کالمز
’’پروفیسروں کا المیہ‘‘



میں وثوق سے کہتا ہوں کہ اگر آپ لوگ اپنے پیشے اور علاقے کے ساتھ مخلص ہوتے تو یہاں سماجی اور تعلیمی انقلاب برپا ہوجاتا۔ آپ سماجی، فلاحی، تعلیمی اور ادبی و تحقیقی مجلسیں منعقدکرتے اور نوجوان نسل کی درست سمت رہنمائی کرتے اور انہیں شعور وآگاہی دیتے۔ حکومت کے لیے شفاف تعلیمی اور معاشرتی پلان تیارکرکے دیتے۔ ادبی و تعلیمی جرائد نکال کر ہزاروں نوجوانوں کو قلم و کتاب دوست بناتے اور جدید دور کی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے انہیں تیار کرتے مگر آپ کے پاس ان چیزوں کے لیے ٹائم ہی نہیں۔کوئی لکڑیاں فروخت کرتا ہے۔ کوئی چکی پیستا ہے۔کوئی لوہا بیچتا ہے کوئی چیری کا کاروبار کرتا ہے۔کوئی اسٹیشنری کی دکان لگاتا ہے۔کوئی سیپ بیچتا ہے کوئی کاسمیٹکس کی دکان سجاتا ہے۔ کسی نے اسسمنٹ کو کمانے کا ذریعہ بنایا ہے کسی نے ایگزام ڈیوٹیوں سے ڈالر بنانے کا گُر سیکھا ہے۔کسی نے قیمتی پتھر خریدنے کا دھندا اپنا یا ہوا ہے۔کسی نے این سی پی گاڑیوں کا کاروبار شروع کیا ہے۔مجھے امید ہے کہ آپ سیخ پا ہونے کے بجائے میرے بیان کردہ تلخ حقائق پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور ایک پروفیسر کا کردار ادا کریں گے۔یاد رہے کہ اگر آپ کی حالت نہ بدلی تو گلگت بلتستان کے عوام آپ کو بھی ٹیچرایسوسی ایشن کی طرح ایک پریشر گروپ سمجھیں گے ‘‘۔