تعلیمکالمز

مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے

تحریر: محمدجان رحمت جان

Jan Muhammadعالمی منظرنامے میں قوموں کی عروج وزوال کی کہانیاں بھری پڑی ہیں۔ ساتوں براعظموں میں کوئی ملک ایسی نہیں جو کسی نظریے اور خیال کے بغیر وجود میں آئی ہو۔ اس سفر میں قومیت‘ مذہب‘ ثقافت‘ زبان‘ رنگ‘ نسل اورجغرافیائی بنیادیں کردار ادا کرچکی ہیں۔ ان ہی بنیادوں پر لوگوں نے ایک دوسرے کے خلاف گٹھ جوڑ اور سازباز کی تحریکوں کی شروعات کی ہے۔ ان تحریکوں کی ذد میں ایسے اقوام بھی آئے جو جنگ و جنوں سے واقف بھی نہیں تھے۔ یورپ‘ ایشیاء‘ امریکہ‘ افریقہ اور آسٹریلیا کے اقوام نے ان تحاریکوں سے بہت کچھ سیکھا اور اپنی بقا کے لئے بے شماراقدامات کئے۔ وقت اور حالات کی ترقی نے انسانیت کو مادی ترقی کی نئی راہیں فراہم کی۔ انسان پتھرکے زمانے سے زراعت کی دنیا میں داخل ہوا۔ زرعی اجناس اورنئے نئے خوراک کے ذرائع نے انسانیت کی غذائی ضروریات میں انقلاب پرپا کیا۔ نت نئے کھانے اور مصالحہ جات کی دریافت نے زرعی کاروبار کو وسعت دی اور میدانی علاقوں پر قبضے کی مہمات کا آغاز ہوا۔ آبی ذخائر اور میدانی علاقوں میں آباد لوگوں کو بے دخل کیا گیا اور قتل وغارت کی دنیا میں زرعی مقاصد کی تکمیل ہوتی رہی۔ مال کے بدلے مال اور ذرعی اجناس کی لین دین نے لوگوں کو ہجرت جیسے نئے اقدام سے بہرہ ور کیا۔ لوگوں میں ملن اورنئے برادریوں کی شروعات ہوئیں۔ گل ملنے کی اس روِش نے نئے اقوام کو جنم دیا۔ زبانیں پھیلنے لگی۔ ثقافتوں کا تبادلہ ہوا۔ اس سفر میں طاقت ور کی بازی ہمیشہ غریبوں کی زوال کا سبب بنی۔ زرعی دور ہی سے انسان نے جانوروں کے ساتھ تعلق کی بنیاد مستحکم کی اور گوشت‘ دودھ ‘ گھی اور کھاد جیسے اہم ضرورتوں کو پورا کیا۔ اس دور میں نئے نئے آبپاشی کے نظام متعارف ہوئے۔ نہریں نکالی گئی۔ آباد کاری کا سلسلہ انسانیت کو زراعت سے صنعت میں لے آیا۔ ہوشیار قوموں نے بڑی بڑی مشنیں بناڈالی اور زراعت میں انقلاب برپا کیا۔ یہی وہ وجوہات تھی جس کی وجہ سے کچھ قومیں خاص کر یورپ کے اقوام دولت کے لحاظ سے دوسری اقوام سے بازی لے گئے۔ ان کی اس طاقت نے ان کو بہت گمنڈ بنادیا اور دوسری قوموں پر یلغار کا سلسلہ نئی رخ کے ساتھ آگے بڑھا۔ اب ہونا کیا تھا کہ نقل وحمل کے زرائع کی کمی تھی۔ یورپ کے لوگوں نے اس بیڑے کو بھی اٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے زرائع وآمدرفت کی نئی بے شمار چیزیں وجود میں آئی۔ جن میں سمندری تجارت‘ زمینی تجارت اور ہوائی سفر کا آغاز ہوا۔ اس تخلیقی سفر نے انسان کو ایک نئی دنیا فراہم کی اور پوری دنیا کے ساتھ تعلقات کو باہم منسلک کرنے کے زرائع بھی وجود میں آئے۔

تعلقات عامہ کے اس دور نے پچھلے تمام دریافتوں کو پلک جھپکتے ہی پوری دنیا میں پھیلا دیا۔اس مادی ترقی نے مذہبی حلقے کو ہلا کے رکھ دیا۔ کلیسا اوردھرم نے اپنی مستقبل سے خوفزہ ہوکر ایک حد تک اس پوری ترقی کو رد کرنے کی سعی کی۔ کہیں سائنسدانوں اور مفکرین کے خلاف فتوے لگائے گئے سقراط جیسے عالم وفاضل کو بھی زہر کا پیالہ پینا پڑا۔ گلیلیو کے نظریہ کشش ثقل کو ماننے سے انکار کیا گیا۔ دین ودنیا کے معاملات میں تصادم کی وجہ سے بڑی بڑی مشکلات نے جنم لیا۔ قتل وغارت اور فساد کے بڑے دور کے بعدکلیسانے اپنی راہیں الگ کی لیکن سماجی وسیاسی شعور دینے میں انتظامی معاونت کی۔ دین ودنیا کے معاملات کے الگ الگ ہونے کی وجہ سے دونوں نے اپنی بقاکی جنگ دن رات لڑی اور اپنے اپنے محاز پر ترقی کی منازل طے کی۔ کروڑوں کتابیں لکھی گئیں اور اخلاقیات و معاملات کی راہوں کو متعین کیا۔ بحرحال اس تبدیلی کا دیگرمذاہب پر بھی گہرا اثر ہوا اور عقیدے اورمادی ترقی کی راہیں جدا ہوگئیں۔ مغربیت اور مشرقیت نے اس سفر میں اپنے اپنے کردار کی خوب عکاسی کی۔ اقدار اور روّیے بدل گئے۔رہن سہن اور سماجی ترقی کی وجہ سے انسان نے منفرد دنیا بنا ڈالی۔ جس کی وجہ سے تین طبقوں کا جنم ہوا۔ قدامت پسند‘ اعتدال پسند اور جدت پسند۔ ان تین طبقات کی سوچ نے معاشرے کو بہت متاثر کیا۔ انہی کے درمیان اب کسی نہ کسی محاز پر مختلف انداز میں سرد جنگ جاری ہے۔

ان تمام چیزوں سے بے خبر قومیں اس نئی دنیا سے خوف زدہ ہیں اور ان کے راہنماؤں نے اس ترقی کی اپنے حدود میں تشریحات کی کچھ نے اس ترقی کو اُن کی ثقافت کے خلاف قرار دیا کچھ نے اس سے فائدہ لینے کی تیاری کی اور کچھ نے ان کے خلاف محاز کھول دیا۔ زبان‘ ثقافت‘ روایات‘ قومیت‘ رنگ و نسل کے تحریکوں نے جنم لیا اور قومیں دست وگریباں ہوگئیں۔ ایک دوسرے پر بالا دستی کے نشے میں بہت سے قومیں نیست ونابود ہوئی اور کچھ اپنے گمنڈ کے آسمان پر چمکنے لگے۔ اس ترقی کی رفتار کی وجہ سے سادہ لوح مذہبی لوگ خوف ذدہ ہوگئے اور اس سے بچنے کے لئے راستے ڈھونڈنے لگیں۔ زبان‘ مذہب‘ ثقافت‘ روایت اور تاریخ کے اس اہم موڑ پر لیڈروں نے اہم کردار ادا کیا اور اپنی ساکھ بجانے کے لئے بندوق کا سہارا لیا۔ کچھ ہوشیار قوموں نے دشمن کی زبان کو سمجھ لیا اور ان کو ان کی زبان میں شکست دی۔ ملکی مفادات کے حصول میں بڑے ملکوں کو کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن مغرب والوں نے یہ روّیہ اپنا؛
تعلیم کے تیزاب میں ڈال ان کی خودی کو
ہوجائے ملائم تو جدھر چاہے ادھر پھیر (اقبالؔ )

بندوق کی ایجاد ہی دشمن سے نجات کے لئے کی گئی تھی لیکن اس کا نتیجہ کچھ اور نکلا جہاں بندوق نے دشمن کو کچلنے میں کردار ادا کیا وہاں اپنوں کو بھی بڑی حد تک نقصان پہنچایا۔ یہی بندوق۔۔۔ اب بم تک کی شکلیں اپنا چکا ہے۔
مشرقی سر دشمن کو کچل دیتے ہیں
مغریبی ان کی طبیعت کو بدل دیتے ہیں(اقبالؔ )

اس تناظر میں دولت‘ زمین‘ وسائل‘ طاقت‘ مذہب اور دیگر چیزوں کو بچانے کا ایک ہی حل سامنے آیا اور وہ ہے ’’علم‘‘ کا حصول۔ تسخیرکائنات کا سبب ہی علم ہے۔ دوست دشمن سب کی نجات علم و تربیت میں ہے۔ جہالت‘ تاریکی اور جہل سے نجات بھی تعلیم ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایاہے کہ’ کہو کیا عالم اور جاہل ایک ہوسکتے ہیں؟‘ جاننے اور علم کا راستہ ہی اس پوری کہانی کا محورہے۔ لاعلمی کا تصادم ہمارے زمانے کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ بنی آخرزمان صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دشمن کے قیدیوں کو تب تک رہا نہیں کیا جب تک انہوں نے مسلمانوں کو علم نہیں دیا۔ جنگ وجدل ہو یا زمانہ امن علم اور جاننے کی حس ہی ترقی کا سبب ہوسکتی ہے۔ تعلیم عام کرنے سے جہالت ختم ہوسکتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جہالت کوئی چیز نہیں ایک دوسرے کے بارے میں نہ جاننا جہالت ہے۔ یہی وجہ سے قوموں کے تصادم میں علم وعمل نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ تہذبوں کے تصادم کی ایک وجہ ’جہالت‘ ہے۔ جہالت ہی لڑائی کا سبب ہے۔ جب قومیں ایک دوسرے کے بارے میں جاننا شروع کردیں گے تو تصادم کی نوبت ختم نہیں تو کم ضرور ہوسکتی ہے۔ علم کا حصول سب کے لئے ہونا چاہئے چاہئے وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو۔

ہمارے ملک میں لاکھوں بچے تعلیم کی نعمت سے محروم ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو آگے بڑھ کر اپنی زندگی میں مسائل کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ان مسائل سے نکلنے کے لئے وہ کوئی بھی راستہ منتخب کرسکتے ہیں۔ اس لئے تعلیم کے دروازے سب کے لئے کھولنے چاہئے۔ ایک اور معاملہ تعلیم میں توازن کا ہے ریاست جب تک امیر غریب کے لئے متوازن نصاب کا بندوبست نہیں کریگی مختلف ممالک اپنے مسالک کی آڑ میں مداخلت کرسکتے ہیں۔ جو ملکی سلامتی کے لئے ہرگز ٹھیک نہیں۔ ریاستی تعلیمی اداروں کو پورے ملک میں متوازن نصاب کو رائج کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملکی آئین اور تعلیمی مقاصد کی روشنی میں آگلی نسل کو علم کے نور سے منور کیا جاسکیں۔ ورنہ ہر مسلک کے لوگ اپنے مراکز سے پُرآشوب ماضی خاص کر قرن وسطیٰ کے روایتی علوم پر مشتمل نصاب سے استفادہ کرلیں گے جس کی وجہ سے نئی نسل ایک دوسرے کو کبھی بھی قبول نہیں کر سکے گی۔ ملکی نظریاتی وجغرافیائی سرحدات کی حفاظت کے ساتھ بین الاقوامی تعلقات عامہ سے بھرپور متوازن نصاب اور سکولوں کا نظام ہی ہماری ماضی کو نئی امید کے ساتھ بقائے باہمی سے گزارنے میں مدد دے سکتا ہے۔
امید ہے افواج پاک کی نئی عزم سے تعلیم ہی جہالت وبربادی سے نجات دلائے گی۔ ہماری قوم بچوں کو مارنے کے بجائے دشمن کے بچوں کو بھی انسانیت کی راہ پر لے آئیں گے بھلے وہ آستین کے سانپ ہو یا کوئی اور۔ گوناگونی اور تکثیریت پر مبنی ماؤرائے سرحدات انسانیت کی روح پر مشتمل نصاب ہی ان تمام مسائل کا حل ہوسکتا ہے۔
زندگی ہو میرے پروانے کی صورت یا ربّ
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا ربّ (اقبالؔ )

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button