کالمز

میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں؟

کریم اللہ

بیس جنوری دوہزارسولہ کی صبح ایک مرتبہ پھر خیبر پختونخواہ کے باسیوں کے لئے قیادت خیزی کے ساتھ طلوع ہوا۔ جبکہ نامور قوم پرست راہنما اور عدم تشدد کے علمبردار باچاخان کی جائے پیدائش چارسدہ میں واقع ’’باچاخان یونیورسٹی ‘‘کے معصوم طالب علموں اوران کے اساتذہ کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ اس خون آشام ڈرامے میں چاردہشت گرد وں نے دواساتذہ سمیت 21افرادکوعلم دینے اور علم حاصل کرنے کے جرم میں ابدی نیند سلادیا۔رپورٹوں کے مطابق اسی روز باچاخان کی برسی کی مناسبت سے یونیورسٹی میں امن مشاغرے کا اہتمام بھی کیاگیا تھا۔جس میں صوبہ بھر سے نامورشعراء مدعو تھے۔ یہ حملہ نہ تو اپنی نوعیت کا پہلا اور نہ ہی شائد آخری حملہ ہیں، باچاخان یونیورسٹی حملہ اور تیرہ ماہ قبل صوبائی دارالحکومت پشاور کے آرمی پبلک سکول میں ہونے والے حملوں میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے ۔پچھلے سال کے اس تباہ کن حملے میں جدید ہتھیاروں سے لیس 12کے قریب دہشت گردوں کے ملوث ہونے کی خبر ملی تھی۔ جبکہ بی کے یو پر بھی چارحملہ آوروں نے جدیدہتھیاروں سے لیس ہوکر حملہ آور ہوئے ۔اے پی ایس حملے کی ذمہ داری بھی تحریکِ طالبان پاکستان درہ آدم خیل گروپ نے قبول کیا تھا جبکہ حالیہ حملے کی ذمہ داری بھی انہوں نے قبول کرنے کے ساتھ اورایک ویڈیوپیغام میں تعلیمی اداروں کومزیدنشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے ۔اے پی ایس حملے کے وقت بھی حکومت،مقتدرادارے ،سیاسی وعسکری قیادت ،دانشور اور عوام تذبذب اورمخمصے کا شکارسازشی نظریات تراش رہے تھے۔اور حالیہ حملے میں پہلے سے زیادہ بیرونی سازش کا واویلہ کیاجارہاہے ۔پاکستان میں جاری دہشتگردی کی تاریخ کافی پرانی ہے جوابھی تک ساٹھ ہزار سے زائد بے گناہ پاکستانیوں کو نگل چکے ہیں۔ البتہ گزشتہ چند برسوں کے دوران دہشتگردی کے واقعات میں کافی تبدیلی نظرآتی ہے ایک دور تھا جب دہشتگرد مساجد،امام بارگاہوں،درباروں ،سکولوں اور بازاروں میں خودکش دھماکوں سے سینکڑوں پاکستانیوں کے پرخچے اُڑارہے تھے۔ جبکہ حالیہ چند برسوں کے دوران خودکش حملوں کے ساتھ ساتھ جدید ہتھیاروں سے لیس ہوکر اپنے ٹارگٹ تک پہنچ کر عوام کو چن چن کے گولیوں سے بوندڈالتے ہیں، ساتھ ہی خودکش حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔باچاخان یونیورسٹی چارسدہ میں ہونے والے حالیہ بدترین دہشتگردی کے بعد چند بنیادی سوال ابھی تک حل طلب ہے ۔

1:یہ کہ اے پی ایس حملے کے بعدجو نیشنل ایکشن پلان نامی کاغذی شیر تخلیق کیاگیا تھا ۔کیااس میں موجود بیس کے بیس نکات پر عمل درآمد ہوسکا ؟اگر نہیں تو پھر کیا نیشنل ایکشن پلان محض عوامی جذبات کو ٹھنڈاکرنے کا ایک بہانہ تھا؟

2:چارسدہ حملے کے بعدتقریباََساری بڑی سیاسی راہنمااور عسکریت پسند تجزیہ نگار بلندوبانگ دعوے کررہے ہیں ۔کہ چونکہ آپریشن ضربِ عضب نے دہشتگردوں کاکمر توڑدیاہے ،اور اب اس قسم کے بذدلانہ کاروائیوں سے وہ اپنی موجودگی کا احساس دلارہی ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیاواقعی ضربِ عضب نے دہشتگردوں کی کمرتوڑدی ہے اگر واقعی دہشتگردوں کی کمرٹوٹ چکی ہے۔ توپھر معزور اور اپاہچ دہشتگرد کسطرح اتنی منظم کاروائیاں کررہی ہے؟کیا اسکامطلب یہ لیاجائے کہ ٹوٹے کمر کے باؤجود دہشتگرد اب بھی پاکستانی سیکیورٹی اداروں اور حکومت سے زیادہ طاقتور ہے؟۔

3: حملے کے چند گھنٹوں بعد آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جرنیل آصف سلیم باجوہ نے پریس بریفنگ میں انکشاف کیا کہ اس دہشتگردی کی منصوبہ بندی سے متعلق شواہد ملے ہیں جبکہ بعض سیاسی جماعتیں،سابق فوجی آفسران اور فوج کے پالتو تجزیہ نگار ایک مرتبہ پھر روایتی بیانئے یعنی حملے میں بھارت اور افعانستان کے ملوث ہونے سے متعلق سازشی نظریات سے عوام کو تذبذب میں مبتلا کرنے کی کوشش شروع کی ہے ۔اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ اگر حملے کے صرف چند گھنٹے بعد اسکی سازش کا علم ہوتاہے تو پھر حملے سے قبل ستائیس کے قریب خفیہ اداروں اورفوج کو اسکی خبرکیوں نہ ہوئی؟

4:سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیوں پچھلے سال آرمی پبلک سکول میں رونما ہونے والی دہشتگردی کے محرکات کو جاننے کے لئے اعلیٰ تحقیقاتی کمیشن تشکیل نہیں دیاگیا؟

تزویراتی گہرائی کا گمراہ کن تصور:

عموی تاثر یہ ہے کہ فوج اور حکومت ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر تزویراتی گہرائی کی گمراہ کن پالیسیوں پر نظر ثانی کی ہے ۔چارسدہ حملے کے بعد ماضی کی ان غلطیوں پر وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی کہا کہ اَسی کی دھائی میں ہم مختلف ممالک میں پراکسی جنگوں میں ملوث رہے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کیا اب بھی ہم اسی پرانے ڈگر پر نہیں چل رہے ہیں؟ لشکرِ جھنگوی ،جیشِ محمد، جماعت الدعویٰ ،متحدہ جہاد کونسل وغیرہ کے اب بھی پنجاب اور آزاد کشمیر میں نہ صرف اڈے موجودہیں، بلکہ وہاں سے پڑوسی ملک بھارت میں دراندازی بھی کرتے ہیں۔ بھارت کے ضلع پٹھانکوٹ میں ائیر بیس پر حملہ اسی سلسلے کی کڑی تھی ۔جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام کے سرکاری لال مسجد میں بیٹھ کر ملاعبدالعزیز نفرت پر مبنی تقاریر اور دہشتگردوں کی حمایت میں مصروف ہے۔اسی لال مسجد سے ملحق جامعہ حفضہ کے طالبات کی جانب سے چند ماہ قبل داغش کو پاکستان آنے کی دعوت دینے کی ویڈیو بھی منظرِعام پر آئی تھی۔

ایک طرف سندھ اور بلوچستان میں فوجی آپریشن جاری ہے سندھ کی حد تک فوج کرپشن کے خلاف کاروائیوں کے نام پر طویل قسطوں پر محیط ڈرامہ سجائی بیٹھی ہیں۔ تو دوسرے طرف پنجاب اور وفاقی دارالحکومت میں موجود مسلح دہشتگردوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہورہی ہے ،جو آزادانہ طورپر اپنا پروپیگنڈالٹریچر بھی شائع کرکے عوام میں تقسیم کررہے ہیں ،اور ان کی قیادت کلاشنکوف برداروں کے قافلے میں جلسے سجا کر لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ان ساری معروضی حقائق کے پیشِ نظر یہ کہنا کہ مقتدرادارے اورحکومت تزویراتی گہرائی کے تصورکر ختم کرکے ہمسایوں کے ساتھ سفارت کاری کی بنیادپر بہتر تعلقات استواء کررہے ہیں محض دل بہلانے کے بہانے ہیں۔

سازشی نظریات:

ابھی چارسدہ میں واقع باچاخان یونیورسٹی میں دہشتگردی کابازار گرام تھا کہ سماجی رابطوں کے ویب سائڈز ، موبائیل پیغامات اور عوامی مباحثوں میں یہ چہ میگوئی شروع ہوئی کہ یہود وہنود،بھارت وافغانستان پاکستان کے خلاف سازش کررہی ہیں۔ اور چارسدہ حملہ اسی سازش کا شاخسانہ ہے، حملے کے چند گھنٹوں بعد فوج کے تعلقاتِ عامہ کی جانب سے بیان آیا ہے کہ اس دہشتگردی کی منصوبہ بندی کا سراغ لگایا گیا ہے اور اس کے تانے بانے افغانستان میں ملتی ہے ۔وضاحت یہ پیش کی گئی کہ دہشتگردوں سے برآمد ہونے والی موبائیل فون پر افغانستان میں رابطہ کیاگیاتھااور ایک موبائیل میں افغان سم استعمال ہوئی تھی ۔اسکے بعد خبر آئی کہ آرمی چیف جرنیل راحیل شریف نے افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹیوعبداللہ عبداللہ سے فون پر رابطہ کرکے افغانستان میں موجود دہشتگردی کے اڈوں کے خلاف موثر کارائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جبکہ صوبائی وزیر اعلیٰ بھی اس حملے کاالزام بھارت اورافغانستان پر ڈال دی ۔ذرائع ابلاغ میں بھی سازشی نظریات کی بھر مار اور بیوپارہورہی ہے۔لیکن سوال وہی پرانا ہے کہ اگر اس حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی اور چار دہشتگرد بھاری بھر کم ہتھیاروں سے لیس ہوکر پاک افغان بارڈر کو عبورکرتے ہوئے ہزاروں کلومیٹر دورواقع چارسدہ پہنچ کر اتنی تباہی مچائی ہیں، ہمارے عقابی نگاہوں کے حامل خفیہ ادارے اورسیکیورٹی فورسز کو ان کی زرہ سی بوبھی محسوس نہ ہوئی۔محض اپنی ناکامی کو چھپانے اور عوام کے جذبات کو پڑوسی ممالک کے خلاف بھڑکانے سے مسائل حل نہیں ہوسکتے ۔

سیکیورٹی انتظامات:

ایک اور اہم پہلوجس کی جانب خاص توجہ مرکوزکرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ کہ اے پی ایس اور حالیہ بی کے یو دونوں اداروں میں سیکیورٹی کاخاطرخواہ انتظام تھا۔ بی کے یوحملے کے بعد یہ شوشہ چھوڑاگیا کہ یونیورسٹی گیٹ میں بھاری سیکیورٹی اہلکار موجودتھی ۔لیکن دہشتگردوں نے عقبی دیوار کے اوپر لگی خاردار تاروں کو کاٹ کراندرداخل ہوئے ۔اسی تناظر میں دوباتوں کو یادرکھنے کی ضرورت ہے ۔

1:کیادیواروں کے اوپر لگے خاردار تار اتنے ناقص تھے کہ حملہ آوروں نے آتے ہی انہیں کاٹ ڈالا اور دیوار پھلانگ کراندر داخل ہوئے ؟ کیا بغیر طویل منصوبہ بندی اور مقامی لوگوں کی مددکے اس قسم کے واردات افغانستان سے آنے والے غیر ملکی اور اجنبی لوگوں کے لئے ممکن ہیں؟

2:کہایہ جاتاہے کہ دہشتگرد یونیورسٹی کے احاطے میں داخل ہوکرجب حملے شروع کئے تو سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں نے جوابی کاروائی کرکے انہیں پسپا کردیا، اور و بھاگ کر قریب واقع ہاسٹل میں داخل ہوکر وہاں موجود طالب علموں کو یرغمال بنا کر قتل کردیا ۔سوال یہ ہے کہ کیا ہاسٹل کے گیٹ میں سیکیورٹی کاکوئی اہلکار موجودنہیں تھا؟اگر موجود تھا تو ان دہشتگردوں کو کیوں نہیں روکاگیا؟کالج اور یونیورسٹی کے ہاسٹلوں کے مین گیٹ کے ساتھ چھوٹے گیٹ نصب ہوتے ہیں،عام طورپر اس چھوٹے گیٹ کو بند رکھکر وہاں سیکیورٹی تعینات رہتے ہیں ۔لیکن یہاں معاملہ یہ نظر آرہاہے کہ نہ صرف ہاسٹل کے مین گیٹ میں سیکیورٹی گارڈ موجودنہیں تھے۔ بلکہ ہاسٹل کا مین گیٹ بھی کھلا ہی چھوڑاگیا تھا جس کی وجہ سے دہشتگرد بغیرمذاحمت کے ہاسٹل کے اندرداخل ہوئے اور اتنی تباہی پھیلادی۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ چارسدہ کے باچاخان یونیورسٹی کی خون ریزی سیکیورٹی فورسز،صوبائی ووفاقی حکومتوں اورخفیہ خبر رسان اداروں کی مکمل ناکامی ہے ۔اسکے علاوہ یونیورسٹی حکام اور انتظامیہ کی غفلت بھی نمایاں ہے ۔ لیکن آفسوس یہاں ہرشخص اور ادارہ خودکو بری الزمہ ٹہراکر ساراملبہ افغانستان وبھارت پر ڈالنے میں مشغول ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button