سالِ نَو ۔عزمِ نَو
الواعظ نزار فرمان علی
ٓٓٓ’’کیا تم نے غور نہیں کیا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تابع کر رکھا ہے اور اس نے تم پر اپنی ظاہری اور با طنی نعمتیں پوری کر رکھی ہیں‘‘(القرآن)
سال نو کے موقع پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد ۔جہاں کیلنڈر میں ایک سال کا اضافہ ہوا وہاں ہماری زندگیوں کا ایک سال کم ہواجو کہ غور طلب بات ہے۔ سال گز شتہ ایک خواب کی طرح محسوس ہوتا ہے جو لمحوں میں گزر گیا اور زندگی بھر کیلئے تلخ و شیریں یادیں چھوڑ گیا۔ بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والے واقعات،تنازعات،ٹکراؤ اور مفاہمتیں، مسلم ممالک کو درپیش چیلنچز اور وہاں پائی جانے والی شورش، ملک میں سیلابی ریلے،زلزلے،دردناک حادثات،دلخراش سانحات،مصنوعی و حقیقی بحران اور مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ،سیاسی گرما گرمی،جوڑ توڑ اور کئی سطح کے انتخابات اور اس کے نتیجے میں میدان میں آنے والے لیڈران اور ان کے نئے پلان اوربہت کچھ۔ بہرحال ہمیں وسیع القلبی اور وسیع النظری سے سنہ 2015 کے گوناگوں احوال سے سبق لیتے ہوئے نئے سال کویقین محکم،عمل پیہم اور حکمت و دانائی سے مایوسیوں کو عزم و حوصلے میں،ناکامیوں کو کامرانیوں میں،اور جہالت،جبر واستبداد کو دانائی حریت اور رواداری میں ڈھالنا ہے۔ایسا مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔
سالِ نو پرعاجزانہ دعا ہے کہ خدائے بزرگ وبرتر اپنے عظمت وجلال اوراپنے پیارے حبیب سرورکونین حضرت محمد مصطفیؐ کی عصمت و فضیلت کے صدقے سے نیا سال رحمتوں، برکتوں ، احترام ومحبت ، ایثار و قربانی، تعمیر ، ترقی و خوشحالی کا سال ثابت ہو، ڈوبتے ہوؤں کو سہارا مل جائے، بھٹکے ہوؤں کو راہِ منزل ملے، بے بہرہ لوگوں کو حقیقی سمجھ نصیب ہو ، ظالموں کو ظلم سے اور مظلوموں کو کسمپرسی سے چھٹکارا حاصل ہو۔ جو نفوس قضائے الہیٰ سے بچھڑ گئے ہیں اللہ انہیں غریقِ رحمت فرمائے، دشمنی دوستی میں اور عداوت ، ہمدردی میں بدل جائے، تنگدستی کشادگی رزق میں ، بیماری حقیقی صحت میں ، غفلت و نادانی علم و آگاہی میں ڈھل جائے، فقط لوگ اپنوں ہی کے کا م نہ آئیں بلکہ ہم سے اجنبی اور غیروں کو بھی راحت نصیب ہو ،دین ،ملک اور سماج دشمن عناصر سے ملک و ساری دنیا کو امان عطا ہو، متاثرہ لوگوں کو صبر، شکر اور راہ حق پر استقامت ملے اور معصوم شہداء کی ارواح کو بلند درجہ عطا ہو۔خدا وندِ متعال نیا سال عالم انسانیت،امت اور اہل وطن کیلئے سلامتی،خوشی،ترقی اور کامرانیوں کی توفیقات کے طورپرقبول فرمائے۔(آمین )
دائرہ معارف کے حوالوں سے،سال و ہ مدت جوکرہ ارض کو سورج کے گرد چکر لگانے کیلئے درکار ہوتی ہے جنتری میں سال ۳۶۵دن کا ہوتا ہے،سن یا سمت کا شمار کسی اہم تاریخی واقع سے کیا جاتاہے۔ایرانی بادشاہوں میں ساسانی دور تک کسی تاجدار کی مسند نشینی کے دن سے نئے سن کا آغازہوتا۔بکرمی سن راجہ بکر ماجیت سنگھ کی ساکھا قوم پر فتح حاصل کی یاد میں شروع کیا گیاتھا۔حضرت عیسٰی ؑ کی پیدائش کے دن سے سن عیسوی کی ابتداء جبکہ یہودی سن۳۷۰۰ قبل از مسیح سے شروع ہوتا ہے،اسلامی کیلنڈر رسول اکرمؐ کو کفار مکہ کے ظلم وجور پر اللہ کے حکم سے جس دن آپ ؐ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے اس دن ’’یکم محرم‘‘ سے سن ہجری کا آغاز ہوتا ہے۔یکم جنوری عالم سطح پر نئے سال کے طور پر بڑے جوش وخروش سے منایا جاتا ہے،اس موقع پر دنیا کے مختلف ممالک میں سرکاری تعطیل ہوتا ہے۔بلاشبہ ایسی گھڑیاں افراد ،معاشروں اورتہذیبوں میں باہم ربط و تعلق قائم کرنے،ایک دوسرے کو بہترطورپر جاننے اور سمجھنے ،مشترکہ مسائل وچیلنجز کوباہم نبرد آزما ہونے اور ایک دوسرے کی خوبیوں اور خوشیوں میں شامل ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
رات و دن ، ماہ و سال اور زمان و مکاں میں تغیر قانونِ فطرت کا حصہ ہے جسے کلام پاک میں اللہ تعالیٰ اپنی عظیم نشانیاں قرار دیتا ہے، اور کیوں نہ ہو ہر گزرنے والا لمحہ سیکنڈ، منٹ، گھنٹہ ، دن و ہفتہ ماہ و سال، عشرہ و صدیاں وغیرہ گردشِ لیل و نہار کے باعث وقوع پذیر ہوتی ہیں ۔زمان و مکان اور لیل ونہار کے تغیرات سے وقت کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔اس امر کو قرآن میں نہایت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔اللہ رب العزت نے وقت کی قسم کھائی ہے سورۃ العصر میں خداوند تعالی ان لوگوں کے خسارے/ نقصان میں ہونے کا اعلان کرتا ہے جو خدا کی عطا کردہ مقررہ زندگی میں دین کی بنیادی حقیقتوں کو ماننے اوراس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے سے قاصر ہیں۔اور سماوی تعلیمات کے مطابق نفع اور اجر عظیم ان لوگوں کیلئے ہیں جو اللہ کی بخشی ہوئی زندگی کی نعمتوں اور اس کے ایک ایک قیمتی لمحے کی قیمت کو جانتے ہوئے کماحقہ ایمان لاتے اور نیک اعمال انجام دیتے ہیں اورایک دوسرے کو حق بات کی وصیت اورصبر کی تلقین کرتے ہیں ۔سورۃ العصر کی تفسیر بیان کرتے ہوئے امام فخر الدین رازی بیان کرتے ہیں میں نے سورۃ العصر کا مطلب ایک برف فروش سے سمجھا جو بازار میں آوازیں لگا رہا تھا کہ رحم کرو اس شخص پر جس کا سرمایہ پگلا جارہا ہے اس کی یہ بات سن کر میں نے کہا یہ ہے ’’والعصر ان الانسان لفی خسر‘‘ کا مطلب ،عمر کی جو مدت انسان کو دی گئی ہے و ہ برف کے پگھلنے کی طرح تیزی سے گزر رہی ہے اگر اس کو ضائع کیا جائے یا غلط کاموں میں خرچ کیا جائے تو خسارہ ہی خسارہ ہے اور خسران و محرومی ان لوگوں کیلئے ہے جنہوں نے وقت کی قدر نہیں کی اور ساری عمر اور فرصت برباد کردی۔بلاشبہ وقت ایک بہتے ہوئے دریاکے پانی کی مانند ہے جو ایک بار گزر جائے تو دوبارہ ہاتھ نہیں آتا۔صحت،دولت ،زمین اور کھوئی ہوئی چیزیں دوبارہ مل سکتی ہیں لیکن ایک دفعہ ہاتھ سے نکل جانے والا وقت دوبارہ نہیں مل سکتا۔کہتے ہیں کہ ایک سال کی قدر جاننا چاہتے ہو تو اس طالب علم سے پوچھو جو اپنے سالانہ امتحانات میں ناکام رہا ہے،ایک ماہ کی اہمیت اس ماں سے پوچھو جس نے قبل از وقت بچہ جنا ہے،ایک ہفتہ کی قیمت ہفت روزہ میگزین کے ایڈیٹر سے معلوم کریں،ایک دن کتنا اہم ہوتا ہے اسے جانئے دھاڑی پہ کام کرنے والے مزدور سے جس پر پورے کنبے کا انحصار ہے۔گھنٹے کی اہمیت اس شخص سے جانئے جو اپنے جگری دوست سے ملاقات کیلئے بے تاب ہے،منٹ کی قدر ٹرین چھوٹنے والے سے معلوم کریں،سیکنڈ کی قیمت حادثے میں بچ جانے والے خوش قسمت انسان سے پوچھئے اور ایک منٹ کے ملین ویں حصے کا راز اس شخص سے جانئے جس نے بین الاقوامی مقابلے میں گولڈ مڈل جیتا ہے۔
وہ وقت بھی دیکھا تاریخ کی گھڑیوں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
قوانینِ کائنات دراصل فطرت اللہ و سنت الہٰی کے پابند ہیں۔جنکے مظاہر زمان و مکان میں نظر آتے ہیں اور انہی پیمانوں میں ہماری زندگی ماضی،حال اور مستقبل کے آئینے میں جلوہ گر ہوتی ہے۔زمان ومکان کی حد بندیوں کے باوجود پروردگار نے اس ا عجوبہ قدرت میں انسان کو مرکزی حیثیت عطا فرمائی ، ہمیں احسن تقویم پر پیدا کیا،سمع،بصرو افئدہ(حواس )کو عقل و اختیار سے آراستہ وپیراستہ کیا اور اپنا نائب و ،مسجود و ملائک بنا کر ساری انسانیت کو نوید سنا دی کہ جو بندہ میری ہدایت پر نیک نیتی،سچے ایمان و عملِ صالح کی روشنی میں آفاق و انفس میں جستجوئے حقیقت کرتا رہے گا تومیں اُسے کائنات سے بھی ماوراء کردوں گا۔خدا اپنی سنت کے متعلق ارشاد فرماتا ہے جسکا ترجمہ یہ ہے ’’ ہر روز ہماری ایک نئی شان ہوتی ہے‘‘۔(القرآن)بلاشبہ شانِ ایزدی کی جھلک زمین و آسمان اور زمان ومکان میں ہر آن گوناگون و پُرحکمت صورتوں میں نظر آتی ہیں جسکی ایک اہم تشریح آنحضرت ؐکی حدیث مبارکہ سے بخوبی ہوتی ہے جس کے مطابق مومن کے دو دن ایک جیسے نہیں ہوتے یعنی کل سے آج اور آج سے آنے والا کل بہتر ہوتا ہے۔ کیونکہ گزرا ہوا لمحہ تاریخ بن گیا،آنے والا وقت (کل) غیر یقینی اور غیر حتمی ہے جبکہ ہمارے پاس حال قدرت کا ایک ایسا انمول تحفہ ہے جس کے صحیح مصرف سے نہ صرف ماضی (تاریخ) کو زندہ اور آنے والے وقت کو روشن و تابندہ بنا سکتے ہیں۔ علامہ اقبال بھی ا س جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
گو یامحنت کا نتیجہ کامیابی ہے، نیکی کا انعام خوشی،بدی کا انجام رنج، عدل کا امن،مساوات کاخوشحالی،محبت کااعتماد،عاجزی و انکساری کا بزرگی اورجستجوو جہد مسلسل کا ثمر خود انحصاری و خودمختاری ہے۔یہ وہ مسلمّہ قوانین ہیں جو مسلم و غیر مسلم ،اہل مشرق و مغرب،مرد و زن اور چھوٹے بڑے سب پر یکساں طور پر لاگو ہوتے ہیں جو انہیں تسلیم کرتا ہے دنیا پہ راج کرتا ہے اور جو ان سے انحراف کا راستہ اختیار کرتا ہے وہ حیاتیاتی اعتبار سے زندہ ہوتے ہوئے بھی اخلاقی و تمدنی لحاظ سے موت کا شکار ہو جاتا ہے۔انہی بنیادوں پر اقوام عالم کے ساتھ مسابقت (سروائیول آف دی فٹسٹ )یعنی زندہ رہنے اور بقاء کی جنگ کے تقاضوں کے مطابق خود کفالت و خود انحصاری پر گامزن رہتے ہوئے صارفین علم و دانش سے بڑھ کر موجدینِ علم ودانش، لینے والے ہاتھ کی بجائے دینے والے ہاتھ بن سکتے ہیں۔
الحمدُللہ آج جبکہ سن2015ء اپنے اختتام کو پہنچ چکا اور سن2016ء کا آغاز ہوگیا ہے یہ ہمیں سنہری موقع فراہم کرتا ہے کہ اپنے ماضی کے اعمال و افعال کا محاسبہ کریں اور آئندہ وقتوں کے لئے جامع اور بہترین حکمت عملی تشکیل دیں۔ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کیا کھویا اور کیا پایا اور کیوں کھویا اور کیسے پایا یعنی جو کھویا اُسے دوبارہ حاصل کرنے اور جو پاچکے ہیں اُسے سنبھالنے کیلئے موئثر تدبیر مرتب کریں۔ ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ جو فرائض ہم پہلے انجام نہ دے سکے انہیں آئندہ وقتوں میں اور جو غلطیاں ہم سے پہلے سر زد ہوئی ہیں ان کاازالہ اس سال یعنی آج سے کر نے اور اپنی خوشیوں میں بلاتفریق دوسروں کو بھی شامل کرنے کا تہیہ کریں ،ہمیں دوسروں پر انگلی اُٹھانے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکنے کی جرات کرنا ہوگی ۔اور ہم سب اپنی اپنی جگہوں پر اپنی ترجیحات کو عمدہ بنائیں،خوف خدا اور خدا ترسی کو ہمیشہ پیش نظررکھیں،دوسرے کیاکرتے ہیں اس میں الجھنے کی بجائے ہم اپنے معاملات کودرست رکھیں اور اپنے پیارے ملک،ملت اور علاقے کے مفاد کو اپنے ذاتی مفادات پر ہمیشہ مقدم رکھتے ہوئے پوری لیاقت ،دیانت ،غیر جانب داری اور خلوص دل سے آخری دم تک کوشاں رہینگے تو انشاء اللہ یہ نیا سال اٹھارہ کروڑ عوام کے لئے امن،سلامتی،بھائی چارہ ، ترقی اور سربلندی کا سال ہوگا۔میں اپنے مضمون کا اختتام قرآنی دعاؤں سے کرتا ہوں ’’ اے ہمارے پروردگار ہمیں ہدایت عطا کرنے کے بعد ہمارے دلوں میں کجی (ٹیڑھا پن) پیدا نہ ہونے دینا اور ہمیں اپنے حضور سے رحمت مرحمت فرما،بے شک تو ہی بہت عطا کرنے والا ہے‘‘
’’ اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی نیکی عطا فرما اور آخرت میں بھی نیکی دے اور ہمیں (دوزخ) کی آگ سے بچا‘‘(آمین یارب العالمین)