالہٰ! وہ میرے علم کی بدولت دور ہوجائے جس طرح پھول چمن کی زیبائش اور زینت کا سبب ہوتا ہے اسی طرح میری ذات میرے وطن کی زیبائش کا سبب بن جائے۔ خداوندا! جس طرح پروانہ شمع پر نثار ہوکر زند�ۂ جاوید ہوجاتا ہے اسی طرح مجھ کو بھی صلاحیت عطاء کر کہ اپنی جدوجہد اور قربانی سے ملک کو سنوار سکوں، میری ذمہ داری یہ ہے کہ ہر شخص سے محبت کروں، غریبوں، کمزوروں اور ضرورت مندوں کے کام آؤں ۔ میرے مولا مجھے ہر طرح کی برائی سے بچاکر نیکی کے راستے پر چلنے کی توفیق عطاء فرما۔ آمین یارب العالمین۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button