کالمز

قادر ی وعمران بمقابلہ گلگت بلتستان و بلوچستان 

تحریر: عنایت بیگ 

کارل مارکس نے کہا تھا کہ آج کا میڈیا سرمایہ داری نظام کا حفاظتی آلہ ہے۔مارکس کی اس بات کو سمجھنے کیلئے پاکستان اور پاکستانی مقبوضہ گلگت بلتستان میں اس سال ہونے والے چند اہم واقعات کا جائزہ لینا ایک بہتر مثال ثابت ہوسکتا ہے۔ رواں سال فروری سے اپریل تک گلگت بلتستان میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کے آئینی محرومیوں کے خلاف دئیے گئے عظیم تاریخی دھرنے کو ما سوائے چند مقامی اخباروں کے کسی میڈیا ذرائع نے کوریج نہیں دی۔ حالانکہ گلگت بلتستان میں عوامی ایکشن کمیٹی کی عظیم تحریک اور آئینی محرومیوں کے خلاف اُٹھنے والی تمام تحریکوں کی انقلابی کیفیت کسی عمران خان یا پھر کسی قادری کے نام نہاد دھرنوں سے کئی گُنا زیادہ تھی۔ان تحریکوں کے انقلابی رہنماوں کو بے جا ریاستی صعوبتیں اُٹھانی پڑیں جو ابھی تک جاری ہیں۔ انسداد دہشت گردی کورٹ میں گلگت بلتستان کے ان عظیم رہنماوں پر آئے رو ز نئے کیسز درج کئے جاتے ہیں اور اپنی حقوق کی بات کر نے والے نوجوان کئی برسوں سے ریاستی عقوبت خانوں میں نا کردہ گُناہوں کی سزا بُھگت رہے ہیں مگر مجال ہے کہ ریاستی میڈیا ادھر کان تک دھرے؟

Anayat
عنایت بیگ

ماما قدیر اور اُن کے انقلابی قافلے کے کو ئٹہ سے اسلام آباد تک کئے گئے پیدل لانگ مارچ اور لطیف جوہرکے 47 روزہ بھوک ہڑتال کو کسی بھی میں اسٹریم میڈیا نے گھاس تک نہیں ڈالی۔ اور ایک وقت آیا جب اپنے تنظیم کے صدر کے اغواء کے خلاف جاری بھوک ہڑتال میں وہ نوجوان آدھ موا ہو گیا اور بالآخر اُس قوم نے بزرگوں کو اس معصوم مگر مضبوط جان کو بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا پڑا۔ ایک صحافی نے ان کو کوریج دینے کی کوشش کی تو اُسے چھ (6 )گولیاں ماری گئیں۔ ان دونوں تحریکوں میں شامل لاکھوں لوگوں کا تعلق محنت کش طبقے سے تھا اور یہ دونوں تحریکیں بے حدپُر امن اور اپنی نوعیت کی بہترین انقلابی تحریکیں تھیں اور ابھی بھی جاری ہیں مگر جمہوریت کی دعویدار ریاست اور ریاستی کارپوریٹ میڈیاکی توجہ کا مرکز محنت کشوں کی تحریکوں کے بجائے OLX پر بیچے جانے والے سامان اور رمضان میں بیچے جانے والا عقیدہ ہے ۔ دوسری طرف یہ مراعات یافتہ طبقے کے برگر انقلابی اور پیرمُریدی والے انقلابی ہیں جنہیں یہ دلال میڈیا کوریج دیتے نہیں تھکتا۔ ہر چینل پر یہ موسمی انقلابی چھائے ہوئے ہیں۔ طاہرالقادری کے روحانی انقلابی اور پاکستان تحریکِ برگر کے جُملہ کارکنان ایک بے کار سا ڈرامہ رچا کر ہر چینل و اخبار پر چھائے ہوئے ہیں۔

پس ثابت یہ ہوتا ہے کہ اس سرمایہ دار ریاست اور اس کے اداروں کو حقیقی عوامی مسائل سے کوئی غرض نہیں ہے، اسے غرض ہے تو ہمارے وسائل سے اور اپنے مُنافعے سے۔ انہیں گلگت بلتستان چاہئے، گلگتی اور بلتستانی نہیں چاہئے ، انہیں بلوچستان چاہئے مگر بلوچ نہیں چاہیئے، اور یہی صورتحال سندھ اور پشتونخواہ کیلئے بھی ہے۔ ایسے تعصُب بھرے نظام کی غُلامی سے اگر نجات پانا ہے تو پھر بھرپور عوامی مُزاحمت جاری رکھنی پڑے گی کیونکہ بقول مارکس ہمارے پاس کھونے کیلئے سوائے زنجیروں کے کچھ بھی نہیں ہے۔ ا پنی حقِ خود ارادیت کو یقینی بنانے کی خاطر اہلِ شعور، اساتذہ، دانشور ، ترقی پسند رہنماوں، ادیب، شعراء اور طُلبہ کوبڑے پیمانے پرعوامی ذہن سازی کرنی ہوگی آخر کار فکری اور شعوری آذادی جغرافیائی آذادی سے بڑھ کر ہوتی ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button