کالمز

طلبہ یونین پر پابندی کیوں ہے؟ 

تحریر: صاحب مدد شاہ

تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین پر پابندی کا تاریخی پس منظر سے معلوم ہوتا  ہے کہ اس پابندی کے پیچھے سیاسی مفادات کم اور تعلیمی اداروں کی مضبوطی اور ایک مربوط نظام تعلیم کی کاوشیں زیادہ نظر آتے ہیں۔

پاکستان میں طلبہ یونین پر پابندی جنرل ضیا الحق نے 1984 میں لگائی تھی جو تاحال برقرار ہے۔ جناح انسٹی ٹیوٹ کی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے میں جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم اسلامی جمیت طلبہ نے بنیادی کردار ادا کیا تھا جو بعد میں ضیا الحق کے ساتھ مل کر دائیں بازو کی طلبہ تنظیموں پر کریک ڈاؤن کے لیے منصوبہ بنا رہے تھے۔

 اس رپورٹ کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اسی تنظیم نے تعلیمی اداروں میں ایک ڈنڈہ بردار فورس بھی قائم کی تھی اور بعد میں مختلف طلبہ تنظمیوں کے درمیان لڑائیاں اس حد تک پہنچ گئیں کہ جامعات کے اندر اسلحہ کلچر بھی پروان چڑھا اور انہی طلبہ تنظیموں کو سیاسی پارٹیاں قومی سطح پر اپنی سیاست کے لیے استعمال کرنے لگیں۔ آج پاکستان کے  چھوٹے بڑے سیاسی جماعتوں کے طلبہ تنظیمیں ہر کالج اور یونیورسٹی میں سرگرم عمل ہے۔

طلبہ تنظیموں کا کام طلبہ کے مسائل کو اجاگر کرکے انتظامہ کے ساتھ ملکر حل تلاش کرنا ہے مگر آج کل تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں کے خدمات کی ایک نہ ختم ہونے والی لسٹ مرتب کی جاسکتی ہے جس میں دوسری جماعتوں کے طلبہ کے ساتھ تصادم، زبردستی کلاسسز کو بند کروانا, اساتزہ کو ڈرا دھمکا کر نتائج میں ردوبدل کرانا، طلبہ کو جنسی طور پر حراساں کرنا ، مذہبی منافرت پھیلا کر تعلیمی اداروں کے ماحول کو خراب کرنا وغیرہ شامل ہیں۔

 دنیا کے دیگر ممالک میں طلبہ یونین میں سیاسی جماعتوں کا عمل دخل بالکل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے،  جبکہ پاکستان میں طلبہ یونین کو سیاسی پارٹیاں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں جس سے تعلیمی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوتی ہے ۔ ریاست کو چائیں کہ وہ  طلبہ یونینز کی بحالی سے پہلے  طلبہ میں یہ آگاہی پھیلائے کہ انہیں صرف طلبہ کے جائز حقوق کے لیے استعمال کیا جائے اور طلبہ یونین کسی ذاتی یا سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہ ہوں۔

اکثر سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سیاسی جماعتوں کے جھنڈے  لگے ہوتے ہیں، طلبہ کو مجبور کر کے  سیاسی جماعتوں کی چھتری تلے لایا جاتا ہے ، اگر کوئی طالب علم کسی سیاسی جماعت کی طلبہ تنظیم میں شمولیت سے انکار کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکی دی جاتی ہے ، اس طرح اکثر طلبہ مجبوری میں سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں جس سے پڑھائی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔  خدا ذلفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو غریق رحمت کریں ان کی یوم پیدائش اور برسی کے موقع پر کراچی کے کچھ جامعات میں  ایک ہفتے پہلے انتظامات کے لیے طلبہ کو ٹاسک دیا جاتا ہے، اس ہفتے کلاسس کا مکمل طور پر بائکاٹ ہوتا ہے ، آپ جس حالت میں بھی ہو بی بی اور بھٹو کی یوم پیدائش اور برسی پر گھڑی خدا بخش میں حاضر ضروری ہے، دوران کلاس کسی بھی وقت میٹنگ بلائی جاتی ہے بھلا آپ کا امتحان ہی   کیوں نہ ہو آپ کو میٹنگ اٹینڈ کرنا ضروری ہے۔  اسی طرح غالباً سارے سیاسی جماعتیں   طالبہ کو  یرغمال بنا کر اپنی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں  جو بہت ہی قابل افسوس عمل ہے، اس طرح سے اکثر طلباء تعلیم کو مکمل طور پر ترک کرتے ہیں یا تعلمی سال  کے درمیان میں چھوڈ کر  دوسرے جامعات میں داخل ہونے پر مجبور ہوتے ہیں، طلبہ کی پہلی ترجیح ان کا تعلیم ہونا چائیے نہ کی سیاسی سرگرمیاں۔

طلبہ یونین کو سیاست کی نرسری سمجھا جاتا ہے جہاں سیاسی لیڈروں کی تربیت ہوتی ہے ، آج  پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں سیاسی نمائندوں کی حالت زار سے معلوم ہوتا ہے کہ  سیاسی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے لیڈر بننے کے بجائے سب اگلے الیکشن کے انتطار میں رہتے ہیں ، کسی بھی طریقے سے اقتدار مل جائیں اور اگلا پچھلا حصاب برابر کر سکتے۔   حکومت کو چائیں کہ تعلیم سے سیاسی مداخلت ختم کر کے   ایک جامع پالیسی مرتب کر کے طلبہ یونین کو بحال کیا جائیں تاکہ طلبہ اپنے حقیقی مسائل کا حل خود تلاش کر سکے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button