کالمز

مسلم لیگ کا میموگیٹ

مسلم لیگ کا میموگیٹ پانامہ لیکس کے ذریعے وزیر اعظم کے کاروبار کے بارے میں نئے انکشافات منظر عام پر آنے کے بعد مسلم لیگ (ن)دفاعی پوزیشن پر چلی گئی ہے۔قوم سے خطاب کے نام پر وزیراعظم کی روایتی تقریر اور تقریر کے اندر تحقیقاتی کمیشن کی تجویز نے مزید بد نامی کو دعوت دی ہے ۔اگر وزیر اعظم قوم سے خطاب نہ کر تے تو صورت حال اتنی خراب نہ ہو تی ۔مسلم لیگ (ن)کی طرف سے پانامہ لیکس کے لئے “ُُٓپاجامہ لیکس “کا نام بلا سوچے سمجھے استعمال کیا گیا ۔جواب میں ” پیمپر لیکس “تک نوبت آگئی اور پوری میڈیا ٹیم پسپا ہو گئی۔ “آگے آگے دیکھئے ہو تا ہے کیا “۔سنجیدہ تجزیہ کیا جائے تو پانامہ لیکس کو مسلم لیگ کامیموگیٹ کہا جاسکتا ہے ۔سابق صدر آصف علی زرداری کے دور میں ایک سکینڈل سامنے آیا تھا ۔جس کو خفیہ میمو کے ساتھ جوڑ کر واٹر گیٹ سکینڈل کے وزن پر میمو گیٹ سیکنڈل کا نام دیا گیا تھا ۔اگر اُس سیکنڈل میں صدر زرداری کے خلاف کاروائی ہو تی توپاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کا دھڑن تختہ ہو سکتا تھا ۔لیکن صدر آصف علی زرداری نے الزام اپنے سر نہیں لیا ۔قوم سے کو ئی خطاب نہیں کیا ۔چپ چاپ تحقیقاتی کمیشن بنایا ۔معاملہ جسٹس جاوید اقبال کو سونپ دیا ۔اس کے بعد کچھ بھی نہیں ہوا ۔تحقیقاتی کمیشن کا وہی انجام ہو ا ۔جواب تک ہوتا آرہا ہے ۔ جسٹس حمود الرحمن کمیشن کی طرح جسٹس جاوید اقبال کمیشن بھی سمندر کی تہہ میں بیٹھ گیا ۔میمو گیٹ سکینڈل اپنی موت آپ مرگیا ۔پانامہ لیکس میں مسلم لیگ (ن)کی قیادت پر الزام لگایا گیا ہے کہ میاں نواز شریف کے دو بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز کے علاوہ ان کی بیٹی مریم نواز نے بھی برطانیہ اور امریکہ میں آف شور کمپنیوں کے ذریعے کاروبار کا جال پھیلا یا ہے ۔آف شور اس کمپنی کو کہتے ہیں جو کسی اور کے نام پر بنی ہو مگر اصل کوئی اور ہو ۔کالا دھن اور ناجائز طریقے سے کمائی ہو ئی دولت کو آف شور کمپنیوں کے ذریعے کاروبار میں لگایا جاتا ہے ۔کاروباری دنیا میں اس کی بے شمار فنی اور تکنیکی وجوہات ہیں ۔اب تک حزب مخالف یہ الزام لگاتی تھی ۔مسلم لیگ (ن)کی قیادت انکار کر تی تھی ۔پانامہ لیکس نے اس راز کو طشت ازبام کیا اور وزیر اعظم نے خود قوم سے خطاب کر کے اس کا اقرار کیا۔تحقیقاتی کمیشن بننے سے پہلے متنازعہ ہو گیا ۔اگر اس مسئلے کو سیاسی طریقے سے حل نہیں کیا گیا تو یہ مسئلہ وفاقی حکومت کو لے ڈوبے گا ۔سیاسی طریقے سے حل کر نے کی دو مثالیں ماضی قریب کی تاریخ میں موجود ہیں ۔پہلی مثال مشرف دور کی ہے ۔میر ظفر اللہ خان جمالی وزیراعظم تھے۔ جب مسائل پیدا ہو ئے اور میر ظفر اللہ خان جمالی کی حکومت کے لئے خطرہ پیدا ہو اتو مسلم لیگ (ق) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلا یا گیا ۔پارلیمانی پارٹی نے وزیر خزانہ سینٹر شوکت عزیز کو وزیر اعظم نامزد کیا اور ان کو قومی اسمبلی کا ممبر بناکر قائد ایوان بنانے تک چو ہدری شجاعت حسین کو وزیر اعظم کا منصب سونپ دیا ۔چار ماہ چوہدری شجاعت حسین وزیراعظم رہے ۔ستمبر 2004 ء میں شوکت عزیز نے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اُٹھایا اور اکتوبر 2007ء تک وزیر اعظم رہے ۔دوسری مثال سابق صدر آصف علی زرداری کے دور کی ہے ۔اُس دور میں یوسف رضا گیلانی کی حکومت بحرانوں سے دوچار ہو ئی ۔عدلیہ کے ساتھ ٹاکر اہو گیا ۔ایجنسیوں کے ساتھ پھڈاہو گیا ۔اسٹبلشمنٹ نے جینا حرام کر دیا تو پاکستان پیپلز پارٹی کی سنٹر ل ایگز یکٹیو کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا ۔اجلاس میں پارٹی نے فیصلہ دیا کہ بحران کو ختم کر نے کے لئے پارلیمنٹ کے اندر سے تبدیلی لائی جائے۔ اسکے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی پا رلیمانی کمیٹی بیٹھ گئی ۔طویل غور وخوض کے بعد راجہ پر ویز اشرف کو قائد ایوان نامزد کیا گیا ۔یوسف رضا گیلانی نے استعفیٰ دیدیا اور ایوان کے اندر راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔بحران ٹل گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کر لی ۔موجود ہ بحران میں مسلم لیگ (ن)کی قیادت کو بیک وقت تین الزامات سے خود کر بری کرنا ہے ۔پہلا الزام پارٹی قیادت کے خلاف مالیاتی بد عنوانی اور آف شور کمپنیوں کے ذریعے بیرون ملک حفیہ کا روبار کا ہے ۔دوسرا بڑا الزام یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) معروف معنوں میں سیاسی جماعت نہیں ۔آمریت کی پیدوار ہے پارٹی کے تمام فیصلے فرد واحد کے ہاتھ میں ہیں ۔تیسرا بڑا الزام یہ ہے کہ مسلم لیگ بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔اس کے اندر اجتماعی فیصلوں کے لئے کو ئی ورکنگ پارٹی نہیں ہے ۔اس کی پارلیمانی پارٹی کے پاس اختیارات نہیں ہیں ۔اس پارٹی میں کو ئی جمہوری طریقہ کار اب تک دیکھنے میں نہیں آیا ۔ایک شخض دولت کے بل بوتے پر پارٹی چلا رہا ہے اور پارٹی کے ذریعے دولت کما رہا ہے ۔یہ بہت بڑا الزام ہے مسلم لیک (ن) کو موجودہ بحران سے نکلنے کے لئے صرف ایک قدم اُٹھا کر تینوں الزامات کو جھٹلا نا ہو گااور مخالفین پر ثابت کر نا ہوگاکہ تینوں الزامات لغو،بے بنیاد اور جھوٹے تھے ۔وہ ایک قدم بہت آسان ہے ۔اس کا نام ہے پارلیمنٹ کے اندر سے تبدیلی لانا ۔مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی کمیٹی کاغذات میں موجود ہے ۔اس کمیٹی کا اجلاس بلا کر مسلم لیگ (ن)کے کسی دوسرے ممبر کو قائد ایوان نامزد کیا جائے ۔چار ماہ یا چھ ماہ کے لئے مسلم لیگ (ن)کا نیا وزیراعظم حلف اُٹھائے ۔کابینہ بنائے اور پانامہ لیکس کے سیکنڈل کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرواکے تمام حقائق قوم کے سامنے رکھے ۔یہ بات خصوصی طور پر قابل ذکر ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر سے تبدیلی کے نام پر کیپٹن صفدر ،مریم نواز یا حمزہ شہباز کو لایا گیا تو بحران نہیں ٹلے گا بلکہ مزید نازک صورت حال اختیار کر ے گا ۔اگر مسلم لیگ (ق) پارلیمنٹ کے اندر سے تبدیلی لاکر بحران پر قابو پاسکتی ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اپنی سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی اور پارلیمانی کمیٹی کی مدد سے مخالفین کے منہ بند کر سکتی ہے تو مسلم لیگ (ن)میں یہ صلاحیت کیوں نہیں ہے ؟ اگر اس بار مسلم لیگ (ن)نے اپنی صلاحیت کا لوہا نہیں منوایا تو مخالفین کی طرف سے”ون مین شو” والا الزام درست ثابت ہو گا ۔

 

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button