کالمز

قراقرم یونیورسٹی اور ہمارا عمومی رویہ

 شمس الرحمن پارس قریشی

کسی بھی معاشرے اور ملک کی تعمیر و ترقی کا راز تعلیم و تحقیق کے حصول اور فروغ میں مضمر ہے۔اگر ہم دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی ترقی اور خوشحالی کی وجوہات کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے اپنی قوم کو علم کے زیور سے آراستہ کیا اور سائنس و ٹیکنالوجی سمیت جدید علم کے تمام شعبوں میں مہارت حاصل کر کے نہ صرف دنیا پر اپنی دھاک بٹھائی بلکہ آسمانوں کو تسخیر کر تے ہوئے مریخ پر آبادکاری کے منصوبے بنا رہے ہیں۔امریکہ سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک نے بہت کم عرصے میں جس اوج کمال کو چھوا ہے،وہ راز دراصل اس امر میں پنہاں تھا کہ اس ملک کی بنیادیں علم دوستی پر رکھی گئی۔امریکہ کے دوسرے صدر تھامس جیفرسن نے جہاں امریکی جدوجہد آزادی میں اہم کردار کیا تھا،وہاں امریکہ کی تاریخی ورجینیا یونیورسٹی کی بنیاد بھی انہوں نے ڈالی تھی۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی وصیت میں یہ تحریر کروایا تھا کہ ان کی قبر کے کتبے پر انکا نام بطورامریکی صدر کے بجائے ورجینیا یونیورسٹی کے بانی کے طور پر لکھا جائے۔جہاں ترقی یافتہ ممالک جدید تعلیم و تحقیق کے ذریعے اپنی قوم کے مستقبل کو مزید محفوظ اور خوشحال بنانے کی سعی کر رہے ہیں وہاں ہم اپنے تعلیمی اداروں کو تباہ کر کے پتھروں کے دور میں واپسی کیلئے کوشاں ہے۔ایک طرف پورے ملک میں دہشت گردوں نے تعلیمی اداروں پر حملے کر کے قوم کے مستقبل کے معماروں کو عدم تحفظ اور مایوسی سے دوچار کر دیا ہے جبکہ دوسری طرف گلگت بلتستان کے سیاسی و مذہبی عناصر نے خطے کی واحد جدید تعلیمی درسگاہ قراقرم یونیورسٹی کو اپنے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔

ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے

قراقرم یونیورسٹی نہ صرف گلگت بلتستان کی واحداعلیٰ تعلیمی درسگاہ ہے بلکہ یہ ہمارے قومی وحدت اور روشن مستقبل کی امانتدار بھی ہے۔اس علمی درسگاہ کو سیاسی و مذہبی عناصر کی ناجائز مداخلت سے دورر کھنے اور قوم کے مستقبل کے معماروں کو علمی اورتحقیقی ماحول کی فراہمی کیلئے سازگار فضا مہیا کر نا ہم سب کی قومی ذمہ داری ہے۔بد قسمتی سے اس یونیورسٹی کے قیام کے بعد سے ہی وہ شر پسند عناصر جنہوں نے قوم کے نونہالوں کا ذہن جدید علم کے بجائے فرقہ وارانہ تعصبات سے آلودہ کر نے کی قسم کھا رکھی تھی،انہیں اپنے مفادات خطرے سے دوچار نظر آئے ۔انہیں اس امر کا احساس ہوا کہ اگر یونیورسٹی میں طلبہ جدید تعلیم اور تحقیق کے حصول میں مشغول ہو گئے تو نہ صرف ذمہ دار شہری بنیں گے بلکہ تمام اضلاع کے طلباء طالبات دقیانوسی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پرقائم معاشرے کی بنیادیں کھوکھلی کر دینگے۔یہی عناصر اس درسگاہ میں علمی ماحول کو پروان چڑھنے سے روکنے کیلئے ہمیشہ کو شاں رہے ہیں اورگاہے بگاہے اپنے مذموم مقاصد کیلئے معصوم طلبہ کو استعمال کرنے سے دریغ نہیں کر تے۔اگر قراقرم یونیورسٹی کو ان شرپسند عناصر کے دست وبرد سے بچانے کیلئے پوری قوم مجتمع ہوتی اور اس علمی درسگاہ کا ماحول خراب کرنے کے درپے مٹھی بھر سیاسی و مذہبی پریشر گروپوں کا راستہ روکا جاتا توآج قراقرم یونیورسٹی کا شمار نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کی عظیم علمی و تحقیق درسگاہوں میں ہو سکتا تھا کیونکہ اس خطے کی منفرد جیو اسٹریٹجک اہمیت اور متنوع معاشرتی اقدار کی کشش میں قد آور علمی شخصیات یہاں اپنی خدمات سر انجام دینے کیلئے تیار تھی۔یہاں کے طلبہ کو بھی دنیا کی بڑی یونیورسٹیاں اعلیٰ تعلیم و تحقیق کیلئے مواقع دینے میں دلچسپی رکھتی تھیں۔

قراقرم یونیورسٹی کو اس کے قیام کے اصل مقصدپر گامزن کر نے کیلئے ضروری ہے کہ ہم بہ حیثیت قوم اپنے عمومی روئیوں کا جائزہ لیں اور ان علم دشمن عناصر کے مذموم مقاصد کی راہ میں دیورا بنیں جو ہمارے مستقبل کے سرمایہ اور قوم کے معماروں کو حصول علم سے دور رکھنے کیلئے کو ئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہے۔اگر ہم اس خطے کی منفرد جیو اسٹریٹجک اہمیت اور قدرتی و معدنی وسائل سے بہرہ مند ہونا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم فرقہ وارانہ بنیادوں پر معاشرے کی تقسیم کے بجائے Knowledge Based Societyکا قیام عمل میں لائیں اور اپنی تمام توانایئاں اس ارفع مقصد کے حصول کیلئے بروئے کار لانی ہونگی۔ایک طرف ہم گلگت بلتستان میں تعلیمی اداروں کی زبوں حالی کا رونا روتے ہیں اور وفاقی حکومت سے مزید یونیوسٹیاں، میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز اور فنی تعلیم کے اداروں کے قیام کا مطالبہ کر تے ہیں جبکہ دوسری جانب واحد یونیورسٹی میں بھی تعلیمی تسلسل میں خلل ڈالنے اور پاکستان و دنیا بھر سے یہاں تعلیمی پسماندگی کا سدباب کر نے کا عزم لیکر آنے والے پروفیسرز کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں اور انہیں واپس جانے پر مجبور کر تے ہیں۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہاں آنیوالے تما م وائس چانسلرز سمیت بیرون دنیا سے آنیوالے پروفیسرز کو ذہنی اذیت سے دوچار کیا گیا؟ یورپ اور امریکہ میں اعلیٰ دماغوں کو خصو صی مراعات دیکر اپنے ممالک کی شہریت دی جاتی ہے مگر ہم اپنی نئی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کر نے کے خواہاں پروفیسرز کے ساتھ ہتک آمیز سلو ک کر تے ہیں اور انکے خلاف وال چالکنگ کے علاوہ مساجد اور اخبارات میں بھی بیانات دینے سے گریز نہیں کر تے۔

ملک بھر میں سیکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر یونیورسٹیاں اور دیگر تعلیمی ادارے بند کر دئیے گئے ہیں تاکہ سیکیورٹی کے بہتر انتظامات کئے جا سکیں۔قراقرم یونیورسٹی بھی دو ماہ قبل ایک پروفیسر کے ساتھ شرپسند عناصر کی جانب سے بہیمانہ تشدد کے واقعہ کے بند کی گئی تھی اور بعد ازاں موسم سر ما کی تعطیلات کی وجہ ابھی تک بند ہے۔اس واقعے کے بعد تمام اساتذہ نے صوبائی حکومت اور یونیورسٹی کی اتتظامیہ سے سیکیورٹی کیلئے بہتر اقدامات کر نے اور یونیورسٹی میں رینجرز کی تعیناتی تک کلاسسز کے اجراء سے معذرت کی تھی مگر صوبائی حکومت نے اس سلسلے میں کوئی اقدام نہیں اٹھایا ہے۔قراقرم یونیورسٹی سمیت تمام تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی کی صورتحال بہتر کر نے کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے لہذا صوبائی حکام کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر تے ہوئے اس معاملے کو ہنگامی بنیادوں پر حل کر نے کی ضرورت ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی و مذہبی رہنما خطے کی اس واحد یونیورسٹی کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر نے سے گریز کر تے ہوئے ناجائز مداخلت سے اجتناب کریں اور یونیورسٹی انتظامیہ کو سیکیورٹی سمیت دیگر معاملات میں معاونت فراہم کریں تاکہ ہماری نئی نسل حصول تعلیم کو اپنی اولین ترجیح بنا کر سازگار ماحو ل میں مستقبل کے چیلنجز کا سامنا کر نے کیلئے تیار ہو سکے۔صوبائی وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الر حمن اور وازارت تعلیم کے حکام نے حالیہ دورہ بر طانیہ میں خصوصی طور پر گلگت بلتستان میں شرح خواندگی کے فروٖغ اور اعلیٰ تعلیمی سہولیات کے حصول کیلئے اہم منصوبوں پر برطانوی حکومت کی حمایت حاصل کی ہے،جس کے مستقبل میں دورس اثرات مرتب ہو نگے،مگر ضروری ہے کہ تعلیمی شعبے میں ترقی کیلئے ہم اپنے عمومی روئیے کا جائزہ لیں اور علم دشمن عناصر کا راستہ روکیں ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button