……..تحریر: شمس الحق قمرؔ گلگت…….
دیوانوں کی باتیں دیر سے سمجھ میں آتی ہیں اور دیر میں کام آتی ہیں ۔ آج سے تقریباً تیس سال قبل آغا خان ہاوسنگ بورڈ کے نام سے ایک اِدارہ آیا اس ادارے نے چترال اور گلگت میں پھیلنے والے امراض پر ایک خاص تحقیق کے بعد علاقے میں مختلف بیماریوں کا نتیجہ یہ اخذ کیا کہ یہاں کے لوگ رفع حاجت کے لئے کسی خاص قسم کے بیت الخلأ کا استعمال نہیں کرتے ہیں بلکہ کھلی فضا میں رفع حاجت کرتے ہیں جس کی وجہ سے مختلف مہلک بیماریوں کا ایک دوسرے کو لگنے اور جان لیوا ثابت ہونے کے مستند جوابات سامنے آگئے ہیں ۔ لیکن ان بیماریوں سے بھی زیادہ گھمبیر مئلہ یہ تھا کہ لوگ اس بات کو مانتے نہیں تھے کہ باہر رفع حاجت سے بیماریاں جنم لیتی ہیں ۔
چترال میں اس ادارے نے ان بیماریوں سے لوگوں کو آگاہی دلانے اور اُن کے گھروں میں جدید طریقہ کار سے بیت الخلأ بنانے کے حوالے سے جوانوں کی ایک جماعت کو اعلیٰ تربیت دیکر بالائی چترال کی ذمہ داری سونپ دی جن میں صابر ولی تاج، قربان علی ، جنگ بہادر، فرمان مراد، اکبر خان، فرما ن نظار اور سید افضل شامل تھے ان نوجوانوں نے ادارے کی طرف سے بلا عوض لوگوں کے گھروں میں جدید باتھ روم بنانے کا سلسلہ شروع کیا ۔ لیکن یہ کام اس تربیت یافتہ ٹیم کے لئے جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا ۔ کیوں کہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ کمرے کے اندر( لیٹرین) رفع حاجت کرنا انتہائی شرم ناک عمل ہے ۔ صابر ولی تاج بتاتے ہیں کہ اس سلسلے میں سب سے مشکل کام لوگوں کو یہ باور کرانا تھا ،کہ کھلی جگہوں پر رفع حاجت کا بلا واسطہ تعلق شدید قسم کی جان لیوا بیماریوں سے ہے ،کیو ں کہ لوگ کہتے تھے کہ بیماریاں تو اللہ تعالی کی طرف سے ہیں۔ بفرض محال اگرصداقت پر مبنی ہو بھی تو بھی ایک کمرے میں بیٹھنا ، سونا، کھانہ کھانا اور دوسرے کمرے میں رفع حاجت کرنا کونسا انسانی فعل ہے ؟ لوگوں نے اس کام کی مخالفت ہی نہیں کی بلکہ اس کام کو اور اس کام کی آگاہی دلانے والوں پر مضحکہ خیز جملے بھی کستے رہے ۔ علاقے کا ایک معمر اور معتبر شخص محلے کے ایک اور اکابر شخص کے پاس چلا جاتا ہے ۔ سلام اور مصافحے کے ساتھ ہی سوال پوچھتا ہے کہ ’’ بھائی جان یہ بتاؤ کہ آفیسر کسے کہتے ہیں؟‘‘ دوسرے شخص نے جواباً فرمایا کہ ’’ آفیسر وہ لوگ ہوتے ہیں جو اعلی ٰ تعلیم یافتہ ہوں ، گاڑی، بنگلہ اور نوکر چاکر ہوں تو وہ آفیسر کہلاتا ہے ‘‘ سوال پوچھنے والے شخص نے کہا ’’ بھائی آپ کا جواب بالکل غلط ہے آ ج کا اعلیٰ آفیسر وہی کہلاتا ہے جو ایک کمرے میں رہے اور ساتھ والے کمرے میں رفع حاجت کرفرمائے ‘‘
یہ کام ایسا ہی تھا جیسے دورِ جہالت میں قدیم عرب قوم کو یہ کہا جائے کہ عورت بھی ایک انسان ہے اسے پیدا ہوتے ہی قتل کرنا درندگی ہے۔ اور اس انسان کے قدموں کے نیچے جنت ہے ۔یہی وہ ماں ہے جس سے ہم پیدا ہوئے۔ اس انسان کی عزت عین عبادت ہے اور اس پر بے جا ظلم اور اِس انسان کو اپنے سے کم تر سمجھنا تمہاری اپنی بد بختی و تمہاری اپنی کمتری ہے ۔ تو کیا وہ سفاک لوگ ایسے ناصحوں کو زندہ در گور نہ کرتے ؟ جدید بیت الخلا بنانے کے حوالے سے بھی یہی کچھ ہمارے ان علاقوں کے باسیوں کی صورت حال تھی ۔
میں نے جب یہ کہانی گلگت کے اپنے ایک دوست کو سنائی تو اُسے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ چترا ل اور گلگت کے لوگوں میں کوئی خاص فرق نہیں تھا ۔ چترال کی کہانی سننے کے بعد اُسے باور ہوگیا کہ اب اگر وہ اپنے علاقے کی کہانی مجھے سنائے گا تو اُسے کوئی شرمندگی نہیں ہوگی ۔لہذا اُس نے بھی مجھے اپنے گاؤں کے بارے میں ہو بہو وہی کہانی سنائی جو ہمارے علاقے میں ظہور پذیر ہوئی تھی۔ میرے دوست سن 1984-85 کی دہائی میں اپنے گاؤں کے ہائی سکول کا طالب علم تھا یہ اُن دنوں کی بات ہے جب گلگت کے مضافاتی علاقوں میں بھی آغا خان ہاوسنگ بورڈ کے نمائندے قدامت پسند عوام کے ساتھ انہیں صحت کے زریں اصولوں کی آگاہی دلانے کی جنگ لڑ رہے تھے تو اسی سلسلے میں ہونے والی گاؤ ں کی ایک میٹنگ میں گاؤں کے ایک دیوانے نے بن بلائے شرکت کی ۔ میرے دوست بتاتے ہیں کہ ( دوسرے لوگوں کی نگاہوں میں پاگل شخص) نے گاؤں کے لوگوں کی مجلس سے ایک عجیب انداز میں خطاب کیا۔اُس نے جو کچھ کہا وہ ایک دیوانہ پن تھا لیکن اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ اُن کی اُس وقت کی وہ باتیں آج نہ صرف سچ معلوم ہوتی ہیں بلکہ ان کی اشد ضرورت بھی ہوتی ہے ۔ اپنے دوست کی ان باتوں کو سننے کے بعد میں نے سوچا کہ اس میٹنگ کی روشنی میں کچھ لکھا جائے ۔ میٹنگ جب شروع ہوئی تو شرکائے مجلس ایک دوسرے سے باتیں چھینتے ہوئے ہاوسنگ بورڈ کی غیر شرعی، غیر اصولی اور غیر ضروری حکمت عملی کو اپنی ثقافت اور کلچر کے عین منافی گردان کر قرارداد لکھوادی اور شرکائے مجلس سے باری باری دستخط لینے کا عمل شروع ہوا۔ قرار دادپر اثباتی دستخط کے لئے اُس دیوانے کو بھی کہا گیا تو اُس نے دیوانہ وار بولنا شروع کیا ۔ وہ اونچی اونچی آواز میں چیخیں مار مار کے کہہ رہا تھا ’’ مجھے روٹی ، کپڑا مکان سے زیادہ اس چیز کی ضرورت ہے ‘‘ شرکائے مجلس نے کہا ، ’’ جانے دو ، یہی تو اُس کی پاگل پن کی نشانی ہے‘‘
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button