نوٹ: (میں نے اپنی گزشتہ تحریر میں ہاشوانی صاحب کا ذکر کیا تھا۔ جس پر تمام چاہنے والوں اور قارئین نے اصرار کیا ہے کہ یہ تحریر ان کی نظروں سے نہیں گزری ہے۔ حالانکہ یہ تحریر ہاشوانی صاحب کی کتاب کی اشاعت کے فوراً بعد لکھی گئی تھی۔ سو ، آپ کے اصرار پر یہ تحریر ایک دفعہ پھر آپ کی بینائیوں کی نذر کی جاتی ہے۔ پڑھیئے اور مثبت سوچوں کو تقویت دیجیئے۔)
دو سو تیئس صفحات پر مشتمل جناب صدر الدین ہاشوانی کی کتاب ’’ٹوتھ آل ویز پریویلز‘‘ کو میں نے دو نشستوں میں پڑھا۔ بلوچستان کے صحراوں سے سفر کا آغاز کرنے والے ہاشوانی آج ایک درجن سے زائد فائیو سٹار ہوٹلز کے مالک ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ایک مڈل کلاس تاجر کے لیے کتنی مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے یہ اس کتاب کے مطالعے کے بعد ہی پتہ چلتا ہے۔ بابائے قوم نے جس عزم اور اُمید کے ساتھ اس ملک کو بنایا تھا۔ جو کروڑوں فرزندانِ توحید کی اُمیدوں کا مرکز ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اب تک جو حکمران گزرے ہیں، ان کے بارے میں فارسی شاعر کی زبان میں صرف اتنا کہا جاسکتا ہے:
گر بہ میرو سگ وزیرو موش را حیران کنند
این چنین ارکانِ دولت ملک را ویران کنند
یعنی بلی بادشاہ اور کتا وزیر بن کر چوہے کو حیران کر رہے ہیں۔ اسی طرح کے اراکینِ حکومت ملک کو برباد کر رہے ہیں۔
ایران کے ایک فلسفی شاعر ناصر خسروؒ نے آج سے ایک ہزار سال پہلے ایسے حالات کا تجزیہ ان الفاظ میں کیا تھا،جوبڑا حسبِ حال ہے۔ فرماتے ہیں:
یعنی اگر کالا کوا بلبل سے باغ چھین لے تو یہ ضروری نہیں کہ وہ بلبل کی طرح خوش الحانی بھی کرسکے۔
بس قائداعظم کے بعد اس ملک خداداد کے ساتھ یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ ہاشوانی صاحب اپنی کتاب کے صفحہ ۸۷؍ میں ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتےہیں :
’’ایک دن بھٹو اپنے ایک پرانے اور سینئر مشہور وکیل رام چندانی ڈنگومل کو ملنے گئے جس کی فرم (ڈنگومل کمپنی) سے بھٹو نے اپنی قانونی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ یہ داستان مجھے ڈنگومل کے بیٹے پرسی نے سنائی جو اس وقت ممبئی میں رہتا تھا۔ سینئر ڈنگومل نے کہا کہ زلفی! میرا مطلب ہے تم نے تعلیم کو سرکاری تحویل میں لے لیا، کیوں؟ بھٹو نے قہقہہ لگایا اور کہاکہ پریشان مت ہو، تمہارے اور میرے بچوں نے کونسا یہاں پاکستان میں تعلیم حاصل کرنا ہے؟‘‘
بھٹو صاحب اس جہانِ فانی سے کوچ کرکے اب ایک عرصہ ہوا ہے مگر ہماری غلامانہ ذہنیت تو دیکھئے کہ آج بھی جبکہ تھر میں بھوگ سے بچے مر رہے ہیں، ماوؤں کی گودیں اجڑ رہی ہیں، عوام سڑکوں پہ آئی ہوئی ہے لیکن۔۔۔۔۔۔ بھٹو پھر بھی زندہ ہے اور ہم بڑے شان سے ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی پوری تاریخ المیوں کا شکار رہی ہے۔یہ جنرل یحییٰ کا شباب و شراب کا دور ہو یا بھٹو کا، جنرل ضیا کا سیاہ دور ہو، یا بینظیر ، نوازشریف اور زرداری کی خاندانی حکمرانی کا دور، یا مشرف کی فوجی حکومت کا۔۔۔۔۔۔ گویا ہاشوانی صاحب کی یہ کتاب پاکستان کی تاریخ کا ایک نوحہ ہے۔ ان کی زندگی ایک مہماتی زندگی رہی ہے۔ لیکن یہ ان مسائل کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے ہیں۔
یہ کتاب نوجوان نسل میں ایک عزم اور ہمت پیدا کرتی ہے۔ ایک بار اس کا مطالعہ ضرور کریں۔