کالمز

گلگت بلتستان ۔۔۔۔۔تہذیبی یلغار اور منشیات کی زد میں

تحریر : سید قمر عباس حسینی

گلگت  و بلتستان اسلامی تہذیب  و تمدن سے مالا مال ہے ۔ اس  وقت یہاں کی اسلامی تہذیب و تمدن  کو مغربی تہذیبی  یلغار کا سامنا ہے ۔ لبرل اور ماڈرن فکر رکھنے والے نام نہاد دانشمند  لوگ اس معاشرے میں موجود اسلامی آداب و رسوم  کے پابند افراد کو پتھر کے زمانے کے لوگوں سے تشبیہ دیتے ہیں   اور پرانے ذہن کے لوگ سمجھتے ہیں ۔

  یہی وجہ ہے کہ اس معاشرے میں موجود نوجوانوں اور جوانوں کو آداب اسلامی سے بیگانہ کر کے مغربی کلچر کو یہاں رائج کرنے کی خاطر طر ح طرح کے حربے استعمال کئے جارہے ہیں ۔ ان میں سے ایک اہم ترین حربہ منشیات کا عام کرنا ہے۔گلگت بلتستان کا وہ معاشرہ جہاں کچھ سالوں  پہلے سگریٹ نوشی  تک کو  باعث نفرت سمجھاجاتا تھا اور اس کے عادی افراد چھپ چھپا کےسگریٹ نوشی کرتے تھے آج اسی معاشرے میں بے شمار افراد چرس،افیون،شراب اور نشہ آور انجکشن  استعمال کرتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے ۔

ان دنوں یہاں کی نوجوان نسل ماڈرن سوسائٹی کے نام پر بری سوسائٹی کی شکار  ہے۔اگرچہ بظاہرتعلیم عام ہو گئی ہے مگر  احترامِ انسانیت مٹتا جارہاہے،دولت آگئی ہے مگر ہمدردی اور میل جول پیارو محبت کا خاتمہ نمود و نمائش کے ساتھ ساتھ تکبر،غرور، بے حیائی اورفیشن میں اضافہ ہو گیا ہے ۔نفسا نفسی کا یہ عالم ہے  کہ ہمدردی تو دور کی بات ہمدردی کے دو بول بولنے اور دلاسہ دینے یا نصیحت کرنے کا احساس تک  ختم ہو چکا ہے ۔بڑھتی ہوئی منشیات کی وجہ سے معاشرے میں اور بہت سی برائیاں جنم لے رہی ہیں جن میں چوری، ڈکیتی، فراڈ اور زنا  جیسے جرائم قابل ذکر ہیں۔

یاد رہے کہ جہاں نوجوانوں کو معاشرتی برائیوں سے دوررکھنا والدین، اساتذہ  اور علمائے کرام کی ذمہ داری ہے وہیں سب سے بڑی ذمہ داری حکومت وقت کی ہے جو منشیات جیسی معاشرتی برائیوں کی خرید وفروخت پرپابندی کے ساتھ ساتھ منشیات کی ان علاقوں  میں اسمگلنگ کو مکمل بند کرنے پراپنی سنجیدگی کا اظہار کرے۔

                کسی بزرگ کے بقول اب منشیات کے عادی افراد گلگت بلتستان میں اس قدر منظم ہوچکے ہیں کہ یہ لوگ آپس میں میٹنگز کر کے اپنی نشے کی ضروریات  کو پورا کرنے ، بر وقت ترسیل کو آسان بنانے اور نشہ آور چیزوں کی خرید و فروخت کے مد میں خرچ کیے جانے والے پیسوں کو بھی اپنے کمیونٹی میں رکھنے کے لیے صلاح و مشورے کرتے ہیں ۔یوں گلگت بلتستان کا معاشرہ تیزی کے ساتھ تباہی اور بربادی کی جانب رواں دواں ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ منشیات کے دھندے کو پھیلانے میں کون کون سے عناصر ملوث ہے اور کون کونسی شخصیات  منشیات کے اس گھناونے کاروبار میں ملوث عناصر کی پشت پناہی کررہی ہے ؟یقینی امر ہے کہ جب تک بڑے بڑوں کا اس جرم میں ہاتھ نہ ہو یہ کاروبار نہیں چل سکتا ۔اس کاروبار کا نیٹ ورک جس انداز میں پھیل رہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اعلی سطح کے افراد بھی ملوث ہیں ۔شاید یہی وجہ ہوگی کہ مقامی پولیس بھی ان کے خلاف سخت کاروائی کرنے سے کتراتی ہےوگرنہ ایسے افراد کو سلاخوں کے پیچھے بند کرنے میں ذرا بھر دیر نہیں کرنی چاہیے۔

کس قدر مضحکہ خیزامر ہے کہ  یہاں کے سیاستدان ویسے تومنشیات کو لعنت سمجھتے  ہیں لیکن نہ اس کی  صنعت کو روکتے ہیں  اور نہ ہی اس کی خریدوفروخت کے حوالے سے کسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔ ایک سروے کے مطابق اگر  اس  کےتدارک کے لیے کوئی  سنجیدہ  قدم نہ اٹھایا  گیا تو یہ  لعنت اب نہ صرف لڑکوں تک محدود رہے گی بلکہ اس کا دائرہ کار صنف نازک تک پھیل جائے گا۔ یاد رہے کہ یہاں  منشیات کے استعمال کی  ایک بنیادی وجہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اورروزافزوں مہنگائی بھی ہے، لیکن سب سے افسوس سناک امریہ ہے کہ اس وقت منشیات کے استعمال  کی روک تھام کے لیے قابل قدر اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ہیں ۔

یہ ایک روشن حقیقت ہے  کہ جب تک منشیات کے استعمال کے رواج اور بڑھا وا دینے والے اسباب کا خاتمہ نہیں کیا جاتا ہے اس وقت تک اس مسئلے کو کنڑول نہیں کیا جا سکتا اور اسی طرح حکومت کی طرف سے  بھی  اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

تمام شعبہ ہائے زندگی خصوصامیڈیا ،اساتیداور علمائے کرام کی طرف سے منشیات کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اور عملی کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button