کالمز

انسانی حقوق سے آئینی حقوق تک کا سفر

تحریر: سید قمر عباس حسینی

انسانی حقوق سے مراد  وہ حقوق ہیں جو تمام انسانوں کو جنم سے مرنے تک ہر جگہ اور ہر وقت برابر کی بنیاد پر حاصل ہونے چاہئیں۔بین الاقوامی دستاویزات کے مطابق انسانی حقوق [ [Human Rights کے لسٹ میں دیگر تمام حقوق کے ساتھ حق مساوات، حق نمائندگی، حق رائے دہی، انتخاب حکومت کا حق، اچھی سہولیات اور بہتر معیار زندگی کا حق،یہاں تک کہ جنگلات ،جانوروں اور پرندوں کے تحفظ کا حق اور جغرافیائی حدود کے بغیر تمام عالمی اور بین الاقوامی حقوق کے حصول کا حق موجود ہیں اور ہاں انفرادی نقطۂ نظر، اجتماعی نقطۂ نظر، اخلاقی نقطۂ نظر، قانونی نقطۂ نظر، سیاسی نقطۂ نظر، معاشرتی یا سماجی نقطۂ نظر، مذہبی نقطۂ نظر معاشی یا اقتصادی نقطۂ نظر، تاریخی نقطۂ نظر یا بین الاقوامی نقطۂ نظرسے بھی لوگوں کو حقوق حاصل کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔

لیکن آج ۶۸ سال گزرنے کے باوجود آئینی حقوق تو دور کی  بات ارباب  اختیار گلگت بلتستان کے عوام کو انسانی حقوق دینے سے بھی انکار کیا جارہا ہے ۔یہاں تک کہ ظلم و ستم کا نشانہ بننے کی صورت میں بھی یہاں کے عوام کو عدالت عالیہ میں جانے کا بھی حق حاصل نہیں ہے اورباوجود اس کے کہ یہ خطہ سیاحت ، معدنیات  اور اسٹرٹیجک لحاظ سے نہایت اہم علاقہ ہے اپنی معاشی ضروریات کا بھیگ فیڈرل گورنمنٹ سے مانگ مانگ کر تھک چکے ہیں اگر  حکومت ہی اس علاقے پر توجہ دیتی تو یہ علاقہ نہ صرف اپنی ضروریات میں خود کفیل ہوتا بلکہ پاکستان کے دیگر شہروں کی ضروریات یہاں سے پورے کئے جاسکتے تھے مگر حکمرانوں کی عدم توجہی کی وجہ سے  غربت، پسماندگی، شعور و آگاہی کا فقدان اور نااہل،بدعنوان اور غدار حکمران بد قسمتی سے اس عوام کا مقدر بن چکی ہے۔ اس طرح انسانی حقوق پر سفاکانہ وار پے وار کیے جارہے ہیں ۔ اکیسوی صدی کے اس جدید دور میں جہاں دنیا میں جانوروں کے حقوق کا نہایت احتیاط سے احترام رکھا جا رہا ہے وہاں کسی قوم کو 68سالوں سے بنیادی انسانی حقوق اور آئینی حقوق سے محروم رکھنا سر ا سر زیادتی ہوگی۔

یادر ہے کہ جب بھی یہاں کے عوام  آئینی حقوق کی بات کرتے ہیں انہیں گنی چنی بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہے اور اصل مسئلے سے لوگوں کے اذہان کو ہٹانے کے لیے کبھی گندم کا بحران پیدا کیا جاتا ہے تاکہ یہاں کے لوگ بنیادی انسانی حق کے لیے بھیگ مانگتے رہے اور آئینی حقوق سے توجہ ہٹ جائے تو کبھی نفاذ ٹیکس کے معاملوں کو بڑھا چڑھا کر لوگوں کو پریشان رکھا جاتا ہے۔اور کبھی اکنامک کوریڈور سے  محرومی اور کبھی  زندگی کے دیگر سہولیات سے محرومی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے ۔ اس سے زیادہ انسانی حقوق سے محرومی اور کیا ہوگی کہ جو شاہراہ گلگت بلتستان کے نصف سے زیادہ عوام کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہو اسے بنوانے کے لیے عوام کو کئی سال  احتجاج کرنا پڑے  اور پھر بھی  لیت و لعل کرتے ہوئےوقت گزار ے ۔ہسپتالوں اور صحت کے سہولت کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو اسلام آباد علاج کے لیے جانے کی ضرورت پڑنا،مناسب نظام تعلیم کا فقدان اور نئی نسل کی تعلیم و تربیت کو ذریعہ کاروبار بنا کر غیر منظم اور غیر معیاری تعلیمی اداروں کے قیام پر حکومت کی پر اسرار خاموشی اوربے روزگاری سے تنگ نوجوانوں کا منشیات ،فحاشی اور دیگر اخلاقی برائیوں میں مرتکب ہونا، روز بہ روز منشیات کی اڈوں کا اضافہ ہونا اور ان کی سد باب کے لیے قابل ذکر اقدام نہ کرنا  انسانی حقوق   کے تحفظ فراہم کرنے والے اداروں کے  منہ پر طمانچہ نہیں تو اور کیا ہے؟

ایوان اقتدار میں تخت حکومت پر متمکن حضرات وعدے بہت کرتے ہیں وعدہ وفائی ہوئی یا نہیں اس پر کچھ کہنا سعی لاحاصل ہے کیونکہ تاریخ کھلی کتاب کی طرح دنیا کے سامنے ہے ۔گلگت بلتستان کے غیور عوام نصف صدی سے خالی مصیبتیں اور حقوق کی پامالیوں کی المناک گھڑیاں دیکھتی چلی آئی ہے۔یہ قوم اپنے آئینی حق کے لیے لڑ مر رہی ہے اور بدلے میں اس کی آرزووں اور خواہشات کی تکمیل تو دور اسے انسانی اور بنیادی حقوق [فنڈامنٹل رائٹس]سے بھی بے دخلی کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔اور ارباب اختیار لوگوں کے جائز مطالبات پر آنکھیں بند کرنے لگتے ہیں .یہاں تک کہ  ۱۹۹۹ میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں  حبیب وہاب الخیری کی جانب سے ایک  پٹیشن  داخل ہوئی جس میں سیکرٹری وزارت امور کشمیر و شمالی علاقہ جات (موجودہ گلگت بلتستان) کو فریق بنایا  گیا تھا ۔ سپریم کورٹ نےاس پٹیشن کا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی کہ شمالی علاقہ جات کے لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور انصاف کی فراہمی کے لیےا قدامات کیے جائیں۔لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہو ا۔ یہاں کے عوام کو انسانی بنیادی حقوق  اور آئینی حقوق  کیسےملے گا جب کہ یہاں کے منتخب نمائندے ذاتی مفادات کو ہمیشہ عوامی مفادات پر ترجیح دیتے رہے ہیں ۔ایوان میں قدم رکھنے کے بعد ہمیشہ کے لیے قدم جمانے کی سوچ میں مگن نمائندے کہاں عوامی حقوق کی بات کرینگے ؟

انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام پہلے انسانی اور بنیادی حقوق حاصل کریں اور پھر آئینی حقوق کی جنگ لڑیں کیونکہ ہم ایسے خطے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کے لوگوں کو اس ماڈرن دور میں جدید سہولیات زندگی تو دور کی بات فنڈامنٹل رائٹس بھی میسر نہیں ہیں اس عالم میں گلگت بلتستان کے عوام کو انسانی حقوق کی حصول کے سفر کو طے کر کے آئینی حقوق تک رسائی حاصل کرنے میں بڑا ہی وقت لگے گا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button