کالمز

گلگت بلتستان پویس اورداریل کا ننھا زوہیب

ضلع غذر کے ایک مختصر دورے سے واپسی پرگلگت پہنچا تو مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پرایک خبر نے تہلکہ مچا دیا تھا۔ذرا تفصیل جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ گلگت بلتستان کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ضلع دیامر کے علاقے داریل سے تعلق رکھنے والے آٹھ سالہ طالب علم ذوہیب اللہ کو گزشتہ سال آٹھ جون کو ہونے والے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے عام انتخابات کے روز نقص امن پیدا کرنے کی پاداش میں اشتہاری ملزم قراردیا ہے۔

معزز عدالت کے اس فیصلے پر سوچتے رات بھر نیند حرام ہوئی تاہم صبح اٹھ کراخبارات پر نظر پڑنے پر معلوم ہواکہ آٹھ سالہ ذوہیب کے والد نے اپنے معصوم بیٹے کو اشتہاری قرار دینے کی خبر سنتے ہی اسے ساتھ لیکر عدالت میں حاضر ہوا‘جہاں پرتحقیقات سے معلوم ہوا کہ ذوہیب کودیامر پولیس کی جانب سے غلط بیانی اور جھوٹ پر مبنی حلف نامہ جمع کرانے پر عدالت نے اشتہاری قرار دے دیا تھا۔ اس پر انسداد دہشت گردی عدالت کے معزز جج راجہ شہبازخان نے موقع پر ہی کیس کے تفتیشی افسر کوگرفتار کراکے آئی جی پویس کو ان کے خلاف محکمانہ کاروائی کا حکم دے دیا۔ عدالت کی جانب سے مقدمے کی سماعت کے لئے اخبارات میں دئیے گئے اشتہارات کے بل بھی مذکورہ افسر سے وصول کرنے کا حکم دیا گیا۔جبکہ چوتھی جماعت کے طالب علم ذوہیب کو باعزت بری کردیا گیا۔مگر افسوس کی بات ہے کہ ابھی تک وزیراعلیٰ یا کسی حکومتی اہلکار کی جانب سے اس بات کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا‘ کیونکہ ایک طرف ہم نے دشمن کے بچوں کو بھی سبق بڑھانے کی ٹھان لی ہے تو دوسری طرف خود اپنے بچوں پر دہشت گردی کے مقدمات درج کرکے انکی تعلیم میں خلل ڈالنے کی کوششوں پر تلے ہوئے ہیں۔آخر یہ کیا تماشا ہے؟

اطلاعات کے مطابق ذوہیب اللہ آٹھ جون2015کے انتخابات کے دوران داریل میں پولیس اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کے مابین ہونے والے مبینہ تصادم میں گولی لگ جانے سے زخمی ہوا تھا۔لیکن پولیس کی جانب سے ذوہیب پرتصادم میں موجود افراد پر گولیاں چلانے کا الزام عائد کرکے ان پر دہشت گرد کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ بتایا جارہا ہے کہ ننے ذوہیب اور اس کے والدین کواس پوری صورتحال کا علم تب ہوا جب انسداددہشت گردی کی عدالت کی جانب سے اس مقدمے میں نامزد دیگرنو ملزمان کے ساتھ ذوہیب کو بھی مفرور قراردیکر علاقائی اخبارات میں اشتہارات شائع کئے گئے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج راجہ شہبازخان کی طرف سے یہ فیصلہ یقیناً ایک تاریخی اقدام ہے مگر ننے ذوہیب کے کردار پر لگنے والا دہشت گردی کا یہ داغ کون مٹائیگا؟ کیونکہ پولیس ریکارڑ کے مطابق تو ان کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے اور ضرورت پڑنے پر ذوہیب کو کریکٹر سرٹیفکیٹ بھی اسی تھانے کی ویریفیکیشن سے ہی جاری ہونا ہے۔لہذا ذوہیب کے والدکوچاہیے کہ وہ اس چیز کا خاص خیال رکھتے ہوئے ابھی سے ہی متعلقہ تھانے سے اپنے معصوم بیٹے کا ریکارڑ درست کروائیں۔

تاہم دیامر پویس یا گلگت بلتستان پولیس کی طرف سے ایک آٹھ سالہ بچے کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنا کوئی انہونی بات نہیں‘کیونکہ یہ وہی پولیس ہے جس نے گزشتہ سال اکتوبر کے مہینے میں دیامر ہی کے گاؤں ’’سومال‘‘ سے ایک پانچ سالہ بچے (احمد)کی پراصرار ہلاکت کا مقدمہ جنات کے خلاف درج کیا تھا۔جس پر گلگت بلتستان پولیس پوری دینا کے سامنے تماشا بنتی رہی۔

اگر ہم تھوڑا ماضی کی طرف جائے تو بھی گلگت بلتستان پولیس کاکوئی نہ کوئی کارنامہ ضرور یاد آجاتا ہے۔ایسا ہی ایک واقعہ جو کم ازکم مجھ سے تو نہیں بھولا جاسکتا‘وہ ہے12اگست2011کو ضلع ہنزہ کے ہیڈکوارٹر علی آباد میں پیش آنے والا خون ریز سانحہ‘ جس میں اسی گلگت بلتستان پولیس کی فائرنگ سے ہنزہ کا رہائشی شیراللہ بیگ اور اس کا جواں سال بیٹا شیرافضل زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھے جبکہ درجن کے قریب لوگ زخمی ہوئے تھے‘مگر پولیس نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے واقعہ کا مقدمہ اپنے حق کے حصول کے لئے جمہوری راستہ اختیارکرنے والے پرامن مظاہرین کے خلاف درج کرلیا۔ جن میں سے چند لوگ آج تک گلگت اور غذر کی جیلوں میں قیدوبند کی صعبتیں برداشت کرنے پر مجبور ہیں جبکہ اصل ملزمان کا تعین تاحال نہیں ہوسکا ہے۔

مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ سانحہ سابق وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ اور اسکی کابینہ کے ارکان کا دورہ ہنزہ کے موقع پر پیش آیا‘ جسے وہاں کے عوام آج بھی مہدی شاہ کا خونی دورہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس دورے سے واپسی پر سابق وزیراعلیٰ نے اس وقت کے وزیرقانون کی سربراہی میں اس واقعہ کی تحقیقات کے لئے ایک جوائنٹ انوسٹی گیشن کمیشن(جے آئی ٹی) بنانے کا اعلان تو کیا مگر وہ جے آئی ٹی رپورٹ بھی تاحال منظر عام پر نہیں لائی جاسکی۔ اسی طرح گلگت بلتستان پولیس کے اور کئی ایسے کارنامے ہیں جن کی وجہ سے عوام کا نہ صرف پولیس بلکہ پوری ریاست پر اعتماد کم ہوتا جارہا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں معاشرے کے اندر بدامنی،ناانصافی، تشدد اورعدم برداشت کا رجحان بڑتا جارہا ہے۔

پولیس اکثر اوقات حکومتی دباؤ سے بچنے اوراپنا الو سیدھا کرنے کے لئے بیشتر واقعات کا مقدمہ بے گناہ افراد کے خلاف درج کرتی ہے اور راتوں رات انہیں گرفتار کرکے ملزم بناپیش کرتی ہے جن کا ان واقعات سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ یہی سلوک دیامر پولیس نے ذوہیب اللہ کے ساتھ بھی روارکھااورایک معصوم فرشتے کو اشتہاری ملزم قراردیکر نہ صرف معزز عدالت کو حیرت میں ڈال دیا بلکہ پوری دنیا کے سامنے ایک ریاستی ادارے کے تقدس کو پامال کرکے رکھ دیا۔ اگر پولیس میں اتنی عقل ہوتی تو ایک آٹھ سالہ بچے کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے سے قبل کم ازکم یہ تو سوچ لیا جاتا کہ کل کو عدالت میں اسے دہشت گرد بناکر پیش کرنے کے لئے اس کے خلاف ٹھوس ثبوت اور شواہد بھی پیش کرنے ہونگے‘تو تب شاید ذوہیب کانام مقدمے سے خارج کیاجاچکا ہوتا!

بہرحال دیامر پولیس کی اس دانستہ غلطی نے ننے ذوہیب کو ہیرو بنادیا۔ مجھے یقین ہے کہ انہوں نے دہشت گردی،مقدمہ،اشتہاری،عدالت،جج،وکیل ،میڈیا،ڈی ایس پی،آئی جی پی وغیرہ کے الفاظ پہلی مرتبہ اپنے کان سے سنے اوران لوگوں کو انکھوں سے دیکھے ہونگے۔اب وہ ایک عرصے تک ان چیزوں کے بارے میں سوچتے بھی رہیں گے اور اپنے دوستوں اور کلاس فیلوز کو یہ پوری کہانی سناتے بھی ہونگے ، پھر بڑا ہوکروہ ایک لیڈر بن کر معاشرتی ناہمواریوں اور ریاستی ناانصافیوں کے خلاف برسرپیکار بن کر آنے

والی نسلوں کوپولیس کے اصل چہرے سے اگاہ کرینگے۔ کیونکہ وہ بے گناہ تھا اسی لئے تو سینا تان کر میڈیا کے سامنے بھول رہا تھا ورنہ ایک ملزم کی کہاں مجال کہ وہ جرم کا مرتکیب بن کر میڈیا کے تندوتیز سوالات کے جوابات دیں۔

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ننے ذوہیب کو عمربھر اسی طرح کی کامیابی سے سرفراز فرمائے اور گلگت بلتستان پولیس کو سچائی،حقیقت ،دلائل،ثبوت اور انصاف پر مبنی فیصلے کرنے کی توفیق عطافرمائے۔(آمین)

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button