کالمز

مخصوص عینکیں اور وزیر اعلی گلگت بلتستان 

خواجہ آصف کے الفاظ مجھے نہیں معلوم کہ اسمبلی کارروائی سے حذف ہوئے ہیں کہ نہیں لیکن تاریخ کے صفحات سے تو حذف کرنا کسی کے بس میں نہیں ،مجھے رہ رہ کے خواجہ آصف کے الفاظ یاد آتے ہیں کہ ،کوئی شرم بھی ہوتی ہے ،کوئی حیا بھی ہوتی ہے ،کوئی روایات بھی ہوتیں ہیں ،مہدی شاہ سرکار کے پانچ برس عوام پرعذاب الہی کی صورت گزر گئے ،عوام بھی سیاسی مخالفین بھی ان کی حکومتی بھونگیاں سہتے رہے ،سیاسی اختلاف بیانات کی صورت ضرور سامنے آئے لیکن کسی نے مہدی شاہ کی زات پر حملے نہیں کئے ،اب ایسا کیا ہوا کہ سب روایات فراموش،شرم گھاس چرنے اور ہماری شاندار روایات قصہ ماضی بن گئیں کہ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان کی ذات پر ایسے حملے کئے جا رہے ہیں کہ اللہ کی پناہ ،حقیقت تو یہ ہے کہ حفیظ الرحمان کے پائے کا کوئی سیاستدان موجودہ منظر نامے میں گلگت بلتستان کی سیاسی فضا میں کہیں نظر نہیں آ رہا ہے ،ان کے شدید ترین مخالفین بھی اس بات کا بھر ملا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ وسیع سیاسی وژن ،فہم و فراست اور بہترین انتظامی صلاحیتوں کے شہسوار حافظ حفیظ الر حمان کو موقع دیا جائے تو پانچ برسوں میں گلگت بلتستان کی تقدیر بدلیں گے ،لیکن کیا کیا جائے جن کی عادت اور سرشت ہی ایسی ہو کہ مخصوص عینک لگا کر دیکھتے ہیں جس عینک میں سیاہ سفید اور سفید سیاہ نظر آتا ہے ،عینک اتاریں تو منظر واضح نظر آئے ،یہ لوگ عینک اتارنے کے قائل نہیں اور قوم کو سبق دینا چاہتے ہیں ،آپ کی عینکیں آپ کو مبارک ،قوم کو بخش دیں ،گلگت بلتستان کے عوام بے شک پہاڑوں کے باسی ہیں لیکن علامہ اقبال کے شعر کی تفسیر ہیں

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی

یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی

عوام کی آنکھوں میں آپ کی طرح چشمے نہیں لگے کہ انہیں الٹا نظر آئے ،عوام دیکھ رہے ہیں کہ یہ وہی گلگت بلتستان ہے جہاں مہدی شاہ سرکارنے واراثت میں جہاں ایک طرف ،خالی خزا نہ نوکریوں کی فروخت کے افسانے،امن و امان کی بگڑتی صورتحال ،سفارش،اقربہ پروری،رشوت ستانی اور بد انتظامی چھوڑا تھا ،مختصر عرصے میں اور کچھ بھی اگر مخصوص عینک پہننے والوں نظر نہیں آرہا ہے تو یہ تو نظر آرہا ہوگا کہ گلگت بلتستان میں مثالی امن تو قائم ہے،وزیر اعلی نے اپنی پہلی ترجیح امن و امان رکھی اس کے ثمرات سب کے سامنے ہیں ،ڈپٹی سپیکر جعفراللہ خان نے گلگت بلتستان کی تاریخ میں ایسا شاندار کارنامہ انجام دیا کہ اسے بھی فراموش کیا گیا ،سانحہ اتحاد چوک اور سانحہ بونر فارم کے فریقین کو شیرو شکر کر کے گلگت بلتستان کو مستقبل میں آنے والے بڑی تباہی سے بچایا ،کاش عینک اتار کے دیکھتے تو یہ حقیقتیں ان لوگوں کو بھی نظر آتیں جنہیں نہ گلگت بلتستان کی ترقی سے غرض ہے اور نہ ہی امن سے ،بس خواجہ آصف کے الفاظ رہ رہ کے یاد آتے ہیں ،کوئی شرم بھی ہوتی ہے ،کوئی حیا بھی ہوتی ہے ،کوئی روایات بھی ہوتیں ہیں،

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button