کالمز
سیاسی قبلہ اور نظر وں کا دھوکہ
تحریر:الطاف گوہر ایڈوکیٹ
میرے ایک محترم اور سینئر نے سیاسی قبلہ کے عنوان سے مضمون لکھا ۔ جراء ت اور ہمت کی کہ اپنے دوست کو جواب دوں،یا اصل حقائق چترال کے باشعور اور غیرت مند عوام کے سامنے لاؤں۔ میں فیصلہ عوام کی عدالت پر چھوڑ تا ہوں ۔
عوامی جذبات سے کھیل کر سیاست کر نا سیاستدان اپنی کامیابی سمجھتے ہیں ۔ میں چترالی قوم کے فیصلوں کو غلط کہنے کی جسارت نہیں کرسکتا ۔اگر کمزوری ہے تو اہلیت سے عاری ہماری سیاسی نمائندوں/ سیاسی لیڈروں میں جو اپنا مدعا قوم کو سمجھانے سے قاصر ہیں۔
چترال 2015 ء میں قدرتی افات کی زد میں آیا ۔نہ صرف بڑ ے پیمانے پر مالی نقصان ہوا بلکہ قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے اس مشکل گھڑی میں عوامی مشکلات کو کم کرنے کی کو شیش کی ۔تعمیرنو کا کا م شروع کیا گیا۔لیکن بڑے دکھ کے ساتھ یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ ایک سیاسی پارٹی نے ان حالات کو سیاسی طور پر کیش کرنے کی کوشیش کی ۔عوام کا پیسہ عوام پر خرچ کرنا احسان نہیں ہے بلکہ یہ عوام کا حق ہے۔اور ایک اسلامی فلاحی ریاست کی ذمہ داری بھی ۔میں اس بات میں بھی پڑنا نہیں چاہتا کہ مرکزی حکومت نے کتنی امداد دی اور صوبائی حکومت نے کتنی ؟عوام کا حق عوام کو ملناہے۔پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے عوام دوست اور فلاحی اقدامات کے حوالے سے چترالی قوم کو اگاہ کرنا میرا فرض بنتا ہے صوبائی حکومت نے مختلف شعبوں میں انقلابی اقدامات اٹھائے ہیں جنوبی افریقہ کے عظیم ر ہنمانیلسن منڈیلاکہتے ہیں۔
Education is the most power ful weapon which you can use to change the World .
تعلیم کو پوری دنیا میں انسان کا بنیادی حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں خواندگی ریٹ55%ہے اور تعلیم کے اعتبار سے دنیا میں 160ویں نمبر پر ہے خطرناک سیکورٹی رسک کے باوجود kpkمیں شرح خواندگی 50%سے اوپر ہے ۔2014میں ایک سروے کے مطابق سکولوں میں طالب علموں کے داخلے کا شرح kpkمیں 83%رہاجبکہ پنجاب میں 70%رہا۔ایک شفاف نظام N.T.Sکے تحت آٹھ ہزار اساتذہ بھر تی کئے گئے اور چھ ہزار مذید اساتذہ بھرتی کرنے ہیں۔آزاد منیٹرنگ سسٹم متعارف کرایا گیا جس کے تحت اساتذہ اور طالب علموں کی حاضری کو یقینی بنایا گیا ۔پچھلے ادوار میں ملازمتیں کس طرح تقسیم ہوتی تھیںیہ سب کو پتہ ہے اور ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ k.p.kایک کرپٹ صوبہ کہلاتا تھا ۔آج قوم کی ایک غریب بیٹی صرف اور صرف اپنی قابلیت کے بل بوتے پر اپنا حق حاصل کرتی ہے۔
صحت کا ذکر کیا جائے تو میڈیکل ٹرٹمنٹ تمام سرکاری ہسپتالوں میں مفت ہے حکومت K.P.K نے ’’ صحت کا انصاف‘‘ پروگرام شروع کیا تاکہ پولیو جیسے موزی مرض کا معاشرے سے خاتمہ ہو WHO نے بھی اس پروگرام کو سرا ہا ۔یہ بات قابل ذکر ہے ،اس پروگرام کے بعد کوئی پولیو کیس سامنے نہیںآئے ہے ۔
پولیس ڈیپارٹمنٹ کو سیاست سے پاک کیاگیا ۔یہاں تک کہ وزیر اعلیٰ بھی مداخلت نہیں کرسکتا کرپشن کے جرم میں 129 آفیسرز کو نوکریوں سے ہاتھ دھو نے پڑے جبکہ 7 کو ڈیموڈ کیا گیا۔ان لائن ایف آئی آر متعارف کرایا گیا ۔ جو پاکستان میں پہلی دفعہ اپنی مثال رکھتا ہے۔
پچیس سے زائد Bills کے پی کے اسمبلی میں پاس کئے گئے ۔رائٹ ٹو انفارمیشن بل کو Update کیا گیا ۔جو شفا فیت کی طرف ایک بہت بڑا قدم ہے ۔رائٹ ٹو سروسز ایٹ ایک او رقانون جس کے تحت ہر شہری عوامی مسائل کے حوالے سے حکومتی اہلکار / ذمہ دار سے کوئی سوال کرنے کاحق رکھتا ہے اور حکومتی اہلکار / ذمہ دار جواب دینے کا پابند ہے جواب نہ دینے کی صورت میں حکومتی اہلکار / ذمہ دار کے خلاف شہری Complaint کرسکتا ہے ۔
بلین ٹری سونامی کو عالمی سطح پر پذیر حاصل ہوئی ۔حالیہ عرصے میں پاکستان میں دو فلائی اور بنے ،ایک آزادی فلائی اور لاہور اور دوسرا باب پشاور ،پشاور میں بنا ،دونوں چھ ماہ کے مدت میں تیار ہوئے۔ آزادی فلائی اور کی لمبائی 2.53 کلومیٹر جبکہ باب پشاور کی لمبائی 2.12 کلومیٹر ہے ۔آزادی فلائی اور پر 5 ارب35 کروڑ روپے جبکہ باب پشاور پر 1 ارب 75 کروڑ روپے خرچ آیا ۔باب پشاور پر 82 کروڑ 54 لاکھ فی کلومیٹر جبکہ ٓازادی فلائی اور پر 2 ارب 11کروڑ فی کلومیٹر اور اسی طرح فی میٹر لاگت کا اندازہ لگا یا جائے تو باب پشاور پر فی میٹر 8 لاکھ 25ہزار اور آزاد ی فلائی اور پر 21 لاکھ 14 ہزار خرچ آیا ہے ۔
پاکستان اسٹیل میل خسارے میں ہے ۔اور سعودی عرب میں Hill Metals Est منافع میں جارہا ہے ۔شاید چترال کا قیمتی لوہا بھی پاکستان اسٹیل میل میں کار آمد بنا نے کے بجائے سعودی عرب کے Hill Metals Est کو منتقل کیاجائے گا موجودہ حالت یہ ہے کہ جو تعلیم اور صحت پر پیسہ لگاتے ہیں وہ ملک اور قوم کے دشمن ہے اور جو میٹرو بناتے ہیں اور اپنی لوہار فیکٹر ی کو 5 سال تک لاتعداد کنٹریکٹ دلواتے ہے وہ ملک کے خیر خواہ ہیں۔
اگر لیڈر سیاسی قبلہ تلاش کرتے پھریں تو قوم illusions میں مبتلا ہوگی۔
زمانہ معترف ہے ہماری استقامت کا
نہ ہم نے شاخِ گل چھوڑی نہ ہم نے قافلہ بدلہ
راہ الفت میں گوہم پر بڑے مشکل مقام آئے
نہ ہم منزل سے باز آئے نہ ہم نے رہنمابدلہ