کالمز

صریر قلم ۔۔۔۔۔ بھوک اور افلاس کا راج کیوں؟

تحریر :مجیب الرحمان
صحافت سے منسلک ہونے کے ناطے خبروں سے آگاہی ہوتی رہتی ہے۔گزشتہ روز ٹیلیویژن کی سکرین پر چلتی ایک خبر پر اچانک نظر پڑی۔جس میں ملتان کے ایک باپ اور انکے بچوں کی زہر خورانی کا ذکر تھا۔باپ اور انکے ہمراہ بیٹی کاانتقال اور باقی دو بچوں کی حالت ناگفتہ بہ اسپتال منتقل بچانے کی کوششیں جاری وغیرہ وغیرہ،مجھے اس خبر پر دلی صدمہ ہوا اور تجسس ہوا کہ اصل ماجرا کیا ہے۔ایک دم خیال آیا شاید کوئی ذاتی رنجش ہوگی یا زمین جائیداد کا کوئی تنازعہ ہو۔لیکن اس وقت خبر صرف ٹکر کی حد تک ہی تھی۔شاید تفصیلات کسی اور نیوز بلٹن میں آن ائیر ہوئی ہوں۔لیکن خبر کی تفصیل کے لئے اخبارات اور نیوز ویب سائٹس تلاش کیں اور ساتھ ہی سوشل میڈیا کا سہارا بھی لینا شروع کر دیا۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک میں ایک صحافی دوست کی پوسٹ میں خبر کی تفصیل ملی جس میں اخباری کٹ پیس موجود تھا اور تفصیلی خبر پڑھنے کو ملی ۔خبر کیا پڑھنی تھی بے ساختہ رونگھٹے کھڑے ہوگئے۔ چالیس سالہ آصف نے بھوک سے تنگ آکر بیٹیوں تحریم ،نور فاطمہ، بیٹا شاہ میرکے ہمراہ پانی میں زہر ملا کر پی لیا اور بھوک سے ہمیشہ کے لئے خلاصی پانے کی کوشش کی ہے۔اس کوشش کے دوران آصف اور انکی بیٹی تحریم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے اور بھوک سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارہ پالیا جبکہ باقی دو بچے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے۔جنہیں ہسپتال میں علاج معالجہ کے بعد بچا لیا گیا۔

اس کہانی کو سخت سے سخت دل بھی پڑھے یا سنے تو وہ بھی ضرور غمگین ہوگا۔یہی نہیں ہر روز ہر پل مملکت خداداد کے کسی بھی شہر قصبے گاؤں سے غربت اور فاقہ کشی سے تنگ ہوکر خود کشی کی خبر یں ضرور پڑھنے اور سننے کو ملیں گی۔گزشتہ ایک عرصے سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے سندھ کے ضلع تھر میں میں غذائی قلت سے روزانہ درجنوں معصوم پھول کھلنے سے قبل ہی مر جھا رہے ہیں۔ابھی تک سینکڑوں معصوم موت کی بستی میں جا چکے ہیں۔بعض حکومتی احباب کو یہ بھی کہتے سنا گیا ہے کہ یہ بچے کسی اور بیماری کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔جی ہاں انکی بات سے اعتراض بالکل نہیں لیکن ماہرین کے مطابق حاملہ ماؤں کو خوراک کی کمی ہی معصوم بچوں کی موت کا اصل سبب ہے۔

معروف خبر رساں ادارہ بی بی سی کے مطابق تھر میں سال کے ابتدائی چھے ایام میں پندرہ ماؤں کی گودیں اجڑ چکی ہیں۔یہ اعداد و شمار انسانیت کوتاحال جھنجھوڑنہ سکا۔وفاقی حکومت سے لیکر صوبائی حکومت تک سب خاموش تماشائی بنے ایک دوسروں پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔حکومتی مجرمانہ غفلت کے اعتراف پر صرف سوموٹو ایکشن تو لیا گیا لیکن اب تک ذمہ داروں کا تعین نہ ہوسکا اور نہ ہی قحط زدہ علاقوں کو تاحال صحیح انداز میں ریلیف مل سکی۔مجھے افسوس اور حیرت اس بات پر بھی ہو رہی ہے کہ این ڈی ایم اے کے چئیرمین نے بھی گزشتہ دنوں تھر کے قحط زدہ علاقوں کا دورہ کیا اور کہا کہ صورتحال اتنی سنگین نہیں۔جی بالکل سنگین نہیں ہے۔روزانہ درجنوں پھول مرجھا رہے ہیں مال مویشی مر رہے ہیں۔لوگ ہجرت پر مجبور ہیں۔حکومتی اہلکار سب اچھا ہی رٹ لگائے جا رہے ہیں۔اس ملک میں اللہ کا عذاب نہیں آئے گا تو اور کیا ہوگا۔کیا ملک میں ہر سو پھیلی دہشتگردی عذاب سے کم ہے۔کوئی شخص اپنی مذہبی عبادت بھی بلا خوف نہیں کر سکتا ہے۔حکمران اپنی فول پروف سیکیورٹی کے بغیر کہیں آزادانہ آ جا بھی نہیں سکتے ۔ایک طرف بھوک اور پیاس سے ننھے معصوم بلک بلک کر اور سسک سسک کر مر رہے ہیں۔دوسری جانب حکمران اپنی کرسی سے خود کو چپکا کر سب اچھا ہے کی رٹ لگائے جا رہے ہیں۔میڈیا کسی بات کی نشاندہی کرے تو آسانی سے کہہ دیتے ہیں میڈیا اچھال رہا ہے۔میڈیا کوئی واقعہ نہ ہو تو کیوں اچھالے ۔کیا تھر میں ابھی تک خوراک کی قلت سے سینکڑوں بچے نہیں مرے ہیں؟

ایک افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ قحط سالی کے پیش نظر میڈیا کی کوششوں سے ہسپتالوں کی بہتری کے لئے بجٹ کا اعلان بھی کیا گیا مگر ابھی تک کوئی عملدرآمد نہیں کیا جا سکا ہسپتالوں کی حالت زار بھی وہی ہے۔کہیں ڈاکٹر ہے تو دوا نہیں ہے۔حسرت بھری آنکھوں سے پاکستان کی 19638مربع کلومیٹر کے رقبے پر رہائش پذیر قوم یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا ہم انسان نہیں کیا ہم اس ملک کے شہری نہیں کیا ہم بلاواسطہ یا بالواسطہ ٹیکس ادا نہیں کر رہے ہیں۔ایک طرف پنجاب میں سڑکوں پر اور اپنی نمود و نمائش پر قوم کا سرمایہ لٹایا جا رہا ہے۔ملک کا وزیر اعظم ایک ایک دورے پر اربوں روپے جھونک رہا ہے۔اس رقم سے غریبوں کے پیٹ کی بھوک بھی مٹائی جا سکتی ہے۔ حکومتی بے حسی پرجتنا کہا جائے کم ہے۔عوامی خزانے پر براجمان حکمرانوں کو کب احساس ہوگا کہ تھر کے صحراؤں اور ریگستانوں میں پیدا ہونے والا بچہ بھی بلاول کی طرح اپنے ماں باپ کے لئے لاڈلا ہوتا ہے۔ہر ماں باپ کی پیدا ہونے والی بچی آصفہ اور بختاور اور مریم نواز،حسین نواز ہے۔ملک کے کسی بھی کونے میں بھوک پیاس سے مرنے والے انسان کے بارے میں حکمرانوں سے روز محشر ضرور پوچھا جائے گا ۔
چوبیس لاکھ مربع میل پر حکومت کرنے والے عادل خلیفہ حضرت عمر فاروقؓ کے آنسو انہیں یاد نہیں آ رہے ہیں جو راتوں کو اٹھ اٹھ کر پہرا دیتے تھے اور لوگوں کی ضرورت کا خیا ل رکھتے تھے۔اور کہتے تھے کہ دریائے فرات کے کنارے کتا بھی پیاسا مر گیا تو کل قیامت کے روز عمر تجھے جواب دینا ہوگا۔ڈھائی سال حکومت کے دور میں عدل و انصاف کا یہ عالم تھا کہ لوگ ہاتھوں میں خیرات لئے پھرتے تھے کوئی محتاج ہی نہیں ملتا تھا۔اتنے بڑے خلیفہ اور گورنر تن پر پہننے کے لئے پیوند لگا ایک ہی جوڑا ۔سبحان اللہ
ایک طرف ہمارے حکمران ہیں کہ ہر روز نیا جوڑا وہ بھی لاکھوں کا ،اور پھر ظلم یہ کہ غریبوں سے ٹیکس کی مد میں وصول کی گئی رقم کو لوٹ کر بیرون ملک سمگل کیا جا رہا ہے۔ہر طرف کرپشن اور لوٹ مار،احتساب والے ادارے ذرا حرکت میں آئیں پورا وزیر اعظم ہی چلا اٹھتا ہے خبردار کوئی ایسی غلطی کرے کیونکہ سیاہ و سفید کے مالک ہی یہی ہیں۔ایک وقت کے کھانے کے لئے وزیر اعظم ہاؤس سے کھانا ہیلی کاپٹر پر مری پہنچایا جا رہا ہے۔ایک وقت کے کھانے کا خرچہ کروڑوں کا یہی ایک وقت کے کھانے کی رقم سے تھر کے سینکڑوں غریب خاندانوں کے لئے پورے ہفتے تک کا کھانا فراہم کیا جا سکتا تھا۔چلو کھانا نہ سہی صاف پانی تو کم از کم فراہم کیا جاسکتا تھا۔
میں کس کے ہاتھ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہیں دستانے
حکومت کے ساتھ ہم بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ اسلام کے اہم رکن زکوٰۃ سے ہی عاری ہیں۔قرآن کریم میں زکوٰۃ سے متعلق تیس آیتیں نازل ہوئی ہیں۔سورۃ البقرہ سے سورۃ البینۃ تک ہر جگہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے واضح احکامات اللہ پاک نے ارشاد فرمائے ہیں۔پاکستان اسلامی ملک ہے اسکی بنیاد ہی لا الہ الاللہ پر رکھی گئی ہے۔پھر کیوں اس ملک میں قحط آئے کیوں بھوک سے خود کشیوں کی نوبت آئے۔کیوں تھر میں کھلنے سے پہلے ہی پھول مرجھائیں۔کیا ہم قرآن کریم کی آیت جس کا ترجمہ یہ ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے ساری انسانیت بچائی کو بھول گئے ہیں۔کیا یہ حکم ہمارے لئے نہیں اترا ہے۔ہمیں اپنے ہی گریبان میں جھانکنا ہوگا کہ میرا پڑوسی بھکا سوئے اور میں کھانا ہضم کرنے کے لئے روزانہ صبح شام ورزش کروں۔ایک تحقیق کے مطابق فارم گیٹ سے صارف کی میز تک چالیس فیصدخوراک ضائع ہو رہی ہے۔اور اسکے بعد ہم صارف کتنا کھانا ضائع کر رہے ہیں وہ ہمیں خود ہی بہتر اندازہ ہوگا۔ہماری شادی بیاہ سے لیکر مہمان نوازی تک اور پھر ہوٹلوں میں مہنگے مہنگے کھانوں پر پیسے ضائع کرنا فخر سمجھتے ہیں۔یہ کوئی فخر والی بات نہیں ہے۔رسول خدا ﷺ کی ایک حدیث ہے کہ پڑوسی کو پیٹ بھر کر کھانا جائز نہیں جبکہ اسکا پڑوسی بھوکا ہو۔ملتان کے آصف اور ان جیسے کروڑوں نہیں تو لاکھوں ایسے پڑوسی ہونگے جو خالی پیٹ سو رہے ہونگے۔
اپنے ملک میں یا ارد گرد ایسے واقعات سے سبق لینا چاہیئے اور غریبوں مسکینوں لاچاروں کی مدد کرنی چاہیئے۔ضروری نہیں ہر شخص بھکاری ہو ۔ہر اس شخص کی مدد کی جائے تو مجبور ہو جس کے بچے بھوکے ننگے ہوں اور ہم مرسیڈیز پر سیر سپاٹے کرتے رہیں۔خدا کی قسم جتنا مال و دولت کسی بھی شخص کے پاس موجود ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے اور آزمائش ہے۔ہم اس آزمائش پر پورا اترتے ہوئے مومنین کی اصلی صفت جو بھی مال ملا ہے اسے اللہ کی راہ میں ہی اللہ کے بندوں پر خرچ کریں ہمارے لئے اس سے سعادت کی کوئی بات نہیں ہوگی۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button