متفرق

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے جائزہ رپورٹ جاری کردی، گلگت بلتستان کے بارے میں معلومات نامکمل

اسلام آباد (تجزیاتی رپورٹ: فدا حسین)پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے سال 2015کی سالانہ جائزہ رپورٹ جاری کر دی ہے مگر اس میں گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے ہونے پیش رفت اور وہاں کی انسانی حقوق کے اکثر مسائل کا ذکر نہیں ہے ۔پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ میں قانون سازی ،امن و امان ،سیاسی عمل میں شمولیت ،بچوں اورمحنت کشوںکے حقوق ،تعلیم ،صحت،رہائشی سہولیات ماحولیات، خواتین پر تشدد اور مہاجریں کے مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق سال 2015میں خیر پختونحواہ کی اسمبلی نے 40قوانین کی منظور کر کے سب سے زیاد ہ قوانین منظور کرنے والا صوبہ بن گیا ۔جبکہ سندھ نے 32پنجاب نے 31اور بلوچستان نے 17 قوانین کی منظوری دی ۔تاہم اس رپورٹ میں آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی اور گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں ہونے والی قانون سازی پر کہیں کچھ ذکر نہیں ہے۔

سیاسی عمل میں شمولیت کے حوالے سے سال2015میں ہونے والی بلدیاتی انتخابات میں ووٹوں کی شرح نمایاں رہنے کی رپورٹ کی گئی ہے اور اس ضمن میں اس رپورٹ کے صفحہ نمبر 147پر صرف اتنا درج ہے کہ سال 2015میں گلگت بلتستان میں انتخابات ہوئے مگر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں ووٹ کاسٹ ہونے کی شرح کے حوالے سے بھی رپورٹ میں کچھ نہیں بتا یا گیاہے۔اسی طرح گلگت بلتستان میں حکومت کی طرف سے ٹیکس کے نافذ کے خلاف وہاں کے عوام کے احتجاج کے حوالے سے بھی کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔

رپورٹ میں یہ تو کہا گیا ہے کہ فاٹا کے لوگ قومی دھائے میں شامل ہونے کے لئے جدجہد میں مصروف رہے ۔ تاہم گلگت بلتستان کے لوگوں کی آئینی حقوق کے حصول کیلئے طویل جد جہد پر کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق مزدوں کیلئے کم ازکم اجرت 13000تو مقررکر دی گئی مگر اس پر صحیح طریقے سے عمل درآمد نہیں ہوا۔تعلیم کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ابھی ڈھائی کروڑ بچے ابھی بھی سکولوں سے باہر ہیں ۔مزید یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صوبے بچوں کیلئے مفت اور لازمی تعلیم پر موثر قانون سازی اور پہلے سے موجود قوانین پر عمل درآمد کروانے ناکام رہے ۔اس رپورٹ کے مطابق مجموعی قومی پیداور کا محض صفر اشاریہ 42فیصدحصہ صحت کے شعبے پر خرچ ہوا۔ ماحولیات کے حوالے سے پاکستان میں موجود چار فیصد جنگلات میں مسلسل کمی آنے کے باعث مجموعی قومی پیدار میں 6فیصد نقصان کی نشاندہی کی گئی ہے۔اور مہاجریں کے بارئے میں یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ سال 2015میں نومبر کے اختتام تک 67600افغان مہاجریں اپنے وطن واپس چلے گئے ۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ 26لاکھ سے زائد پاکستانی افراد اپنے ہی ملک میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے ۔

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی اس رپورٹ کے مطابق سال 2015میں تشدد سے جان بحق افراد کی تعداد سال 2014کے مقابلے میں40فیصد کم رہی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ دوہزار پندرہ میں پر تشدد واقعات میں چار ہزار چھ سو بارہ افراد ہلاک ہوئے،دہشتگردی کے سات سو چھ واقعات میں چھ سو انیس شہری اور تین سو اڑتالیس سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے،جبکہ دو ہزار پندرہ میں اٹھارہ خود کش حملے ہوئے۔ انسانی حقوق کی رپورٹ کے مطابق دو ہزار پندرہ میں تین سو چوبیس افراد کو پھانسی دی گئی اورپینسٹھ قیدی جیلوں میں ہلاک ہوئے جبکہ فرقہ واریت کے اٹھاون واقعات اور توہین مذہب کے الزام میں بائیس افراد کو گرفتار کیا گیا۔اس کے علاوہ سیاسی رہنماوں اور کارکنوں پر اکتالیس حملے ہوئے جن میں ستاون افراد جاں بحق ہوئے۔اس رپورٹ کے مطابق سال 2015میں موت کی سزا پانے والے 324افراد میں سے اکثر کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔اس کے علاوہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ دو ہزار پندرہ میں بچوں سے زیادتی کے تین ہزار سات سو اڑسٹھ واقعات پیش آئے جس میں 1974 لڑکیاں اور 1994 لڑکے شامل ہیں۔خواتین پر تشدد کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2015میں 939 خواتین جنسی تشدد 279گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں اور اسی طرح 143خواتین کے ساتھ تیزاب پھینکنے اور آگ لگانے کے واقعات پیش آئے ۔اور 833خواتین کو اغو اء کیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین پر اتنی بڑی تعداد میں تشدد کے واقعات کے باوجود مقدمہ کے اندارج کی تعداد کم رہی۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button