اہم ترین

وزیر اعلی گلگت بلتستان کی ڈگریاں‌ الیکشن کمیشن میں‌چیلنج، اسمبلی رکنیت کالعدم قرار دینے کی درخواست، نوٹس جاری کردیا گیا

گلگت: وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید  کی ڈگریاں چیف الیکشن کمشنر کے سامنے چیلنج۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سابق ایڈوائزر عبدالحمید خان اور مسلم لیگ ن کے سابق منسٹر بلدیات فرمان علی درخواست گزار۔

گلگت بلتستان کے معروف قانون دان غلام محمد ایڈوکیٹ نے دلائل دئیے جس پر چیف الیکشن کمشنر نے پٹیشن ایڈمٹ کر کے وزیر اعلی خالد خورشید خان اور وائس چئرمین گلگت بلتستان بار کونسل کو 7 جولائی 2022 کو جواب کے ساتھ پیش ہونے کیلئے نوٹسز جاری کر دئے۔

غلام محمد ایڈوکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ موصوف نے گلگت بلتستان کے صوبائی الیکشن 2020 میں GBLA-13 استور-1 سے جنرل سیٹ کے خلاف انتخابات میں حصلہ لیا اور اسے مذکورہ حلقے سے کامیاب امیدوار قرار دیا گیا بعد میں موصوف گلگت بلتستان کا وزیر اعلیٰ بن گیا۔یہ کہ وزیر اعلیٰ کا قلمدان صوبے کے تمام تر عہدوں میں سب سے اعلیٰ عہدہ ہے اور اسے انتہائی قابل احترام عہدہ سمجھا جاتا ہے اور آئین کی شق کے مطابق کوئی بھی فرد قومی یا صوبائی اسمبلی کیلئے اس وقت تک منتخب نہیں ہو سکتا ہے جب تک کہ وہ اچھے کردار، باشعور، نیک، با اخلاق، دیانتدار اور امین نہ ہو، لیکن مدعا علیہ نمبر 1/ محمد خالد خورشید خان وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے ایک جعلی ڈگری کے بنیاد پر گلگت بلتستان بار کونسل سے ماتحت عدالت کے وکیل کا لائسنس حاصل کیا اور جس یونیورسٹی سے اس نے ڈگری خریدی ہے وہ دنیا کی بدنام زمانہ بیلفورڈ یونیورسٹی ہے۔ جو خریداروں کو آن لائن غیر تسلیم شدہ ڈگریوں کی پیشکش کیا کرتی تھی۔ بیلفورڈ یونیورسٹی کا حمبل ٹیکساس میں ایک پوسٹ آفس باکس تھا لیکن اس کے سرٹیفکیٹ متحدہ عرب امارات سے بھیجے جاتے رہے تھے، بیلفورڈ یونیورسٹی کراچی میں قائم کمپنی ایگزیکٹ کی ملکیت تھی، جس کا مرکزی کاروبار نیویارک ٹائمز کی ایک تحقیقات کے مطابق جعلی تعلیمی ڈگریوں کی فروخت کے صدیوں پرانے اسکینڈل کو لے کر اسے عالمی سطح پر انٹرنیٹ کے دور کی اسکیم میں تبدیل کرنا تھا ۔ جولائی 2018 میں ایگزیکٹ کے سی ای او شعیب احمد شیخ کو گرفتار کر کے 20 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس اسکینڈل کو چلانے میں اس کا مرکزی کردار تھا۔

جی ایم ایڈوکیٹ نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ مدعا علیہ نمبر 1/ محمد خالد خورشید خان نے نہ صرف بیلفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی جعلی ڈگری خریدی بلکہ دیدہ دلیری اور اعتماد کے ساتھ جی بی کے ماتحت عدالتوں کے ایڈووکیٹ کے لائسنس کے لیے یہ حلف نامہ دے کر درخواست کی کہ اس نے جو کچھ بھی جمع کرایا اور کہا وہ درست ہے۔

یہ ک جواب دہندہ نمبر 1/ محمد خالد خورشید خان کو حلقہ GBLA-13 استور-1 سے کامیاب امیدوار قرار دیا گیا اور بعد میں وہ گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ بن گئے اور کئی ایک مواقع میں موصوف نے اعلیٰ حکام اور میڈیا کے سامنے بیرسٹر کے طور پر تعارف کرایا اور جھوٹ پر مبنی تعارف سے فائیدہ اٹھایا، مزید برآں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے آفیشل پیج پر انہوں نے خود کو لندن کی قوئین میری یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری ہولڈر ظاہر کیا ہے۔

ایڈوکیٹ غلام محمد نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جواب دہندہ نمبر 1/ محمد خالد خورشید خان نے 11جون 2009 کو بدنام زمانہ بیلفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور اس نے 14 ستمبر 2009 کو لندن یونیورسٹی سے بھی ایک اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ اس طرح اس نے دو ڈگریاں صرف تین ماہ کے قلیل وقت میں حاصل کیں۔ 3 ماہ کے اندر دو بین الاقوامی قانون کی ڈگریاں حاصل کرنا بعید از قیاس ہے جو بظاہرجعلی لگتی ہیں اور ان کی تصدیق کی ضرورت ہے۔

مندرجہ بالا حقائق کی بنیاد پر جواب دہندہ نمبر 1/ محمد خالد خورشید خان کے پاس وزیر اعلیٰ جی بی کا باوقار اور اعلیٰ مقام عہدہ برقرار رکھنے اور مذکورہ دفعات کے تحت GBLA-13 استور-1 کی رکنیت برقرار رکھنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز و اختیار نہیں ہے۔ آئین اور انتخابی قوانین کی صریحا خلاف ورزی ہے اس لیے یہ درخواست دی جاتی ہے۔

یہ کہ اگر اس درخواست کو قبول نہیں کیا جاتا ہے تو گلگت بلتستان کے عوام بالعموم اور حلقہ GBLA-13 استور 1 کے عام عوام/ووٹرز کو بالخصوص ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا جس کی تلافی کسی صورت ممکن نہیں ہے اور یہ ایک بہت بڑاقومی نقصان اور مہزب دنیا کے جمہوری اصولوں کے خلاف بہت بڑا مذاق ہے۔

آخر میں غلام محمد ایڈوکیٹ نے عرض کیا کہ مندرجہ بالا گذارشات کو دیکھتے ہوئے درج زیل دادرسی کی درخواست کی جاتی ہے۔

1. جواب دہندہ نمبر 1/ محمد خالد خورشید خان کی GBLA-13 استور-1 کی رکنیت کو کالعدم قرار دیں۔

2. جواب دہندہ نمبر 1/ محمد خالد خورشید خان کو گلگت بلتستان کے وزیراعلی کے عہدے سے برخواست کر دیں۔

3. جواب دہندہ نمبر 2 کو ہدایت کریں کہ ماتحت عدالتوں کے وکیل کی حیثیت سے موصوف کی رکنیت منسوخ کرنے اور قانون کے مطابق تادیبی کارروائی کرنے کے لیے کہا جائے۔

4. اور انصاف کے وسیع تر مفاد کے لیے قانون کے مطابق ضروری اقدامات کرنے کے لیے کیس کو کسی بھی دیگر متعلقہ محکموں/ایجنسیوں کو بھیجیں۔

تمام دلائل کو بغور سننے کے بعد عزت مآب جناب چیف الیکشن کمشنر صاحب نے خالد خورشید وزیراعلی گلگت بلتستان اور وائس چئرمین گلگت بلتستان بار کونسل کو مورخہ 7 جولائی کو جواب کے ساتھ حاضر ہونے کے نوٹسز جاری کئے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button