کالمز

فورس کمانڈر گلگت بلتستان اور صوبائی حکومت سے توجہ کی اپیل

تحریر: شجاع بلتستانی

اسلام نے مرد اور عورت دونوں کو تعلیم کا حصول ضروری قرار دیا ہے بلکہ عورت کی گود کو بچے کی اولین درسگاہ قرار دے واضح کردیا ہے کہ عورت کا تعلیم یافتہ ہونا نہایت ضرورہے گویا ایک مرد کا تعلیم یافتہ ہونا ایک فرد کا تعلیم یافتہ ہونا ہے جبکہ ایک عورت کا تعلیم یافتہ ہونا ایک خاندان کے تعلیم یافتہ ہونا ہے یہی وجہ ہے کہ معروف ملاسفر ارسطو نے کہا تھا کہ مجھے پڑھی لکھی مائیں دو میں تمھیں ایک بہتری قوم دوں گا۔ اسی طرح باشعور قومیں عورتوں کی صحت کو بھی اولین ترجیحات میں رکھتے ہیں کیونکہ ایک عورت ہی ایک خاندان کو جنم دیتی ہے اور اُس عورت پر ہی اُس خاندان کی صحت کاانحصار ہوتا ہے ۔یہ بات بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ جو قومیں تعلیم اور صحت کو نظر انداز کرتیں ہیں وہ دُنیا میں ذلیل و رسوا ہوتیں ہیں اور جن قوموں نے تعلیم اور صحت کو اولین ترجیحات میں رکھا وہ نہ صرف ترقی یافتہ قو موں کی صف میں شامل ہوئیں بلکہ دیگر اقوام کے لئے قابلِ تقلید بھی بنیں۔کوئی بھی مُلک یا صوبہ یا پھر مخصوص علاقہ جب تک پورے مُلک،صوبے اور علاقے پر یکساں توجہ نہ دے وہ کسی طور ترقی حاصل نہیں کرسکتا جس طرح پولیو جیسے مرض پر قابو پانے کے لئے سو فیصد مُلک ،صوبہ یا علاقے میں ویکسینیشن کے زریعے کنٹرول نہیں کیا جاتا مرض پر کنٹر ول ممکن نہیں سمجھا جاتا اگر کہیں ایک جگے میں بھی پولیوکا مریض سامنے آئے تو خطرناک سمجھا جاتا ہے اور زمہ داروں کے خلاف کاروئی کی جاتی ہے۔ہمارے حُکمرانوں کو کون سمجھائے کہ تعمیر و ترقی کے دوران مخصوص عینک پہن کر منصوبہ بندی کی جاتی ہے ایسا لگتا ہے کہ محکمہ منصوبہ بندی کو ایک مخصوص علاقے کے لئے بنایا گیا ہو۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے متوقع پانچویں آئینی صوبے گلگت بلتستان میں اج کے اس ترقی یافتہ دور میں ایک ایسا بھی علاقہ ہے جو تعلیم اور صحت جیسی بُنیادی سہولیات سے یکسر محروم ہے اور خاص بات یہ ہے کہ تحصیل گُلتری کی دو یونینوں میں ایک بھی گرلز پرائمری سکول موجود نہیں یعنی اکیسویں صدی کے اس سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں بھی گلتری کی بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے بُنیادی حق سے حکمرانوں خاص طور سے محکمہ تعلیم کے زمہ داروں نے محروم رکھا ہواہے۔سرحدی تحصیل گُلتری جو کارگل دراس سیکٹر کے نام سے جاانا پہچانا جاتا ہے اور اس علاقے کے لوگوں نے جنگ آزادی سے تا دمِ تحریر تمام تر تعصبات و تفرقات سے بالاتر ہوکر مملکت عزیز پاکستان کی بقاء و سالمیت کے لئے افواج کے شانہ بشانہ کردار ادا کیا ہے۔1999ء کی کارگل جنگ در اصل گُلتری کے عوام نے ہی فوج کے شانہ بشانہ لڑی ہے اور کارگل جنگ کے دوران کرنل شیر خان شہید(نشان حیدر) ،لالک جان شہید (نشانِ حیدر) اور میجر وہاب شہید سمیت سینکڑوں شہیدوں کا مقدس لہو بھی سرزمین گُلتری میں وطن کے تحٖفظ کے لئے گرا تھا۔اس جنگ کے دوران گُلتری کے سپاہی سپاہی (کلرک ) علی موسیٰ شہید،سپاہی بابر علی (شہید) ،سپاہی نیاز علی (شہید ) سمیت کئی دیگر نے بھی وطن پر جان نچھاور کرکے اپنی ماں دھرتی سے محبت کا عملی ثبوت دیا۔پاکستان کی آزادی سے ابتک اپنا اج دھرتی ماں کے کل پر قربان کرنے والے گلتری کے محب وطن عوام کو بُنیادی سہولیات سے بھی یکسر محروم رکھنا کس قدر زیادتی ہے۔گُلتری میں مڈل کے بعد لڑکوں تعلیم کے لئے دیگر شہروں کا رُخ کرنا پڑتا ہے جبکہ بچیوں کو تو تعلیم حُکمرانوں نے شجرہ ممنوعہ قرار دے رکھا ہے دوسری طرف ایک BHUاور دس بیڈ ہسپتال کی بلڈنگ تو بنا دی گئی ہے لیکن ڈاکٹر،پیرا میڈیکل اسٹاف اور ادویات سے مُکمل خالی ہیں ۔تحصیل کا درجہ دیا گیا ہے لیکن تحصیل دار اور عملے کا نام و نشان تک نہیں گویا برائے نام کا تحصیل ہے۔

حُکمرانوں کو داریل ،تانگیر اور منی مرگ کی پسماند گی تو یاد اتی ہے مگر گلتری کی طرف کسی توجہ نہیں ہوتی ہے گویا مُحبِ وطن ہونا امن پسند ہونا اور شریف ہونا اس دور میں سب سے بڑا جُرم ہے اور حقوق کے حصول کے غُنڈہ گردی دہشت گردی اور بد معاشی لازمی ہے۔اگر حُکمران اور انتظامیہ تعصب کی بُنیاد پر کام کریں تو پھر خطے میں امن کیسے ممکن ہوگا۔کس قدر دُکھ کا مقام ہے کہ سابقہ نگران حکومت کے دورانیئے میں گُلتری سے منتخب ممبر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی و موجودہ سپیکر حاجی فدا مُحمدناشاد کی ذاتی کوششوں سے نگران وزیر اعلیٰ شیر جہاں میر اور نگران وزیر تعلیم محترمہ فوزیہ سلیم عباس نے گُلتری کی مقامی اکلوتی ایم اے پاس پروفیشنل لیڈی ٹیچر جنہیں NIS اساتذہ کے ساتھ سروس سے معطل کیا ہوا تھا کنٹریکٹ بُنیادوں پر بحال کرکے مستقل کرنے کا وعدہ کیا تھا مذکورہ لیڈی ٹیچر فرض شناسی اور زمہ داری سے تحصیل گُلتری کے ایک سکول میں بچیوں کو تعلیم دے رہی تھی اور گلتری کے عوام کے لئے اُمید کی ایک کرن بن چکی تھی لیکن حال ہی میں کنٹریکٹ اساتذہ کے ساتھ دُنیا کے ہارڈ اور پسماندہ علاقے کی اکلوتی اور اہل لیڈی ٹیچر کو بھی فارغ کردیا گیا ہے جبکہ گلگت شہر کے قریبی گاؤں نلتر کو ہارڈ ایریاقرار دے کر نلتر بالاکے ایک میڈل سکول میں دو خواتین کو جو صرف ایف اے پاس اور نان پروفیشنل ہیں گریڈ 14میں تعینات کر دیا گیا اب محکمہ تعلیم کے زمہ داروں کو کون سمجھا ئے کہ نلتر ہار ڈ ایرایاہے یا گُلتری جو سال کے چار سے پانچ مہینے دُنیا بھر سے کٹا رہتا ہے۔

گُلتری کے عوام کو ایک شکوہ فورس کمانڈر گلگت بلتستان سے بھی ہے کہ سرحدی علاقہ ہونے اور دبے مثال فاعی خدمات کے پیشِ نظر اُن کی توقعات اور اُمیدیں پاک فوج سے ہیں لیکن خپلو،منی مرگ اور دیگر علاقوں میں تو افواج پاکستان نے آرمی سکولز کا اجراء کر رکھا ہے لیکن گُلتری کے عوام اس سہولت سے بھی محروم ہیں دوسر طرف فورس کمانڈر سول حکومت اور انتظامیہ کی سرحدی تحصیل گلتری کی تعمیر ترقی خاص طور سے تعلیم اور صحت کے شعبے میں عدمِ دلچسپی پر نوٹس لیتے ہوئے ہنگامی بُنیادوں پر اقدامات کرائی اور گُلتری کی اکلوتی لیڈی ٹیچر کو فی الفور بحال کراکے گُلتری کی بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے کا بُنیادی حق دلوادیں۔گورنر گلگت بلتستان ،وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان،سپیکر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی ،وزراء ،معزز اراکین اسمبلی اور چیف سیکریٹری گلگت بلتستان کوبھی پاکستان کے حساس سرحدی علاقے کے مجاہد عوام کے بُنیادی مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اگر وہ اپنی زمہ داری کو سمجھیں تو۔۔۔۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button