میرغضنفر کا سیاسی اقتدار میں خاندانی حصار
ایم ایم قیزل
ماہ ستمبر ۱۹۴۶کو میر محمد جمال خان کی تاج پوشی ہنزہ میں پولیٹیکل ایجنٹ گلگت میجرکاب کی زیر نگرانی بڑی دھوم دھام سے ہوئی جسمیں بالاورستان / بروشال کے میروں و راجاوں وغیرہ نے شرکت کی ۔ ہنزہ والوں نے اپنی
روایات کے مطابق تین دن تک جشن منایا اور بھر پور مسرت کا اظہار کیا. ایسا نہیں تھا کہ ہر کوئی میری نظام سے نفرت کرتا تھا بلکہ میر آف ہنزہ سے ہنزہ کے لوگ دل و جان سے محبت بھی کرتے تھے۔ ۔میر جمال خان بذات خود اصلاح پسند آدمی تھے مگر زمانے کی نزاکتوں سے بے خبر تھے۔ اس نے وہ تمام ٹیکس جو انکے آباواجداد نے رائج کئے تھے سب معاف کیے ۔ علم حاصل کرنے کے لئے کسی پر بھی کوئی قدغن نہیں لگایا ۔ وہ چاہتے تھے کہ ہنزہ کے نوجوان علم حاصل کرئے کیوںکہ سر آغاخان سوئم نے انہیں تاکید کی تھی کہ انکی جماعت کو انگریزی ،عربی اور دوسری زبانیں سکھنے کی حوصلہ افزائی کرائے۔ اور میر جمال خان خود اسماعیلی سپریم کونسل فار سنٹرل ایشاء کے صدر بھی تھے ۔
پھر ایسا کیا ہوا کہ میری نظام کے خلاف ہنزہ کے تعلیم یافتہ نوجوان اٹھ کھڑے ہوئَے ؟
ہنزہ کے تعلیم یافتہ نوجوان جو کہ اس وقت کراچی میں مقیم تھے وہ ہنزہ میں اصلاحات چاہتے تھے وہ ہنزہ میں بہترین تعلیمی درسگاہیں، علاج ومعالجے کی اچھی سہولتیں، روزگار کے مواقعے وغیرہ چاہتے تھے ، مگر میر کے درباری ان نوجوانوں اور میر کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ میر اور عوام میں ایک خلا پیدا ہو چکا تھا ۔ ان اکابرین کی مخالفت نے میر آف ہنزہ کے خلاف طلباء کو مظاہرہ کرنے پہ مجبور کیا۔ جب میر آف ہنزہ کے خلاف اندرونی خلفشار نظر آیا تواسوقت کے پیپلز پارٹی پاکستانی حکومت نے اپنے اثر و رسوخ سے ان نوجوانون کی حوصلہ افزائی کی اور میرکے خلاف بغاوت پر اکسایا۔ ہنزہ کے نوجوان طالب علموں نے اپر ہنزہ پھسو گاوں میں پی پی پی کا پہلا دفتر کھولااور یوں پیپلز پارٹی کے رہنماوں کا ہنزہ آنا شروع ہوا۔ جب وزیر اعظم پاکستان ذولفقارعلی بھٹو کے حکم پر صدر پاکستان چودھری فضل الہی ہنزہ تشریف لائے تو ہنزہ کے لوگوں نے پیپلز پارٹی کے جیالوں کو خوب مارا پیٹا۔ بھٹوصاحب کو یہ ناگوار گزرا اور ۲۴ ستمبر ۱۹۷۴ کو ریاست ہنزہ وریاست نگر کو ختم کر کے پاکستان میں شامل کرنے کا اعلان کیا ۔اور بس قصہ مختصر یوں عایشو خاندان کا ہنزہ پر حکومت ختم ہوئی۔
آج پھر میر غضنفر علی خان وہی غلطی دہرا رہے ہیں جو میر جمال خان نے کی۔ میر صاحب سیاسی اقتدار حاصل کرتے ہی خاندانی حصار بنا چکے ہے۔ اپنے ارد گرد بیٹھے حضرات کی خوش آمد پر خوش ہے۔ ہنزہ کے پڑھے لکھے حضرات کیا چاہتے اس سے ان کا کوئی سروکار نہیں۔ وہ اپنی گھر تک محدود ہو گئے ہیں جو انکی اورانکے اولاد کے سیاسی کریئر کو ہمیشہ ہمیشہ ختم کر دے گی ۔انہیں موروثی و خاندانی سیاست سے نکلنے کی ضرورت ہے۔
آج ہنزہ کا بچہ بچہ برابری چاہتا ہے ۔ انصاف چاہتا ہے ، اپنی حقوق کے لئے آواز بلند کرنا چاہتا ہے۔ ہنزہ ایک نڈر، بے باک، غیور، دور اندیش، قابل ،بے لوث اور بےغرض رہنما چاہتا ہے۔ ہنزہ میرٹ کی بالادستی اور انصاف چاہتا ہے۔ ہنزہ تکثریت و گوناگونی چاہتا ہے ، ہنزہ اب کسی خاص فکری سوچ سے نکل کرزمانے کے اصولوں کی پاسداری چاہتا ہے، ہنزہ این جی اوز کے فنڈ نہیں بلکہ شہری حقوق چاہتا ہے ۔ ہنزہ لسانی، نسلی یا علاقائی تعصب کے دلدل سے نکلنا چاہتا ہے،ہنزہ والے آج کسی عایشو کے ذیر اثر نہیں بلکہ انکے سماج ،انکی معاشی و معاشرتی اوپر نیچے سے وقف ، انکے درمیان رہنے والا یا والی ، انکے دکھ درد کو سمجھنے والا ، کسی فرد کو اپنا رہنما چننا چاہتے ہیں۔ اور یقینا یہ گلگت بلتستان کا ہر فرد چاہتا ہے۔
مگر میر صاحب کو عوامی مینڈیٹ ملتے ہی اپنے گھر کوہی ہنزہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ جناب والا آپ بخوبی جانتے ہیں کہ آپ کے آباواجداد نے ہنزہ کو انتظامی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا تھا گوجال ، سنٹرل اور لور ہنزہ ،اب تک آپ تین کجا ایک انتظامی حلقے کے ساتھ انصاف نہ کر سکے ۔ خود گورنر ہمیں خوشی اور قابل فخر لیکن مشیر اپنا بیٹے کو رکھنا اور خواتین کی مخصوص نشت پر رانی صاحبہ اور اب کے انتخابات میں شہزادہ سلیم کو لے آنا کی کوشش ، کہاں کا انصاف اور عوام دوستی ہے ؟ آپ کو عوامی شکایات اور خواہشوں کا علم ہیں؟ اہل گوجال کی محرومیاں اور ایک الگ سیٹ کا مطالبہ ، متاثرین عطاآباد پر ریاستی دہشت گردی،پچھلے چھ سالوں سے متاثرین عطاآباد کا مذہبی و سیاسی طور پر استحصال، وغیرہ جیسے ناانصافیاں ان حالات میں کیسے حل کریں گے ؟ آپ تو اپنے گھر کے ہی ہوگئے ہیں ۔
میرصاحب وقت بہت بدل چکا ہے۔ زمانے کی نزاکت کو سجمھ لیجے، بات صرف ان پانچ سالوں کی حکومت کا نہیں ہیں ۔آپ سے گلگت بلستان کے توقعات وابستہ ہیں۔ عوام میں پذیرائِی چاصل کرنا چاہتےہوتو اپنے اردگرد موجود ڈرائیور حضرات کی جگہ ہنزہ کے تعلیم یافتہ لوگوں رکھے ، ان سے مدد لے ، اپنی انا اور چاردیواری سے نکل کر عوامی خدمت کرے، ہنزہ کی نمائندگی ہنزہ والوں سے ہی کرائے نہ کہ اسے اپنی گھر تک محدود رکھے۔ ورنہ میری نظام کی طرح آپکا مورثی سیاسی مسقبل بھی ختم ہوسکتا ہے ۔کیونکہ آج بھی ہنزہ کے تعلیم یافتہ نوجوان ایسے تمام غیر مہذب، غیر قانونی، ناانصافی پر مبنی اقدامات کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ آپ کو ان ممالک سے سیاست سیکھنی چاہیےمثلا برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک جہاں موروثی بادشاہت ہونے کے باوجود ان کے خاندان کے افراد عمومی طور پر اقتدار کے ایوانوں سے دور ہی رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے انکی عزت و احترام اب بھی موجود ہے۔مگر جناب والا آپ اقتدار میں آتے ہی خاندانی حصار بنا چکے ہیں۔
ایک کمنٹ