کالمز

وادی باشہ ، حسن و خوبصورتی کی سرزمین

 تحریر : اسلم ناز شگری

ضلع شگر کی قدرتی خوبصورتی اپنی مثال آپ ہے۔ وسیع و عریض رقبے پر پھیلا یہ علاقہ دریا کے دونوں اطراف میں انسانوں کی بسی بسائی آبادی پر مشتمل ہے۔ شگر کے تعارف نامے کے طور پر اس کی دو بڑی وادیاں موجود ہیں ایک طرف کوہ پیماؤں کی جنت وادی برالدو جبکہ دوسری جانب حسن و خوبصورت کی سرزمین وادی باشہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ سیاحوں کو دعوت نظارہ دے رہی ہے۔ وادی باشہ یوں تو دو یونین کونسلوں میں منقسم ہیں۔ یعنی یونین کونسل تسر اور یونین کونسل باشہ۔ یونین کونسل تسر کا آغاز تسر کے ایک ذیلی گاؤں پایوشو سے ہوتاہے اور آگے چھوترون، ہمیسل ، ڈیمل ، ڈوگرو اور نیاسلو تک پھیلا ہوا ہے جبکہ سبڑی گاؤں تا ارندو تک کے علاقے کے یونین کونسل باشہ کہا جاتا ہے۔ یوں تو لوگوں نے اپنی طرف سے جغرافیائی طور پر اس وادی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے مگر در حقیقت اس پورے علاقے کے مکینوں کی تہذیب و تمدن، ثقافت ، زبان، رسوم و رواج، خوراک، لباس اور طرز زندگی کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ پایوشو تا ارندو کا پورا علاقہ ایک ہی اکائی اور وحدت کا نمونہ ہے۔ اور پورے علاقے کے لوگ ایک ہی خاندان کے افراد کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔

وادی باشہ اپنے آغاز سے لے کے آخر تک دو اطراف میں تقسیم شدہ ہے۔ درمیان میں دریائے باشہ اپنی پوری توانائی کے سے بہہ رہا ہوتا ہے۔ اس وادی کو قدرت نے بے پناہ وسائل اور نعمتوں سے بھی نوازا ہے۔ یہاں کے پہاڑوں اور چٹانوں کی کوکھ میں اللہ تعالیٰ نے قیمتی پتھروں کے ذخائرکو محفوظ رکھا ہے ۔جو شاید زمین کے سینوں کو چیر کر بنی آدم کی وہاں تک رسائی کے منتظر ہوں گے۔ اس علاقے کے لوگوں کو تعلیم اور ہنر کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی سے لیس کر کے ان بیش بہا ذخائر سے علاقہ کیا پورے ملک کے لئے زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ بلندو بالا پہاڑی چوٹیاں بھی سیاحوں کی دلکشی کے اسباب میں سے ہیں۔ اس کے علاوہ قدم قدم پر گرم و ٹھنڈے چشموں کی صورت میں بہتا پانی خدا کی عظیم نشانیوں کی صورت میں موجود ہے۔ ا ن تمام تر نعمتوں کی بنا پر یہ علاقہ حسن و جمال کے لحاظ سے بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا ۔

اس وادی کا سب سے پہلا گاؤں تسر ہے جو کہ مزید آٹھ ذیلی گاؤں یعنی پایوشو، مولٹو، لگف، تھماچو، پرونو ، تسر خاص، قائم آباد اور ارنچو پر مشتمل ہے، تسر بھی خوبصورتی کے لحاظ سے انتہائی پر فضا علاقہ ہے جہاں وادی کا واحد بوائز ہائی سکول موجود ہے جہاں چھ سو کے قریب بچے زیر تعلیم ہیں ساتھ ہی لڑکیوں کے لئے بھی تسر خاص میں صرف ایک ہی مڈل سکول بھی موجو د ہے،تسر کے ختم ہونے پر ارنچو کے مقام پرٹھنڈے پانی کا ایک چشمہ سارا سال بہتا رہتا ہے ۔ تسر سے آگے نکلنے پر دریا کے اُس پار تھورگونامی ایک انتہائی پسماند ہ گاؤں بھی موجود ہے جہاں ایک پرائمری سکول موجود ہے ، تھورگو کے عوام کی کسمپرسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسی گاؤں سے باقاعدہ سرکاری کوئی ٹیچر موجود نہیں اس وجہ سے دوسرے علاقوں کے اساتذہ یہاں سے تنخواہ تو بڑی شوق سے لیتے ہیں مگر یہاں ڈیوٹی دینے کو عاروننگ سمجھتے ہیں اس وجہ سے سکول کی حالت زار قابل رحم ہے۔اور ابھی تک شرح خواندگی صفر معلوم ہوتی ہے۔

تسر سے چھ کلومیٹر کی دوری پر چھوترون نامی گاؤں موجود ہے جس کی سب سے بڑی خصوصیت یہاں کا گرم قدرتی چشمہ ہے۔ دور دراز کے لوگوں کی ایک کثیر تعداد ہر سال علاج کی غرض سے اس گرم چشمے کا رخ کرتی ہے۔ قدرت سے اس پانی میں بہت ساری بیماریوں خصوصاً جلدی امراض اور کمر و گٹھنے کے جوڑوں کے درد کا علاج کی صلاحیت رکھا ہے اور بہت سارے لوگ کئی کئی ایام اس پانی میں گزارنے کے بعد یہاں سے شفایاب ہو کر جاتے ہیں۔ آگے جا کر نیاسلو نام کا ایک خوبصورت گاؤں آتا ہے جہاں علاقے کا سب سے پرانا بجلی گھر موجود ہے جس سے پوری وادی کے مکینوں کو روشنی مل رہی ہے۔اس کے علاوہ اسی گاؤں میں ابرق کے ذخائر بھی وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ تھوڑا آگے جانے پر ایک انتہائی پر کشش گاؤں ڈوکو آتا ہے بہار کے سیزن میں اس گاؤں کی خوبصورتی دیکھنے لائق ہوتی ہے۔ یہاں ایک مڈل سکول موجود ہے جس میں گورنمنٹ اساتذہ کے علاوہ این جی اوز کی جانب سے بھی کئی اساتذہ اس پسماندہ علاقے کے طلباء و طالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی سعی کررہے ہیں۔ یہاں پر بھی ایک این جی او کی طرف سے سات آٹھ برس قبل ایک بجلی گھر تعمیر کیا گیا تھا ، جند سال یہاں کے لوگوں نے اس بجلی گھر سے استفادہ کیا بعد ازآں سیاسی پارٹی بازی کی بنیاد پر اس عظیم نعمت کو بند کردیا گیا ہے اور تاحال دوبارہ نہیں چلایا، اب صورت حال یہ ہے کہ اس کے تمام تر پرزہ جات زنگ آلود ہونے لگے ہیں۔ اور سیاسی نمائندوں کی ستم ظریفی یہ ہے کہ اپنی پارٹی کے لوگوں کو سمجھا کے اس کو چلانے کے بجائے لوگوں کو اندھیرے میں رکھنے کو ہی اپنی عافیت جان کر علاقے کے عوام کی تقسیم کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔

ڈوکو کے بعد علاقے کے دو خوبصورت ترین جڑواں گاؤں ذیل اور سیسکو آتے ہیں۔ جب موسم بہار اپنے جوبن پر ہوتا ہے تو ان دونوں گاؤں کی مسحور کن خوبصورتی اور دلکشی الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ، وسیع سبزہ زاروں اور دلکش لہلہاتے کھیتوں کی ایک بڑی تعداد اس علاقے کی حسن و جمال میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ نیزسینکڑوں سال پرانے بڑے بڑے اخروٹ کے درختوں کی قطاریں بھی انہی علاقوں میں نظر آتی ہیں۔ سیسکو گاؤں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اسی گاؤں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسلامی تعلیم کے حصول کی راہ پر گامزن ہے اور بہت سارے علماء اپنی اسلامی و مروجہ تعلیم کی تکمیل کے بعد ایران ، عراق اور پاکستان کے مختلف شہروں میں دینی تعلیمات کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔اسی گاؤں میں علاقے کے سب سے پرانا پرائمری سکول بھی رحم کی اپیل کرتا پایا جاتا ہے ۔لیکن علاقے کے سیاسی لیڈروں کی عدم توجہی کی وجہ سے ناگفتہ بہ حالت میں موجود ہے ۔ اس سال سننے میں آیا ہے کہ یہاں مڈل سکول کی عمارت تعمیر ہونے جا رہی ہے اگر ایساہوا تو بلاشبہ علاقے کے عوام کی تقدیر بدلنے کے حوالے سے ایک نہایت ہی حوصلہ افزاء قدم ہوگا۔ سیسکو گاؤں کے آخر میں’’ مونوکو‘‘ نامی سبزہ زار میں جب پہنچتے ہیں تو ہر چلتے مسافر وں اور سیاحوں کے قدم رک جاتے ہیں اور اس کی کرشماتی حسن کے نظارے پر مجبور ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی تصاویر لیتے نہیں تھکتے۔

سیسکو سے پندرہ سے بیس منٹ گاڑی میں سفر کرنے کے بعد بیسل نامی گاؤں آتا ہے جو کہ خوبصورت کے لحاظ سے کسی تعریف کے محتاج نہیں ۔ چھوترون کی طرح اس گاؤں کی بھی سب سے بڑی شناخت یہاں موجود گرم چشمہ ہے۔ چھوترون کی نسبت بیسل کے گرم چشمے کی شدت کئی گنا زیادہ ہے۔ یہاں پانی میں سلفر کی آمیزش موجودہے اس وجہ سے جلدی امراض کے علاج میں انتہائی مؤثر مانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مریضوں کی بڑی تعداد بلتستان کے طول و عرض سے کئی کئی گھنٹے سفر کرکے علاج کی تلاش میں یہاں آتے ہیں اور یہاں سے شفایاب ہوکر جاتے ہیں۔وادی کا آخری گاؤں ارندو نامی گاؤں ہے ، قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود سہولیات کے اعتبار سے یہ گاؤں ابھی بھی انتہائی پسماندہ گاؤں ہے ۔ قیمتی پتھر کے ذخائر بھی اس علاقے کے پہاڑوں میں دفن ہیں مگر پھر بھی یہاں کے لوگ پتھر کے زمانے کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔

وادی باشہ کے لوگوں کا ذکر کیا جائے تو اتنہائی محنت کش اور جوش و جذبے والے لوگ ہیں اور مہمان نوازی میں تو کئی دوسرے علاقوں کے باسیوں سے آگے ہیں ۔ جب بھی باہر کا کوئی مہمان آتا ہے تو اپنے پاس دستیاب تمام وسائل کو خرچ کرکے مہمان نوازی کا فریضہ ادا کرنے میں کسی قسم کی کنجوسی نہیں کرتے ۔یہاں کی باعفت خواتین کا ذکر نہ کروں تو بھی زیادتی ہو گی جو کہ مردوں سے بھی زیادہ محنت کش ہیں ۔ ناخواندگی اس علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ورنہ ایسے ذہین و فطین لوگ اس علاقے میں بستے ہیں جو کہ علاقہ اور ملک کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن تعلیم ، رہنمائی اور جدید وسائل کی عدم فراہمی انہیں آگے بڑھنے نہیں دیتے۔ بہت سارے گاؤں ایسے ہیں جہاں بنیادی تعلیم اب بھی لڑکھڑا رہیں ہیں ، صحت کے وسائل بھی نہ ہونے کے برابر ہیں ، بہت سارے گاؤں ایسے ہیں جن میں اب بھی ذرائع آمدو رفت کے لئے مناسب سڑک اور پل بھی دستیاب نہیں ۔ اور لوگ اس ترقی یافتہ دور میں بھی بذریعہ ’’گراری ‘‘ اور ’’ہلچوکزم‘‘ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دریا پار کرنے پر مجبور ہیں ۔ اور اس سے بھی ستم ظریفی یہ ہے کہ لوگ اسی حالت سے خوش ہیں۔ اس بابت سوال پوچھنے پر لوگ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارے بچے بھی کندھے پر مختلف اقسام کے بوجھ اٹھا کر باآسانی انہی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے دریا پار کر سکتے ہیں ۔

اس علاقے کے عوام کے مسائل حل کرکے اور انفر سٹرکچر کو درست کرکے ساتھ ساتھ مہمانوں کے لئے سہولیات فراہم کرکے ملک بھربلکہ دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کو اس جنت نظیر وادی کے حسن و جمال کی طرف مبذول کرائی جا سکتی ہے۔اس طرح نہ صرف علاقہ مکینوں کو معاشی طور پر خوشحال بنانے میں مدد ملے گی بلکہ ملک کے لئے بھی کثیر ذر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمہ داری عوامی نمائندوں کی ہے کہ وہ اس علاقے کے عوام پر رحم کریں اور ان کا حق ان تک پہنچانے میں کنجوسی نہ کریں۔علاقے میں سڑکوں کی حالت بہتر بنانے کی ضرورت ہے اورساتھ ہی پلوں کے نیٹ ورک کے ذریعے آمدورفت کو آسان بنانا پڑے گا۔نیز لوگوں کو تعلیم و صحت کی بنیادی سہولیات فرام کریں ساتھ ہی ان کو شعور و آگاہی بھی بہم پہنچانے کی ضرورت ہے۔ تعلیم ہی کے ذریعے اس علاقے کے عوام یہاں کے قیمتی وسائل سے استفادہ کر سکتے ہیں ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button