اگلے دن شام کے وقت رفقاء نے اکادمی ادبیات کا رخ کیا ۔اکادمی ادبیات کا قیام پاکستان کے نامور شعراء وادباء نے ۱۹۷۶ء میں کیا تھا۔اور نامور شاعر احمد فراز اس ادارے کے پہلے ڈائریکٹر تعینات ہوئے ۔احباب نے اکادمی ادبیات کے تعلقات عامہ افسرطارق شاہدسے ملاقات کی اور حلقہ اربابِ ذوق کی کتب پیش کیں طارق شاہدصاحب نے حلقہ ء اربابِ ذوق کے اس دورے کو سراہا اورخواہش بھی ظاہر کی کہ مستقبل میں بھی حاذکے شعراء و ادباء اکادمی ادبیات سے روابط رکھیں گے۔اس کے ساتھ انہوں نے تھوڑی دیر بعد اکادمی ادبیات ہال میں منعقدہ محفل مشاعرے میں شرکت کی دعوت بھی دی۔سینئر شعراء نے ذاتی مصروفیات کے سبب معذرت کی جبکہ عاجز،ؔ سلیمی،یاؔ د اورراقم نے مشاعرے میں شرکت کا فیصلہ کیااور ہال کا رخ کیا۔مشاعرہ شروع ہونے کے بالکل قریب تھااور مشاعرے میں احسان اکبر،عباس تابشؔ ، شہزاد نیّر،جلیل عالی،راشدہ ماہین ملک سمیت ملک بھر کے نامور شعراء شریک تھے۔مشاعرہ تین گھنٹے تک جاری رہا اور شعراء نے اپنے کلام کے ذریعے محفل کو چار چاند لگا دیے۔مشاعرے کا شیڈول چونکہ پہلے ہی فائینل کیا گیا تھا لیکن طارق شاہدصاحب کی کاوشوں کے سبب گلگت بلتستان کی نمائیندگی کے لئے ایک شاعر کو کلام پڑھنے کا موقع دیا گیا اور حلقہ ء ارباب ذوق گلگت کی نمائیندگی اشتیاق احمد یاد نے کی اوراپنے کلام سے خوب داد پائی۔مشاعرے کے اختتام پر نامور شعراء کے ساتھ ملاقات ہوئی جن میں عباس تابشؔ ،شہزاد نیّر ،احسان اکبر ،جلیل عالی ،راشدی ماہین ملک اور دیگر شامل تھے جبکہ شہزاد نیرّ نے اپنے کتب کے تحائف بھی پیش کیے۔
اگلی صبح ۷ بجے کے قریب عاجزؔ کے بلاوے پر آنکھ کھلی ۔عاجز ؔ نے بتایا کہ عباس تابشؔ صاحب رائٹرز ہاوس میں ملنے کو کہہ رہے رہیں ہیں۔ٹیکسی لی اورعاجز اور راقم نے اکادمی ادبیات رائٹرز ہاؤس کا رخ کیا۔رائٹرز ہاوس میں عباس تابش ؔ صاحب بڑے تپاک سے ملے۔عباس تابشؔ صاحب ایک اچھے شاعر کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان بھی ہیں عباس تابش کے ساتھ دو گھنٹے کی رفاقت رہی ۔کبھی گلگت بلستان کی محرومیوں کے قصے تو کبھی میر ؔ و غالب ؔ کے قصے ۔گفتگو طویل ہو تی جارہی تھی ۔اتنے میں شکیل جاذب ؔ اور فیصل آباد کے نامور شاعراانجم سلیم سلیمی کی آمد ہوئی۔طویل گفتگو کے بعد جب نشست اپنے اختتام کو پہنچی تو عباس تابشؔ صاحب نے اپنی نئی شعری تخلیق”شجر تسبیح کرتے ہیں”اپنے دستخط اور نیک خواہشات کے ساتھ عنایت کی۔بلاشبہ عباس تابشؔ صاحب کے ساتھ ایک یادگار نشست ثابت ہوئی۔واپسی پر عاجزؔ اور راقم جب ہاسٹل پہنچے تو شعراء مشاعرے کی تیاریوں میں مصروف تھے اور پاکستان یوتھ ہاسٹل ایسوسی ایشن کے عہدیداران جن میں وائس چیئر مین انوار حسین صدیقی،سیکریٹری آغا افضال حسین ،جی ایم راجہ ریاض احمد خان اور ممبر ایمبیسڈر قاضی ہمایون صاحب شامل تھے کی طرف سے ایک ظہرانے اور محفل مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا۔دوپہر ۰۰:۲ بجے کے قریب مشاعرے کا آغاز ہوا ۔میزبانوں نے شعراء کے کلام کو خوب سراہا جبکہ مشاعرے کے آخر میں پاکستان یوتھ ہاسٹل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری آغا افضال حسین اور حاذ گلگت کے جنرل سیکریٹری جمشید خان دکھی ؔ نے اپنے تاثرات بیان کیے۔
انسان کی زندگی میں کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں جن میں ایک طرف طبیعت میں بشاشت کی لہر ہوتی ہے تو دوسری طرف بے وجہ اداسی چھائی ہوتی ہے ۔کچھ ایسی ہی کیفیت آج راقم حاذ گلگت کے احباب میں محسوس کر رہا تھا کیونکہ ایک طرف سونی گیلت کی جانب واپسی کی خوشی تو دوسری طرف دوستوں کی ۱۱ دن پر محیط طویل رفاقت اور ہم سفری اپنے اختتام کو پہنچنے والی تھی۔یوتھ ہاسٹل کی فضائیں سونی سونی لگ رہی تھیں۔شاید قدرت نے دنیا میں کچھ ایسے رشتے بھی پیدا کیے ہیں جن کی ڈور خون کے رشتوں سے کہیں زیادہ مضبوط ہوتی ہے اور ان میں محبت ،خلوص،احساس اور احترام کا عجب امتزاج پایا جاتا ہے۔ایک ایسا ہی رشتہ حلقہ اربابِ ذوق گلگت کے احباب کے مابین بھی استوار ہے ۔شایدادب کا رشتہ ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ جس میں علاقائی ،مسلکی اور لسانی تفرقات کی کوئی وقعت نہیں ہوتی اور یہ صرف اور صرف علم و آگاہی،افکار کی مماثلت ،احترام اور برداشت کے باعث مضبوط سے مضبوط تر ہو جاتا ہے۔ خیر جب تک سانسیں باقی ہیں حاذ گلگت کے دوستوں کے یہ مضبوط رشتے قائم و دائم رہینگے۔اسی کے ساتھ خوبصورت یادوں سے مزیّن آوارہ گردی اپنے اختتام کو پہنچی۔