کالمز

دیوانوں کی باتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لا وارث ٹنل

 تحریر: شمس الحق قمرؔ

لواری ٹنل چترال کی باسیوں کے لئے من و سلوی ٰسے کسی قدر کم نہیں اس پر اللہ تعالیٰ کا جنتا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ سردیوں کے موسم میں جب لواری پاس برف سے ڈھکا رہتا تو پشاور سے چترال اور چترال سے پشاور جانا جگر جوکھوں کا کام ہوتاتھا ۔چترال کے ہزاروں باسی لواری چڑھتے ہوئے برفانی تودوں کے تلے دب کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے خاندان والوں کو داغ مفارقت دے کر کوچ کر گئے ہیں۔ لواری پاس ایک ایسے وہشت ناک جن کی مثال تھا جو اپنے شکار کو بے دردی سے ہڑپ کر جاتا تھا ۔ سن نوّ ے کی دہائی میں جب سوویت یونین کی فوجیں افغانستان سے واپس ہوئیں تو چترالیوں کو بہ راستہ افغانستان پاکستان جانے کی جزوی اجازت دی گئی ۔ یہ راستہ کشادہ تو تھا تاہم دل میں جانی خطرات کا کھٹکا ہمیشہ لگا رہتا ۔بم دھماکے ، ڈاکے اور بلا وجہ تنگ کرنے کا ایک لا متناہی سلسلہ اس راستے میں بھی تھا۔قصہ مختصر یہ کہ چترال کے عوام سردیوں میں پورے چھے مہینے پاکستان سے منقطع رہتے تھے ۔ دنیا کی تاریخ اور نقشے میں ایسا کوئی ملک موجود نہیں جس کی پانچ لاکھ سے زیادہ کی آبادی سال کے چھے مہینے اپنے ملک سے منقطع رہے۔ شاید ماضی قریب میں پاکستان واحد ملک تھا جس کے ایک حساس ضلعے کا زمینی رابطہ سال میں چھے مہینے کے لئے بالکل بند ررہتا ۔ ملک کے ایسے حصے کا دیر تک زندہ رہنا معجزے سے کم نہیں ۔ یہی معجزہ صرف اس خطے کو ہی عطا ہوا ہے جسے ہم رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا ضلع اور پاکستان کے نقشے میں موجود تمام ریاستوں میں پاکستان میں ضم ہونے والی اُس مشہور اور پہلی ریاست کے نام سے جانتے ہیں جو کہ نہ صرف پاکستان میں ضم ہوئی بلکہ پاکستان کی تعمیر میں ریاستی خزانے سے خطیر رقم بھی چندے میں دیا ۔20160405_133551

لواری ٹنل میں کام عرصہ دراز سے جاری ہے ہم نے پرائمری جماعت کی اُردو کی درسی کتاب میں ایک کہانی سن رکھی تھی ’’ مسجد محابت خان‘‘ اس منصوبے کو دیکھ کر وہ سبق بار بار یاد آتا ہے ۔ہم حیران ہیں کہ حکومت گرمیوں میں اس سرنگ کے اندر کام کیوں نہیں کراتی؟ جبکہ عطا ء آباد ( گلگت بلتستان ) میں دو سالوں کے اندر اندر دنیا کا خوبصورت ترین ٹینل بنا کے دیا گیا جس کے اندر تمام جدید سہولیات موجود ہیں ۔طوالت میں یہ سرنگ بھی یہی کوئی سات کلومیٹر لمبا ہے ۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ لواری ٹنل در اصل لاوارث ٹنل ہے ۔ جس کا کوئی پرسان حال نہیں جتنے لوگ اندر کام کرتے ہیں اسی سست روی سے اگر کام اسی طرح جاری رہا تو آئندہ کئی عشرے گزر جائیں گے ۔ اس ٹنل کے اندر کوئی پچاس مزدور کام کر رہے ہوں گے یہی وجہ ہے کہ یہ ٹنل ایک ہفتے میں صرف دو دنوں کے لئے کھلا رہتا ہے اور ان دو دنوں میں ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں لواری کی دونوں طرف اپنی باری کا انتہائی بد انتظامی کے ساتھ انتظار کر رہی ہوتی ہیں ۔

لواری کے دونو ں طرف پاکستان آرمی ، چترال سکاوٹ اور پولیس کے جوان حالت جنگ میں کھڑے ہیں لیکن مسافروں اور ڈرائیوروں میں نظم وضبط نام کی کوئی چیز نہیں ۔ میں وقت پر لواری ٹینل پہنچا تھا ، میری گاڑی سے آگے دو فوجی گاڑیاں تھیں جنہیں سب پہلے چھوڑنا تھا اس کے بعد باقی گاڑیوں کی باری تھی ۔ پیچھے گاڑیوں کی ایک لمبی لائن لگی ہوئی تھی دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ چترال سکاؤٹ بڑے انتظام و انصرام کے ساتھ اپنے کام میں منہمک ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی ۔ ہماری لائن کی دوسری طرف اُ ن گاڑیوں کو پارک کیا جاتا جو دیر سے آئی تھیں ۔ لیکن افسو س کا مقام یہ تھا کہ سکاؤٹ کے کچھ تعلقدار نوجواں کچھ گاڑیوں کی راہنمائی کرتے ہوئے آگے لے جاتے تھے ( بعد میں معلوم ہوا کہ یہ نوجواں ذاتی مراسم کی بنیاد پر اپنے جاننے والوں کی گاڑیوں کو ٹینل سے گزارتے تھے) ۔ میں نے بھی اپنی گاڑی لائن سے نکال کر سفارشی گاڑی کے پیچھے دوڑانے کی کوشش کی مگر چترال سکاؤٹ کے ایک بندو ق بردار نوجوان نے مجھے روکے رکھا اور پر خلوص تنبیہ کی کہ اگر میں نے لائن چھوڑنے کی کوشش کی تو میں پیچھے رہ جاؤں گا ۔

نوجواں کی بات درست معلوم ہوئی میں دوبارہ اپنی جگہے پر آگیا۔ مجھے اُردو کی درسی کتاب کا ایک اور مضمون یاد آیا’’ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا ‘‘ لواری کے اِس طرف گاڑیوں کی قطار اور پریشان حال لوگوں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ ’’ سلطان افلاک کے دربار سے حکم جاری ہوا ہے ‘‘ اگر خدا نا خواستہ کسی نے لواری ٹینل عبور کرنے میں تا خیر کی یا گاڑی میں کوئی فتور آیا اور وہ رہ گئی تو گویا وہ تباہ و برباد ہوگئی یا ایسا کہ اُس گاڑی میں موجود تمام مسافر زندگی بھر کے لئے رہ گئے لہٰذا دوسروں کو کچل کے اپنی جان بچاتے ہوے آگے جانا لازم تھا ۔ ہمارے سامنے فوجی گاڑی جب اسٹارٹ ہوئی تو گویا ایک بھونچال سا آگیا۔ کوئی ہوش میں نہیں تھا طوفان بد تمیزی کی حد یہ کہ کناروں میں جن گاڑیوں کو پارک کیا گیا تھا وہ بھی ہماری طرف لپکنے لگیں ۔ اگر قانونی قطار میں کھڑی گاڑی کے کسی ڈرائیور نے غلطی سے آگے والی گاڑی کے پیچھے ایک فٹ کا فاصلہ بھی چھوڑ دیا تو سائیڈ والی گاڑی گھس گئی ۔

Capture

اس دھکم پھیل میں کئی ایک گاڑیاں ایک دوسرے سے ٹکراتی اور آگے چلتی رہتی ہیں ۔ جو سکاؤٹ ، فوجی یا پولیس گاڑیوں کے چلنے سے پہلے قطاریں بناتے تھے وہ بھی کہیں غائب ہو جاتے ہیں ۔آدمی بے سہارا ہوجاتا ہے بس آگے جانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے پڑتے ہیں یہ ایسا مقام ہے جہاں کوئی کسی کے کام نہیں آتا ۔ میں جب ٹینل کے اندر داخل ہوا تو ایسا لگا کہ میں خواب میں گاڑی چلا رہا ہوں ۔ اندر راستہ بالکل ڈھوان ہے دونوں طرف گدلے پانی کی ندیاں بہتی ہیں جن کی نکاسی کا کوئی خاطر خواہ انتظام فی الوقت نہیں ہے لہٰذا ٰ ٰیہ پانی پورے راستے کو لے کے بہتا ہے اور ہمارے ڈرائیور حضرات اپنی گاڑیوں کو اُس گدلے پانی کے اُوپر سے ایسے دوڑاتے ہیں کہ ٹینل کا سارا کیچڑ مسافروں پر گرتا ہے ۔ ٹینل کی دوسری طرف نکلنے کے بعد جب تک صحیح طرح سے نہایا نہ جائے ، اپنے ساتھ بیٹھے مسافر کو پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے ۔اسی راستے میں لوگ گاڑیوں کو کچھ اس ادا سے چلاتے ہیں گویا وہ اُن کی ذاتی گاڑیاں نہیں ہیں ۔ اور شاید وہی لوگ گاڑیوں پر ظلم کرتے ہیں جو دوسروں کی گاڑیوں کو چلاتے ہیں ۔

20160405_133403

اس سفر کے بعد میرے ناقص ذہن میں چند ایک تراکیب آئیں سوچا کہ لواری کے اُس پار چترال سکاؤٹ کے اُن زمہ دار لوگوں کے گوش گزار کروں جو میرکھانی پوسٹ میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ اس تحریر کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ چترال سکاؤٹ کے نوجوان اپنے فرائض میں کوتاہی کر رہے ہیں ۔تاہم سکاوٹس کی تعداد بڑھانے کے علاوہ کچھ افسروں کو بھی ڈیوٹیاں دی جائیں تو بہتری آئے گی۔

۱- رشتہ داری اور اقربا پرروی کے بل بوتے پر کام کرنے سے گریز کیا جائے

۲- کسی اور گاڑی کو قطار میں گھسنے نہ دیا جائے ۔

۳- جن گاڑیوں پارک کیا جاتا ہے اُن کے اور قطار میں کھڑی جانے کے لئے تیار گاڑیوں کے بیج کوئی لائین، رسی یا کوئی پٹی کھینچی جائے تاکہ کوئی گاڑی غیر قانونی طور پر لائین میں گھس نہ سکے

۴- جو ڈرائیور اوور ٹیک کرتا ہے اُسے موقعے پر پکڑ کے قرار واقعی سزا دی جائے یا ایسے ڈرئیوروں کو سزا کے طور پر واپس بھیج دیا جائید

۵- ٹینل کے اندر بیس یا بیس سے کم کی رفتار سے گاڑیاں چلائی جائیں ۔ ٹنل کے اندر کسی کو بھی اوور ٹیک کرنے کی اجازت نہ دی جاے ۔ گاڑیوں میں مخصوص فاصلے رکھے جائیں ۔

۶- اقربا پروری سے اجتناب کیا جائے

یہ وہ مشورے ہیں جو کہ اس تجربے سے دوچار ہونے والے ہر مسافر کو ازبر ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button