کالمز

گلگت سکردو  روڈ  ۔۔۔سیاسی اکھاڑہ یا معاشی منصوبہ

سید قمر عباس حسینی

شاہراہوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا،حکومت پاکستان بھی ملک کے مختلف شہروں میں موٹرویز اور ہائی ویز  اور دیہی علاقوں کو شہروں سے ملانے کے لیے اربوں روپے خرچ کر کے سڑکیں بنا رہی ہے یقینا اس سے عوام کو سہولت فراہم ہوگی ،خطہ ترقی کرے گالیکن کب حکومت کی توجہ اس سر زمین بے آئین پر پڑے گی  جہاں ۱۹۷۸ میں تعمیر ہونے والی  گلگت سکردو روڈ  کئی سالوں سے حکمرانوں کی توجہ کی طالب ہے۔ یہ شاہراہ   جو بلتستان کے سات لاکھ سے زائدلوگوں اوردیگر چار اضلاع سے تعلق رکھنے والے لوگوں  کی واحد گزرگاہ ہے  یہ  اسٹرٹیجک اہمیت کے اعتبار سے  بھی پاکستان کے لیے نہایت ہی اہمیت کی حامل ہے۔

قارئین کو معلوم ہونا چاہیے کہ سیاچن  جیسے اہم ترین محاذ پر جانے کا  یہ واحد راستہ ہے ۔ اسی طرح سیاحت کے فروغ کو اگر ملحوظ نظر رکھا جائے توk2  اور  دنیا کی دیگر اہم ترین پہاڑی سلسلے  ، شنگریلا، سد پارہ ، دیوسائی وغیرہ کا واحد زمینی راستہ یہی شاہراہ ہے لیکن حکومت  کی عدم توجہ کی وجہ سے یہ اب مکمل طور پر ناقابل استعمال ہو چکی ہے ۔بلا شبہ  یہ  سڑک دنیا کی عجائبات میں سے ایک ہے اس پر نہ کہیں  تارکول کے اثار دیکھائی دیتے ہیں ،نہ  کہیں سولر لایٹنگ کا انتظام ہے، نہ  سپیڈ بریکر کا کہیں وجود ہے، نہ سائن بورڈ ز جو خطرناک جگہوں سے ڈرائیورکو  آگاہ کریں ،نہ ریسکیو کا انتظام اور نہ ہی  پولیس پٹرولنگ  کا بندوبست ہیں اسے دنیا کا عجوبہ نہ کہیں تو کیا کہیں ؟

 باوجود ان تمام خامیوں اور مشکلات کے یہاں کے عوام اور اس علاقے میں آنے والے سیاح اس راستے پر سفر کرنے پر مجبور ہیں جبکہ کئی قیمتی جانیں اس شاہراہ کی خستہ حالی کی وجہ سے  تلف ہوچکی ہیں ۔بہت ساری گاڑیاں دریا  برد  ہو چکی ہیں ۔  لیکن ابھی تک کسی بھی حکومت  نے اسے تعمیر کرنے   کی سنجیدہ کوشش نہیں کی جبکہ گذشتہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے پانچ سال اسی شاہراہ کی تعمیر کا نعرہ لگاتے ہوئے اپنی مدت تمام کی اور موجودہ حکومت بھی وعدوں اور نعروں کے سوا کچھ کرتے ہوئے دیکھائی نہیں دیتے۔

 گلگت بلتستان کی صوبائی حکومتیں چاہیے مسلم لیگ نون کی  حکومت ہو یا پیپلز پارٹی کی   گلگت سکردو روڈ کو  صرف اور صرف بر سر اقتدار آنے کے لیے بطور ایشو  رکھتے ہیں  ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لوگ اپنے عوام کےساتھ مخلص اور وفادار نہیں ہیں ۔ انہیں اپنی اقتدار اور سیاسی مفادات سے سرو کار ہے جو کبھی آئینی حقوق ،کبھی گلگت سکردو روڈ، کبھی اقتصادی راہداری کے نام سے ہی حاصل کرنا ہوتا ہے ۔

کیا انسانی جانوں کا ضیاع اور مالی و مادی نقصانات حکومت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں ہے ؟  کیا اب  بھی اس شاہراہ کی تعمیر کے لیے کبھی ایشائی ترقیاتی بنک ،کبھی چینی ایگزام بنک اور وفاقی فنڈ کے بہانے بناتے رہینگے؟جبکہ گورنرگلگت بلتستان میر غضنفر  کی تقریب حلف برداری  میں وزیراعظم نے گلگت سے سکردو تک ہائی وے بنانے اور اسے اقتصادی راہداری سے ملانے کا اعلان بھی کر چکے ہیں  اب   گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے اراکین اپنی خاموشی کے پردے چاک کر کے اپنی تمام تر توانائی وزیر اعظم میاں نواز شریف کے اعلان پر عمل کروانے پر صرف کریں ۔

سکردو  روڈ کو وقتی ،عارضی اور نام نہادسیاسی مفادات کا اکھاڑہ بنانا مناسب نہیں ہے یہ روڈ اب  ملکی معیشت کی موت اور حیات کا مسئلہ بن چکی ہے  لہذا اس کی تعمیر حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button