چترال

چترال، برفانی تودے کی زد میں آکر جان بحق ہونے والوں کی تلاش میں کوئی پیشرفت نہ ہوسکی، اعلی حکام نے علاقے کا دورہ کیا

چترال ( بشیر حسین آزاد) تحصیل لوٹکوہ کے علاقے سوسوم میں برفانی تودے تلے دب جانے والے معصوم طلبہ کی لاشوں کو نکالنے کیلئے آپریشن پیر کے روز بھی جاری رہا تاہم شام ڈھلے تک کوئی کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ ہفتے کے شام برفانی تلے دبنے والے افراد کی تلاش دوسرے روز بھی جاری رہی ۔ ڈپٹی کمشنر اسامہ احمد وڑائچ اور کمانڈنٹ چترال سکاؤٹس کرنل نظام الدین نے جائے حادثہ اور سوسوم کا دورہ کیا۔ اس موقع انہوں نے غمزدہ خاندانوں سے تعزیت کی اور جان بحق افراد کے لئے فاتحہ خوانی بھی کی۔ سوسوم سے واپسی پر اسسٹنٹ کمشنر سید مظہر علی شاہ نے میڈ یاکو بتایا کہ گورنمنٹ سکول سوسوم ان طلبہ کے گھروں سے کم از کم تین گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے اور یہ طلبہ امتحانات کے دوران اکثر سوسوم میں ہی رہائش کرتے، وقوعہ کے روز گاؤں کے لوگوں نے ان طلبہ کو اپنے گھروں کونہ جانے کہامگر طلبہ نے کہا کہ آج پاکستان اور انڈیا کا میچ ہے اور اگلے دو دن پیپر میں گیپ بھی ہیں اسلئے ہم گھروں کو جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وقوعہ کی اطلاع تقریباً پانچ گھنٹے بعد گاؤں تک پہنچی اور اسوقت رات ہو گئی تھی۔اس واقعہ میں صرف ایک طالبعلم زندہ بچ گیا اور اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ آرمی، چترال سکاؤٹس، پولیس اور لیویز کے جوان اور بھاری تعداد میں مقامی رضاکار امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ رابطہ سڑک کھول دی گئی ہے اور مشینری بھی پہنچائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق اس وقت کم ازکم سات افراد برفانی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور ان میں سے کسی کے بچ جانے کی امید نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر نے امید ظاہر کی کہ منگل کے روز انشاء اللہ سرچ اور ریسکیو آپریشن میں کامیابی حاصل ہوگی۔

یاد رہے کہ گاؤں پارسان، ہرتھ اور لولیگرام سے تعلق رکھنے والے نویں جماعت کے طالبعلم اور دو یا تین دیگر راہگیر ہفتے کی شام سوسوم سے اپنے گھروں کو جاتے ہوئے برفانی تودے کی زد میں آگئے ۔ ان میں سے دو افراد کی لاشیں اتوار کے روز نکال لی گئی تھی۔

 پیر کے روز  کمانڈنٹ چترال سکاؤٹس کرنل نظام الدین اور ڈپٹی کمشنر چترال اُسامہ احمد وڑائچ نے ہیلی کاپٹر پر متاثرہ مقام کا دورہ کیا ۔ اور متاثرین سے مل کر امدادی کاموں کا جائزہ لیا ۔ اس موقع پر کمانڈنٹ چترال سکاؤٹس نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لاشوں کی بازیابی کیلئے ہر قسم کی کوشش کی جائے گی ۔ اور اس سلسلے میں چترال سکاؤٹس کے جوان امدادی کاروائیاں جاری رکھیں گے ۔ کمانڈنٹ نے کور کمانڈر پشاور لفٹننٹ جنرل ہدایت الرحمن اور جی اوسی ملاکنڈ ڈویژن جنرل نادر خان کی طرف سے ہمدردی کا پیغام پہنچایا ،اور پاک آرمی ، چترال سکاؤٹس کی طرف سے لاشوں کی بازیابی تک ہرقسم کی مدد فراہم کرنے کااظہار کیا ، ڈپٹی کمشنر چترال اُسامہ احمد وڑائچ نے کہا ، کہ سوسوم کے لوگوں پر ایک انتہائی مشکل وقت آیا ہے ۔ اور اس غم میں ہم برابر کے شریک ہیں ،انہوں نے کہا کہ لاشوں کی بازیابی کو ممکن بنانے کیلئے این ڈی ایم اے کی سپشلائزڈ کل تک چترال پہنچ رہی ہے ، جس کے بعد انشاللہ کامیابی ہو جائے گی ، انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی خیبر پختونخوا نے تین تین لاکھ روپے کا اعلان کیا ہے تاہم یہ جانی نقصان کا متبادل نہیں ۔

Susum 1

اس موقع پر مقامی کمیونٹی کی طرف سے ممبر ڈسٹرکٹ کونسل کریم آباد محمد یعقوب خان نے کماڈنٹ چترال سکاؤٹس اور ڈپٹی کمشنر چترال اُسامہ احمد وڑائچ کا انتہائی شکریہ ادا کیا ۔ کہ حادثے کے فوراً بعد نہ صرف رابطے میں ہیں ۔ بلکہ ہر ممکن مدد کی فراہمی کی جارہی ہے جبکہ سابق ناظم سلطان شاہ نے اس حادثے کے زمہ دار محکمہ ایجوکیشن چترال کو قرار دے کر حکومت سے مطالبہ کیا ۔ کہ اس واقعے کی انکوائری کی جائے ۔ کیونکہ ہرتہائی سکول کی بلڈنگ 2013 میں تیار ہوچکی ہے لیکن پوسٹ نہ دینے کی وجہ سے یہ طلباء مجبورا اس خطرناک راستے سے دوسرے سکول جانے پر مجبور ہوئے ۔ اور جان کی بازی ہار گئے ۔ درین اثنا چترال سکاؤٹس کے پچاس ، پولیس کے پچیس ، لویز کے جوان اور فف کے رضا کار سمیت سینکڑوں مقامی افراد امدادی کاروائیوں میں مصروف ہیں ۔ لیکن جگہ خطرناک ہونے اور لاشوں کے بارے میں صحیح طور پر نشاندہی نہ ہونے کے سبب مزید لاشیں بر آمد نہ ہو سکی ہیں ۔ وہ پیر کے روز سوسوم میں ہونے والے حادثے کے مقام کی وزٹ سے واپسی کے بعد صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے، انہوں نے کہا ۔کہ علاقہ انتہائی دشوار گزار ہے ، وادی میں ڈھائی سے تین فٹ برف پڑی ہے ، اور جائے حادثہ تک پہنچنے کیلئے تین گھنٹے پیدل چلنا پڑتا ہے ۔ اس لئے وہاں مشینری پہنچانا انتہائی مشکل ہے ۔ کیونکہ سڑکین بھی اس قابل نہیں ہیں کہ بھاری مشینری پہنچائی جا سکے ۔ کمانڈنٹ چترال سکاؤٹس نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس حادثے میں آٹھ سٹوڈنٹس اور ایک عام مقامی شخص جان بحق ہوئے ہیں ۔ جبکہ ایک سٹوڈنٹ معجزانہ طور پر بچ گیا ہے ۔ لیکن حادثہ کے روز وہ اس پوزیشن میں نہیں تھا ۔ کہ اپنے ساتھیوں کے بارے میں معلومات فراہم کر سکے ۔ انہوں نے کہا کہ گاؤں والوں نے پہلے ہی وارننگ دی تھی کہ یہ راستہ آمدورفت کیلئے خطر ناک ہے ۔ لیکن وقوعہ کے روز سکول کے ان بچوں نے جلد بازی میں یہ راستہ اختیار کیا ، اور حادثے کا شکار ہوئے ۔لیکن برف کے تودے کی آواز اتنی گرجدار اور خوفناک تھی ۔ کہ بچ جانے والا بچہ اپنا حواس کھو بیٹھا ۔ اور رات گئے تک کوئی بات نہیں کر سکا ۔ انہوں نے کہا، کہ لاشوں کی تلاش کیلئے سراغ رسان کتے استعمال کئے گئے ہیں ۔ اور اُن کی نشاندہی شدہ چھ مقامات پر کھدائی کاکام کرنے کی حکمت عملی کی جارہی ہے ۔ لیکن اس جگہ پر کھدائی میں بھی بہت زیادہ وقت لگ سکتا ہے ۔ اور اُ ن کے ساتھ مالی مدد بھی کی جارہی ہے ۔ کمانڈنٹ نے کہا کہ مقامی لوگوں کے مطابق برف کو صاف کرنے کیلئے کھدائی سے بہتر پانی کا استعمال ہے ۔ جو کہ پلاسٹک کے موٹے پائپ کے ذریعے پانی دوسرے جگہے سے وہاں پہنچائی جائے گی ۔ تاہم یہ کام بھی کوئی زیادہ قابل عمل نہیں لگتا ۔ انہوں نے کہا کہ جائے حادثہ کے اوپر کچی برف ہے ۔جس کا کسی بھی وقت دوبارہ گرنے کا امکان ہے ۔ اس لئے وہاں انتہائی احتیاط سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ تاکہ مزید کوئی جانی نقصان نہ ہو ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ چترال سکاؤٹس کے جوان مستعد ہیں ۔ اور کسی بھی حالات سے نمٹنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button