کالمز

منشیات کی لعنت سے نجات کے لئے 16 تدابیر

تحریر: ایس ایم شاہ

منشیات کی عادت ایک خطرناک موذی مرض ہے۔ یہ  خود انسان ، اس کا گھر، معاشرہ اور پورے ملک و قوم کو تباہ کردیتی ہے۔  اگر آپ خود اس نشہ کرنے والوں  سے بھی سوال کرئے کہ نشہ کرنا کیسا ہے تو وہ بھی اس کی مذمت کرنے لگیں گے۔وہ خود تو اس کے ہاتھوں اسیر ہوچکے ہوتے ہیں لیکن اس کے دام میں پھنسے کے بعد اس کے مضر اثرات کا اسے ادراک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں اس کے خلاف آواز اٹھائی جاری ہے لیکن اس کے باوجود اس میں دن بہ دن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔آخر کیوں؟  شروع شروع میں غلط سوسائٹی، زندگی کی مشکلات، بے چینی اور بے سکونی کے باعث اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ نشے کی لت لگنے کے بعد پھر اس سے نجات پانا  ایک بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ جتنے بھی ممالک ترقی یافتہ بنے ہیں ان میں سے اکثر نے اس بلا کا سختی سے مقابلہ کیا ہے۔ یہ انسان  کے جسمانی سسٹم کو مکمل درہم برہم کردیتا ہے۔ ایسے افراد ہمیشہ خوف کی حالت میں ہوتے ہیں۔ اپنے اس نشے کو پورا کرنے کے لیے انھیں بہت سارے دوسرے جرائم کا بھی مرتکب ہونا پڑتا ہے۔ چوری ڈاکہ لگانا پڑتا ہے۔مکرو فریب کے ذریعے لوگوں کو لوٹنا پڑتا ہے۔ یوں یہ موذی مرض بہت ساری دوسری معاشرتی بیماریوں کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ نشے میں شدت آنے کے بعد گٹر نالوں اور کچرہ خانوں کی وہ زینت بن جاتے ہیں۔ انھیں گلی کوچوں میں کوڑا کرکٹ کی مانند پڑے  رہنا پڑتا ہے۔

منشیات کے اسباب بے روزگاری، گھریلو پریشانیاں، زندگی میں ناکامیاں اور بری صحبت وغیرہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ افراد منشیات کے عادی ہیں۔ جن کی تعداد میں سالانہ چھ لاکھ کے حساب سے اضافہ ہورہا ہے۔ ان میں اسی فیصد مرد اور بیس فیصد خواتین ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ علاج کے ذریعے منشیات سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ معاشرتی رویوں میں تبدیلی کے بغیر منشیات کی لعنت کو ختم کرنا مشکل ہے۔ منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں بلکہ معاشرے کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ منشیات کی عالمی رپورٹ کے مطابق نوے فیصد پوست جس سے ہیروئن بنائی جارہی ہے افغانستان میں کاشت کی جارہی ہے۔ افغانستان میں پوست کی کاشت انیس سو اسی کی دھائی میں کل عالمی پیداوار کا تیس فیصد تھا۔ اب اس میں تین گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ دنیا کی نوے فیصد افیون اور ہیروئن افغانستان میں پیدا ہوتی ہے اور اس منشیات کا سالانہ چالیس فیصد پاکستان کے راستے بین الاقوامی منڈی کو اسمگل کیا جاتا ہے۔ اس کی سالانہ مالیت 130 ارب  ڈالرہے۔ پاکستان سے اسمگل ہونے والی منشیات میں سے 350 ٹن سے زائد افغان منشیات پاکستان میں ہی استعمال ہوجاتی ہے۔ اس وقت منشیات میں مبتلا افراد کے  علاج کے لیے 75 ادارے ہیں۔ اس کے خاتمے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے اور مشنری جذبے کی ضرورت ہے۔(1) بی بی سی رپورٹ کے مطابق شراب نوشی ہیرئن سے زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے۔

پاکستان میں گزشتہ سال 67لاکھ بالغ افراد نے منشیات استعمال کیا۔42لاکھ سے زائد افراد نشے کے عادی ہیں۔ ان میں سے صرف 30ہزار سے بھی کم افراد کے لیے علاج معالجے کی سہولت فراہم ہے۔ کل آبادی کے تین چوتھائی افراد ایک دن میں 2امریکی ڈالر سے بھی کم پر زندگی گزارتے ہیں۔ کل آبادی کا 4فیصد بھنگ پی رہا ہے۔ آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار افیون اور ہیروئن استعمال کرتے ہیں۔ مردوں میں بھنگ اور خواب آور ادویات کی شرح زیادہ ہے جبکہ خواتین سکون فراہم کرنے والی ادویات بھی استعمال کرتی ہیں۔ تقریبا سولہ لاکھ افراد ادویات کو بطور نشہ استعمال کرتے ہیں۔ منشیات کی وجہ سے سالانہ لاکھوں افراد داعی اجل کو لبیک کہتے ہیں۔(2)

اب گلگت بلتستان جیسے پاکیزہ معاشرے میں بھی یہ  وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔ یہ وہی سرزمین ہے جہاں چند دہائی پہلے ایسی چیزوں کا تصور ہی نہیں تھا۔ مختلف قسم کے این جی اوز ہماری ثقافت کو تباہ و برباد کرنے اور حیا و عفت کی پیکر ماں بہنوں کو انسانی حقوق کا نام دیکر گلی کوچوں کی زینت بنانے میں مصروف عمل ہیں۔ جب ان سے حیا و عفت چھن جائے گی تب ہر قسم کے فحشا  و منکر میں مبتلا ہونا ان کے لیے  کوئی مشکل بات نہیں رہے گی۔  بعض اطلاعات کے مطابق یہاں کی  بعض خواتین بھی منشیات  کےجرائم میں مبتلا پائی گئی ہیں۔  اب بعض نمائندوں کے بقول حکومتی سرپرستی میں یہاں منشیات  کو فروغ دیا جارہا ہے۔  یہ لابی اتنی مضبوط ہوگئی ہے کہ جو پولیس  آفیسر ان کے خلاف ایکشن لیتا ہے اس کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔تاکہ آئندہ کوئی ان کے خلاف آواز بلند کرنے کی جرات ہی نہ کرے۔(3)  بہت ہی افسوس کا مقام ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ معاشرے کو تباہی کی طرف دھکیلنے کی کوشش نہ کرے۔ ورنہ بعد میں حالات کنٹرول سے باہر ہوجائیں گے۔ جو جوان آج قوم و ملت کی خدمت میں مصروف عمل ہیں اور باڈروں پر سینہ سپر ہیں اگر نئی نسل بگاڑ کی شکار ہوجائے تو گلی اور کوچوں کی زینت اور ملک و ملت کی شرمندگی کا سبب قرار پائے گی۔ اس وبا سے نجات کے لیے چند راہ حل یہ ہیں:

1: والدین اپنے بچوں کا مکمل خیال رکھیں اور انھیں سختی سے غلط سوسائٹی میں پڑنے سے روک لیا  کریں۔ساتھ ہی  اپنے بچوں کو ان افراد کا انجام دکھا دیں جو گلیوں کی نکڑ پر بوسیدہ لباس میں حالت غیر ہوکر پڑے ہوتے ہیں۔ بسا اوقات تو کتا ان کا منہ چاٹتا ہے پھر بھی انھیں  معلوم نہیں ہوتا کہ کیا ہورہا ہے۔

2: معاشرے کا ہر فرد اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنے معاشرے میں موجود ایسے شر پسند عناصر سے نجات کے لیے مل کر کوشش کریں۔

3: علماء کرام محراب و منبر سے اس کےدنیوی اور اخروی  نقصانات بیان کرنے میں خوف محسوس نہ کریں۔

4: نشے میں  مبتلا تمام افراد کے علاج معالجے کا انتظام ہو اور اس عادت سے نجات پانے تک دوسرے لوگوں کو ان کے ساتھ پھرنے سے روکنے کا منظم سسٹم بنایا جائے۔

5: نشہ آور چیزیں سپلائی کرنے والوں کو کڑی سزا دی جائے اور ان کے سرغنے کو پھانسی پر لٹکایا جائے تاکہ کوئی ایسے جرائم میں پڑنے کی جرات ہی نہ کرے۔

6: معاشرے میں جو بھی اس بیماری میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو  پہلے ان کو سمجھائیں پھر ان کے والدین کو اطلاع دیں اس سے بھی کا م نہ  بن جائے اور وہ منشیات کا شکار ہوجائے تو  ان کوعدالتی کٹہرے میں ڈالا جائے۔

7: نفسیاتی طور پر ان کو سدھارنے کے لیے ایسی پروگرامینگ کی جائے کہ خود نشہ کرنے والے  ایک دوسرے کو اس کام کو چھوڑنے کی نصیحت کرنے لگ جائیں۔

8: نشے سے حالت غیر ہونے والے افراد کو ٹی وی پر ان کی انٹرویو نشر کی جائے اور ان کی شکل غیر کرکے دکھائی جائے تاکہ بچوں کے تحت شعور میں یہ بات بیٹھ جائے کہ یہ ایک خطرناک چیز ہے۔

9: جو پروگرامز  جرائم سے مربوط شکیل پاتے ہیں ان  پروگراموں  کے ذمہ دار افراد ان اڈوں پر بھی چاپے ماریں جہاں نشہ  کرنے والے افراد جمع ہوکر رہتے ہیں اور ان کا حقیقی چہرہ لوگوں کو دکھادیں۔ اس سے ایک طرف ان کی  مضبوط لابی کمزور پڑ جائے گی تو دوسری طرف  ان سے مربوط افراد جو ابھی تک ان کی حالت زار سے نابلد ہیں وہ آگاہ ہوجائیں گے  اور ان کے خلاف اقدامات اٹھانا شروع کریں گے۔

10: حقیقی اسلام کا چہرہ تمام لوگوں کے لیے متعارف کرایا جائے اور نشہ آور چیزوں کے استعمال کے نقصانات سے  اسلامی معاشرے کو آگاہ رکھا جائے۔

11: حکومت کو چاہیے کہ منشیات کی سپلائی میں ملوث افراد خواہ وہ بیوروکریٹ ہو یا کسی دوسرے بڑے عہدے پر فائز ہو سب سے پہلے ان کے خلاف ایکشن لینا شروع کرے۔

12: اس سرطان میں مبتلا افراد کے علاج معالجے کے لیے ہر صوبے میں الگ الگ  زیادہ سے زیادہ سنٹرز بنائے جائیں تاکہ کافی حد تک یہ وبا مزید پھیلاؤ سے بچ سکے۔

13: افغانستان سے آنے والی منشیات کے روک تھام کے لیے فوج کی زیر نگرانی  ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔

14:  یہاں سے سپلائی کرنے والوں کو  پکڑ کر فوجی عدالت میں ان کے خلاف مقدمہ چلایا جائے۔

15: تعلیمی نصاب میں منشیات کے مضر اثرات کو نمایاں کرکے پیش کیا جائے۔

16:   لوگوں کی سطح زندگی کو بلند کرنے کے لیے کوئی کسر باقی نہ چھوڑی جائے۔ غرض اس خطرناک وبا سے نجات اس وقت ممکن ہے جب تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی قومی، ملی اور دینی فریضہ سمجھ کر اس کے خلاف ایک منظم حکمت عملی کے ساتھ برسرپیکار ہوجائیں گے۔

1:(اویس فاروقی، اردو پوائنٹ27-6۔2013)

2: (ڈیلی کے ٹو، 15فروری2016)

3: ایضا، 3 اپریل

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button